تھانہ، تحصیل اور ریاست کی عملداری


تھانہ اور تحصیل دونوں ریاست کی عملداری کی علامات میں سے ہیں۔ دونوں اپنے لحاظ سے بڑے اہم بھی ہیں۔ دونوں کی سیاسی، رواجی اور روایتی پہلو بہت اہم ہیں۔ تھانہ اور تحصیل یا اس طرح کے دوسرے ادارے ہمارے ہاں ریاستی قیام سے ائے ہیں۔ جن علاقوں میں ریاست کے یہ ادارے نہیں ہوتے تھے ان کو یاغستان کہا جاتا حالانکہ وہاں دوسرے ادارے اسی طرح کے ہوتے تھے مگر ان کو درخوراعتنا نہیں سمجھا جاتا۔

بنیادی طور پر تھانہ و تحصیل کا مقصد ریاست کے قانون کی عملداری ہوتا ہے۔ ریاست چاہے جیسی بھی ہوتی یا اس کے قوانین جس طرح کے بھی ہوتے تھانہ و تحصیل کو مقامی سطح پر ان پر عملدرامد کروانا ہوتا تھا۔

ریاست کے قیام اور انصرام میں دو چیزوں کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔ حکمرانوں کے خلاف کسی بھی بغاوت کو کچل دینا اور حکمرانی کے یے معیشت کا اہمتام کرنا یعنی لوگوں سے ٹیکس/عشر/جزیہ وغیرہ وصول کرکے ریاست کی حکمرانی میں آسانی پیدا کرنا۔

ریاست میں شہریت، شہری کے حقوق جیسے معاملات بعد میں شامل ہوئے ہیں اور ان کے لیے دنیا کئی انقلابات سے گزری ہے۔ اس سے پہلے حکمران اور رعایا ہوا کرتے تھے۔ کوئی شہریت یا شہری حقوق کا تصّور نہیں تھا۔

ریاست نے ہمیشہ ایسی روایات کو دوام بخشا جو انسانوں میں تفریق، سماجی اونچ نیچ اور سماجی ڈھانچے میں تفاوت کو نہ صرف برقرار رکھے بلکہ کئی صورتوں میں اسے مزید پروان چڑھائے۔ یوں یہ ادارے ریاستی طاقت کے مراکز گردانے گئے اور ان کے اہلکاروں کی عزت معاشرے میں پختہ ہوگئی۔ سماج کا جو بندہ ان اہککاروں کے قریب رہا اس سے لوگوں کی توقعات زیادہ ہوگئے اور وہ معتبر ٹھرا۔

دوردراز علاقوں اور قدیم روایات میں بندھے معاشروں میں ”تھان تحصیل“ سماجی استعارے بن گئے۔ جن لوگوں کو ان سے قربت رہی وی سیاست کرتے رہے۔ یہ سلسلہ برطانوی دور میں بہت اگے بڑھا۔ متحدہ ہندوستان میں جن لوگوں کو انگریز سے قربت تھی وہ ہمیشہ معتبر ٹھرے۔ یہی معتبر لوگ بعد میں جاکر سرحد کے دونوں طرف نو زائدہ ریاستوں میں حکمران بن گئے جن سے ابھی تک دونوں ممالک پاکستان و ہندوستان چھٹکارا نہیں پا سکے۔ ان لوگوں میں سیاستدان، فوجی و سول افسرشاہی اور ریاست کے پروردہ دانشور و مولوی نمایاں رہے۔

ہمارے ہاں توروال میں ریاست سوات اپنے قیام کے سات سال بعد یعنی 1922 ء میں آئی۔ اس سے پہلے یہاں کے لوگ اپنے مقامی سیاسی نظام کے تحت معاملات چلا رہے تھے جہاں نا انصافی، جرائم یا ظلم اپنے طور پر موجود تھے۔ ریاست کے بعد بھی یہ روایات اپنی جگہ رہیں۔ البتہ جب کسی مقامی فرد نے ریاست کی مخالفت کی اسے راستے سے ہٹایا گیا۔ مقامی لوگوں کو تقسیم کرنے کا سلسلہ برقرار رہا تاکہ ان کو قابو میں رکھا جاسکے۔

یہاں ریاست کی ان علامات کو قلعوں کی شکل دے کر مضبوط کیا گیا۔ تحصیل دار یا حکیم مقامی بادشاہ ہوتا تھا اور ان سے جن لوگوں کا تعلق ہوتا وہ مقامی لیڈر بن جاتا۔ کئی دہائیوں بعد اس سلسلے میں ٹھہراؤ سا اگیا۔ یہ سلسلسہ جاری رہا کہ 1969 میں ریاست کا ادغام پاکستان کے ساتھ ہوگیا۔ اسی کے ساتھ ہی نئے جھمیلے شروع ہوگئے۔ مرکزی ریاستی اداروں کا عمل دخل شروع ہوا۔ یہاں انتخابی سیاست شروع ہوگئی۔ اس میں مرکزی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے لیے نمائندوں کا انتخاب لازمی ہوگیا۔

مگر ان انتخابات میں وہی روایات نمایاں رہے جن کو ریاست سوات نے پروان چڑھایا تھا۔ یعنی سیاست کسی ترقی، تعلیم یا صحت کی سہولیات کے لیے نہیں بلکہ تھان تحصیل کے گرد گھومتی رہی۔ لوگوں کے ووٹ کو وہی شخص جیت سکتا جو لوگوں کی خدمت ”تھان تحصیل“ میں کرسکتا۔ یعنی وہ اپنی مقامی، نسلی یا علاقائی غیرت کی وجہ سے کوئی جرم کرے۔ بات تھانہ و تحصیل تک پہنچ جائے اور ان کا نمائندہ انہیں وہاں سے ”رعایت“ دلاسکے۔ روایات میں تبدیلیاں اتی ہیں۔

1980 ء کے بعد ایک نئی لہر ائی جس نے لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر سیاست پر اکسایا۔ لوگوں کو شریعت کے نام پر سہانے خواب دکھائے جاتے اور وہ ان رہنماؤں کو ووٹ ڈالتے رہتے۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ وہ خالص دین کی خدمت کر رہے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اصل میں ایک خاص بین الاقوامی منصوبے اور ان کے مقامی کارندوں کی خاطر وہ ایسا کر رہے ہیں۔

بعد میں تھان تحصیل والے مقصد کے ساتھ ایک اور مقصد شامل ہوگیا۔ یعنی ووٹ اسی کو دینا ہے جو کسی کی فوتگی میں جاکر فاتحہ خوانی کرے۔ یہ عمل حالیہ وقتوں میں اس قدر بڑھ گیا کہ سیاسی عزائم رکھنے والے افراد دن رات فوتگیوں کی فاتحہ خوانی میں سرگرم رہتے۔

ایسے میں مسائل کا ادراک کسی کو نہ رہا اور نہ کسی نے مسائل کے حل کے لیے کسی کو ووٹ دیا۔

تھان تحصیل کے اس کلچر اور اس سے جڑی طاقت نے اس قدر جڑیں پکڑی ہیں کہ بہت سارے مقامی رہنما ء کسی افسر کے ساتھ فوٹو کھنچوانا اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں۔ اس پر حیرانی ہوتی ہے لیکن جب اپنے دیہات میں لوگوں کی سوچ کو جانچے تو پتہ لگے گا کہ ہمارے یہ مقامی رہنما ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ دیہات میں اب بھی لوگ اس شخص کو بڑا معتبر سمجھ رہے ہیں جس کا تعلق تھان تحصیل والے کسی اہلکار سے ہوتا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔

ہماری نظر اپنی دہلیز سے پرے دیکھ نہیں سکتی۔ ہم گاؤں کی سطح پر کسی نامعلوم ”غیرت“ کی وجہ سے اپنے پڑوسی سے ہمیشہ ”پختو“ یعنی تعلقات کشیدہ رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے جھگڑے کرتے ہیں۔ حد درجہ قانون و عدالت سے اور اپنے شہری حقوق سے ناواقف ہیں اس لیے ہمیشہ ایسے مقامی رہنماؤں کے کاسہ لیس رہتے ہیں۔ کبھی سوچتے نہیں کہ پڑوسی سے اخر جھگڑا کیا ہے اور اس کا کوئی مبتادل حل موجود ہے کہ نہیں۔

ملکی سطح پر جب تھانہ تحصیل اور شریعت کے نعروں میں جان نہ رہی تو ایک اور نعرے کو ”تبدیلی“ کا نام دے کر تیار کیا گیا۔ پہلے مخالفین کے خلاف ”اسلام دشمن“، ”لادین“، ”سکیوریٹی رسک“ جیسے نعرے استعمال ہوتے تھے۔ اب کے بار تبدیلی کے بینر تلے ”کرپٹ“، ”چور“، ”ڈاکو“، ”غدّار“، ”دیسی لبرل“ اور ”ملک دشمن“ جیسے نعرے گھڑے گئے۔ پہلے سے ستائے لوگوں کو باور کرایا گیا کہ اب کہ بار بس ان کی قسمت چمکی۔ زیادہ تر توجہ اس پود پر دی گئی کہ جن کی عمر کم ہے اور ان کو تاریخ کا کوئی مشاہدہ حاصل نہیں اور نہ ہی وہ ایک خاص نظریاتی زاویے سے پرے دیکھ سکتے ہیں۔

اسی طرح ان کو ماضی کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ وہ کرکٹ کی دلداہ تھی۔ اسی لیے ان کے مرغوب میدان سے ایک بت کو تراش کر میڈیا کے ذریعے ایسا پیش کیا گیا گویا کوئی نیلسن مینڈیلا، چی گویرا، لنکن پاکستان میں نازل ہوا ہے۔ اس بت کو اقتدار میں لایا گیا۔ اس پود کو مسلسل نئے میڈیا کے ذریعے پروپیگینڈا کے سحر میں گرفتار رکھا گیا تاکہ وہ شورشرابا کرسکے اور سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھال سکے۔ ان کے ہاتھ ٹھپوں کی صورت میں ایسے استرے دیے گئے کہ وہ اس سے اپنے باپ کی بھی حجامت کرسکے۔ عوام کی حجامت اب ان کے ذمے ہے جبکہ ملک میں میڈیا، سیاستدانوں اور صحافیوں کی حجامت کوئی اور کے ذمے ہے۔ سلسلہ جاری ہے۔ تماشا کیجئے اور تالیاں بجاتے رہے تاوقتیکہ اپکی عمر پک جائے اور اپکی سوچ میں ٹھراؤ و پختگی اجائے۔

تبدیلی جس کے لیے ہم سرگرداں ہیں ایک بہت بڑے سماجی عمل کا نام ہے۔ اس میں مقامی و ملکی سطح پر معاشروں کا جدید ہونا ہے اور دنیا کی اور اقوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے۔ اس سے مراد دنیا کی تہذیب، سائنس و علوم میں اپنا بھرپور کردار ڈالنا ہے۔ تبدیلی وہی ہوتی ہے جب ہمارے رویّے تبدیل ہوں اورروایات میں سے غیر انسانی عناصر نکل جائے۔ تبدیلی وہی مثبت ہوتی ہے جہاں لوگوں کی تخلیقی صلاحیت بڑھے، فکر آزاد ہوں اور وہ سوچ پر قدغن نہ ہو۔ مرکز و مضافات میں ترقیاتی تفاوت نہ رہے۔ قانون و آئین شہریوں کے تحفظ کے لیے ہوں نہ کہ شہری ان کے تحفظ کے لیے۔ خوف کو تبدیلی نہیں کہا جاسکتا۔

جبر سے تبدیلی نہیں اسکتی اور نہ ہی اوازوں کو بند کرنے سے تبدیلی اتی ہے۔ گندگی کے ڈھیر پر چاہے جتنے چادر چڑھائے خوشبو نہیں آئے گی۔
یاد رہے اگر ریاست ہمیشہ درست ہوتی تو اج نیلسن منڈیلا، چی گویرا، لینن، لنکن، بھگت سنگھ، علی شریعتی، مرسی وغیرہ ہیرو نہیں ویلین ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).