پاکستان کے یتیم مسکین عوام اور لاڈلے اماراتی


مہینے کے شروع کے دن ہیں اور ورکنگ ڈے، منگل۔ مگر ابوظہبی کی ایک عرب آبادی والے علاقے کی سپر مارکیٹ ایسے بھری ہے عوام سے کہ جیسے جمعہ بازار لگا ہو یا مفت مال بانٹا جا رہا ہو۔ ایک ایک ہاتھ میں کئی کئی ٹرالیاں، لدی پھدی، لائن میں لگی، راستہ روکے کھڑیں، تھیلوں کے تھیلے، کریٹ کے کریٹ! ہاں! مگر خریدار سب اماراتی ہیں۔ ہم جیسے باہر سے روزگار کی تلاش میں آنے والے تو اپنی ایک ایک ٹرالی لئے بیچ میں پھنسے شرما رہے ہیں، گھبرا رہے ہیں کہ ان میں ہماری باری جانے کب آئے۔ کچھ کچھ حسد سے، کچھ کچھ افسوس سے، کچھ حسرت سے دل میں اک آہ ابھرتی ہے ”ہائے، ہم یتیم مسکین پاکستانی! “

یہ مارکیٹ دراصل اماراتی لوگوں کی کالونی میں ہے۔ مگر یہاں نہ جمعہ بازار لگا ہے نہ مفت میں مال مل رہا ہے۔ یکم دوم میں شاید عرب لوگوں کے حکومتی راشن کارڈ میں نیا بیلنس آیا ہے اور سب اپنے اپنے گھر کا سودا لینے مارکیٹ پہنچے ہیں۔ یہ راشن کارڈز حکومت کی طرف سے ہر اماراتی کو دیے جاتے ہیں جس میں گروسری کے تماتر سامان میں ان کو محض نام کی نہیں بہت بڑی ڈسکاؤنٹ ملتی ہے۔ اصل عظیم الشان قیمتیں تو ہم باہر سے درہم کمانے کی خواہش میں آنے والوں کے لئے ہوتی ہیں۔ سو جتنے میں ہماری یہ ایک ٹرالی بھرتی ہے ان کی کئی کئی بھر جاتی ہیں۔

ان ٹرالیوں کے بیچ میں پھنسے ہم پاکستانی آہیں بھرتے ہیں کہ ہم تو پاکستان بھی چلے جائیں تو ہمیں یہ سکون نہ ملے۔ ہمیں یہاں یہ رعایتیں نہیں ملتیں تو بات سمجھ میں آتی ہے، ہماری سرزمین جو نہیں، مگر وہ جو ہماری سرزمین ہے، وہ ہمارے لئے کیا کرتی ہے؟ اور بس پھر آہ در آہ، ٹھنڈی آہوں کا اک طویل سلسلہ چلتا ہے۔

یہ شاپنگ مال، اس کے اردگر آباد ایک وسیع علاقہ اور اس سے ملحقہ کئی کئی آبادیاں اور بستیاں حکومت نے گھر تعمیر کر کے عوام میں مفت بانٹے ہیں ساتھ میں ایک کثیر رقم سازو سامان کی مد میں اخراجات کے لئے۔ یا پھر بنے بنائے گھروں سے بھی بڑے پلاٹ مفت میں امارتی عوام کو دیے ہیں تا کہ ان پر گھر تعمیر کیے جائیں۔ اور یہ پلاٹس مرلوں پر نہیں کئی کئی کنال کے ہیں ایک ایک احاطے میں دو دو، تین تین کمپاونڈ ولاز کھڑے ہیں۔ یعنی ایک ایک ولا کی عمارت میں تین تین گھر۔ وہ سب باہر سے نوکری کی خاطر آنے والوں کو اماراتی عوام نے کرایے پر دے رکھے ہیں۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔

بٹن دباؤ تو روشنی، بٹن دباؤ تو اے سی کی ٹھنڈک، ٹوٹی کھولو پانی، پختہ اعلی معیار سڑکیں اور سڑکوں پر صفائی، درختوں تک کی کٹائی اور صفائی ستھرائی، مفت کے گھر، راشن کے خرچے، اعلئی ترین معیار زندگی مگر سستا، جدید ترین سہولیات مگر کم سے کم خرچے میں آپ کے دروازے پر! لگتی ہے نہ یہ کسی جھوٹی داستان کا حصہ؟ ہم پاکستانیوں کو ایسا ضرور لگتا ہے کہ ہم نے تو ایسا اسی 80 دہائیوں میں نہ دیکھا نہ سنا۔ عوام کو مفت کے بڑے عالیشان تعمیر شدہ گھر، یا مفت کے یا برائے نام قیمت کے پلاٹ، اور بڑے بڑے معاف ہو جانے والے قرضے۔

کوئی الف لیلوی سی داستان لگتی ہے ناں۔ مگر یہ وہ مراعات ہیں جو اماراتی حکومت اپنے اماراتی عوام کو دیتی ہے۔ اور یہ غریب عوام اپنی بڑی بڑی ٹرک سائز کی لینڈ کروزرز، پراڈو، جی ایم سی، اور جانے کس کس میں لاد کر روانہ ہو جاتی ہے۔ یاد رکھیں یہ سہولیات غربت کی لکیر سے نیچے سڑنے مرنے والی عوام کے لئے نہیں ہیں کیونکہ امارات میں لوکلز میں ایسی غربت کا نام و نشان تک نہیں۔ اماراتی عرب غریب سے غریب تر بھی وہ جس کے گیراج میں صرف ایک یا دو گاڑیاں کھڑی ہوں۔

عرب امارات میں خود کشی کر لینے والے، بھوکے ننگے عوام، جل مرنے والے، سمندر میں بچوں سمیت کود جانے والے، آدھے پاگل عوام نہیں پائے جاتے۔ اس لئے ایسے عوام کو تیسری دنیا کے ہمارے جیسے ممالک سے درآمد کر کے ان کو نوکریاں دی جاتی ہیں، وہ نوکریاں ان معاوضوں کے ساتھ جو ان کی ماں جیسی زمین ان کو دے نہیں پاتی۔ پھر اس رزق کی خاطر یہ لوگ گرم سڑکوں پر سو جاتے ہیں، لیبر کیمپس میں دو فٹ کے بستر پر دس دس لوگوں کے ساتھ ایک ایک کمرے میں سالہا سال اس خوشی میں زندہ رہ لیتے ہیں کہ اپنے دییس کی خودکشی سے یہ تنگی اچھی۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں جتنا مرضی ان لیبر کیمپس کی حالت کو بدتر کہہ لیں، ترقی یافتہ ممالک جیسا مرضی اسے ظلم کہہ کر پکار لیں مگر ان مزدوروں سے پوچھیں کہ آخر واپس کیوں نہیں جاتے؟ کیونکہ اپنے دیس میں واپسی کا مطلب بچوں کو سینے سے لگا کر سمندرمیں کودنا یا چھت سے لٹک جانا۔ یہاں ایک جان سکون سے پل بھی جاتی ہے اور دوسروں کے لئے تھوڑا سا تر نوالہ بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ یہ اپنے دیسوں کے یتیم بچے ہیں ان کے لئے یہ لیبر کیمپس بھی کسی جنت یا جائے امان سے کم نہیں۔

ان اماراتی عرب بستیوں میں خالی کھنڈر زمین نہیں بانٹیں جاتی کہ جہاں جا کر عوام کو دنیا بسانی ہو گی۔ یہاں اعلی کارپٹڈ سڑکوں کا جال بچھایا جاتا ہے، علاقے کو سٹریٹ لائٹس اور روشنیوں سے جگمگایا جاتا ہے، صاف پانی اور سیوریج کا مکمل انتظام کیا جاتا ہے، سڑکوں کی صفائی، درختوں کی کاٹ چھانٹ اور دیکھ بھال، بلدیاتی، انتظامی سہولیات پہنچائی جاتی ہیں، اعلی سرکاری ہسپتال بنائے جاتے ہیں اور شاپنگ کے لئے بڑی مارکیٹس، بقالے اور شاپنگ مالز۔

پھر بنتی ہیں یہ بستیاں اماراتی لاڈلے عوام کے رہنے کے قابل۔ ہماری طرح تھوڑی کہ ساری عمر کما کر اک چھوٹا سا ڈربہ بناؤ اور پھر ساری عمر اس کے راشن پانی کو پورا کرتے فوت ہو جاؤ۔ پانی ملے تو بجلی نہ ہو، بجلی آئے تو گیس نہ ہو، گھر سے باہر گندے نالے، کوڑے کے ڈھیر، توے پر روٹی نہیں، بیمار کے لئے دوا نہیں، گرمی میں پنکھا نہ چلے سردی میں ہیٹر ناقابل حصول عیاشی بن جائے۔

امارات کے سرکاری ہسپتال اور سرکاری سکول، ایسے باکمال، جدید، خوبصورت اور سٹیٹ آف دی آرٹ کہ جیسے یہاں کے پرائیویٹ بھی نہیں۔ پرائیویٹ سکولوں کی فیسس ہزاروں میں، سرکاری سکولوں کی عرب عوام کے لئے سینکڑوں میں! سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتالوں کے لئے انشورنس کارڈز بھی جن میں علاج صرف چند درہموں کے عوض، کبھی کبھار تو کافی کے کپ سے بھی سستا اور وہ بھی سر سر، میڈم میڈم، آگے پیچھے عزت مآب، جناب اعلیٰ کرتے عملے کے ہاتھوں، عزت سے، تعظیم سے، تکریم سے۔

کیا ہو گا اس عوام کی ذہنی صحت کا عالم؟ زندگی اتنی پرسکون ہو تو کس کافر کو غرض ہے کہ بادشاہ کون ہے، وزیر کون، حکومت کس کی ہے اور کیسی۔ بدتر ہو گا یہ سسٹم مگر اس سے زیادہ نہیں کہ عوام کو نہ روٹی ملے، نہ کپڑا، نہ صحت، نہ تعلیم، نہ بجلی اور نہ پانی، مگر پھر بھی ”ایک زرداری سب پر بھاری“ اور ہمیں کیوں نکالا؟ ”کے نعرے مقبول ترین نعرے!

ہمارے ہاں تو ایک روٹی کپڑے مکان کے وعدے پر نسلوں نے حکمرانی کر لی مگر آج تک عوام کو امیروں کے کتوں کے برابر کی بھی روٹی نہ ملی۔ کپڑا اور مکان تک تو بات ہی نہ گئی۔ الٹا بجلی، پانی، گیس سب کچھ چھن چکا۔ اس عوام کے غریب کو تو چھوڑیں اس کی مڈل کلاس کو بھی کبھی اچھی صحت اور تعلیم نہ ملی۔ ایسی ریاست سے ہم آتے ہیں اور اماراتی عربوں کو ایسے لاڈلوں کی زندگیاں گزارتے دیکھتے ہیں تو کڑھتے ہیں اور سڑتے ہیں۔ تبھی تو تبدیلی کے نعرے کے سحر میں اوورسیز جلدی آ جاتے ہیں۔

پھر چاہے عرب امارات کی حکومت درپردہ کہیں اور چلتی ہو، ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کا شعور نہ ہو، چاہے یہاں آپ کو کلچر اور تمدن نہ ملے اور صرف دولت اور امارت کا ہی بول بالا ہو، مگر اگر کسی زمین پر ان کی تمام رعایا، خوشحال، محفوظ اور مطمین ہے اور اعلیٰ ترین زندگی گزارتی ہے تو یہی ریاست دنیا کی سب سے بہترین ریاست ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).