عمران خان کا ووٹر آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا


عمران خان کے ووٹرز کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی آسمان سے گرے تو کھجور میں اٹکے۔ تبدیلی کے خواہش مندوں کی حالت یہ ہے کہ وہ نواز زرداری سے بھاگے تو خان کو ٹکرائے۔

نواز شریف کے بعد بے نظیر اور پھر نواز، گزشتہ تین چار دہائیوں میں دو ہی پارٹیاں اقتدار میں آتی جاتی رہیں اور فلاح و بہبود یا ترقی سے ان کو کوئی سروکار نہ رہا۔ درمیان میں جنرل مشرف تشریف لائے تو کچھ کام تیزی سے ہونے لگے لیکن جیسے ہی وردی سے نکل کر سیاستدانوں کے گروپ میں شامل ہوئے تو انہوں نے بھی صرف ذاتی ترقی کو ہی کامیابی سمجھ لیا اور ملک کی ناؤ میں دیگر کی طرح دو چار چھید اور ڈال دیے کہ ترقی والی ریس میں ملک ہم سے آگے نہ جائے۔

ایک بات تو طے ہے کہ ہمارے یہاں غداری کی تعریف میں بھی اب تبدیلی ہونی چاہیے۔ جو لوگ ملکی سلامتی کو داؤ پر لگاتے ہیں ان میں بڑا ہاتھ تو ان کرپٹ لوگوں کا ہوتا ہے جن کی دولت کی ہوس کا یہ عالم ہے کہ عوام اور ملک کے مفاد کو یکسر نظر انداز کرکے محض ذاتی نفع کے لئے سودا بازی کرتے ہیں۔ تھوڑے سے منافع کے لئے ملکی مفاد کو گہرا گھاؤ لگایا جاتا ہے۔ مثال ہے کہ پاؤ بھر گوشت کھانے کے لئے پورا اونٹ ذبح کر دیتے ہیں۔

آہ! ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ ہم اس نظام کو تبدیل نہیں کرسکتے جو اس وقت پورے ملک میں رائج ہے یہ نظام کہ یہاں سچ کی گنجائش نہیں۔ یہاں صرف جھوٹ فریب اور بددیانتی کو بقا و ترقی ملتی ہے۔ ایماندار کو مادی ترقی تو کیا ملنی بعض دفعہ ایمان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے جب وہ ایک بار اس نظام کے تحت حلال کمانے اور کرنے کی خاطر کمر کس لے۔

کسی بھی ادارے کو اٹھا لیجیے ایماندار افسر کی حیثیت کسی پرانی فائل جیسی ہے۔ گرد آلود کونے۔ پڑی کرسی مانند جسے کوئی پوچھتا بھی نہیں جبکہ عیاشی بدمعاشی اور مافیا کا راج قائم ہے ہر جگہ۔

عمران خان کی تبدیلی کے انتظار میں لوگ ایسے بیقرار ہوئے کہ ابھی دو ماہ بھی نہ گزرے اور ہر طرف سے شور اٹھنے لگا عوام اتنے وعدے اور دعوے سنتے رہے کہ انہیں لگا بس عمران خان کے حلف اٹھانے کے اگلے روز ہر جگہ پکڑ دھکڑ شروع ہوگی اور اداروں سے کرپٹ لوگوں کو نکال باہر کیا جائے گا۔ پھر عمران خان دنیا بھر سے لائق فائق پاکستانیوں کا ایک گروہ لائینگے اور مختلف جگہوں پر ان کو تعینات کردیا جائے گا۔ بڑی عجیب بات ہے کہ تقریبا پچاس رکنی پروفیشنل اوورسیز پاکستانیوں کا گروپ پاکستان لانے اور اہم عہدوں پر تعینات کرنے کی کہانی ہم نے الیکشن کے دوران۔ بھی سنی اور بعد میں سنتے رہے۔ لیکن ماسوائے ایک زلفی بخاری ہمیں کوئی۔ امپورٹڈ تحفہ نظر نہ آیا اور زلفی بخاری کا تو اپنا دامن صاف نہی تو انہوں نے کیا صفائی۔ میں حصہ لیناتھا۔

بہرحال عمران خان راتوں رات سب کچھ بدل دے گا اور عوام کو ریلیف ملے گا والا خواب تو چکنا چور ہوا۔ اب دیکھئے آئندہ کیا ہوناہے۔ اس حکومت کی ہانڈی میں کوئی مصالحہ بھی ہے کہ محض پانی ابالا جارہا ہے بھوکے غریب عوام کی تسلی کے واسطے۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پہ دو بڑے صحافی آپس میں تکرار کرتے نظر آئے۔ معاملہ زرداری صاحب کے لائیو انٹرویو کو درمیان میں روک دینے کے سبب اینکرحامد میر کی طرف سے احتجاج کرنا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ آزادی اظہار رائے کا حق سب کو ہے تو آصف علی زرداری جو جعلی بنک اکاؤنٹس کیس کے (پارک لین ڈیفالٹ ریفرنس ) میں 15 جولائی تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں ہیں، ان کو بھی اپنی بات کہنے کا حق ہے۔ ان کے جواب میں روف کلاسرا کا موقف تھا کہ نیب کے قانون کے مطابق کسی ملزم کو دوران تفتیش بنا اجازت انٹرویو نہیں دینا چاہیے۔

مجھے دونوں سینئرز کے معاملے میں بات کا حق نہیں بس اتنا کہوں گی کہ جو میڈیا آج آصف زرداری کے معاملے میں آسمان سر پہ اٹھائے کھڑا ہے اسی میڈیا کے اسی گروپ کے اسی چینل کے اسی صحافی کو زیر عتاب لایا گیا جب آصف زرداری خود اقتدار میں تھے۔ اور یہ کوئی انہونی نہیں کہ میڈیا کو سیاسی حکومتیں اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرتی ہیں اور بعد میں کھڈے لائن لگا دیتی ہیں۔ صحافی اپنے پیشے سے خیانت کرتے ہیں اور ذاتی مفادات کی خاطر دوستیاں پال لیتے ہیں اور پھر دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔

دکھ ہوتا ہے جب میڈیا ہاؤسز میں صحافت کے نام پر مفادات کا دھندہ چلتا دیکھیں۔ ہم اپنی بے باک صحافت کی گھٹھڑی اٹھائے در در کی خاک چھانتے رہے کہ کوئی تو ہوگا جسے صحافت کی بقا عزیز ہوگی، کوئی تو ہوگا جو کھری صحافت کے پودوں کی آبیاری کرے گا تاکہ مسقبل میں کوئی ایک تو قد آور درخت اپنے مضبوط تنے اور پختہ جڑوں پہ کھڑا ہو کر ملکی مفادات کو چھاوں میسر کرے۔ گریجویشن میں جرنلزم کی کتاب کے مضامین ہمیں حق سچ دیانت امانت حب الوطنی اور بیباکی سکھاتے رہے۔

ہم نے پڑھا تھا صحافی کا کام صرف سچ کو رپورٹ کرنا ہے لیکن کب اور کیسے کرنا ہے یہ ہمیں عملی زندگی نے سکھایاتھا۔ جب دو چار میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں سے تعارف ہوا تو لگا کہ ہم نے جو صحافت پڑھی اور سیکھی تھی اس کا یہاں کوئی مقام نہیں بلکہ جس طرح دیگر ادارے کرپٹ نظام میں برباد ہوئے وہیں صحافت کا جنازہ تیار پڑا ہے۔ نئی حکومت کے دعوے بھی حق سچ کی آواز کو برداشت نہ کرسکے۔ عوام آج بھی دل۔ پہ پتھر رکھے عمران خان کو ہی آخری امید سمجھتے ہیں کیونکہ بدقسمتی سے ہم نے ایماندار محنتی اور بے غرض لوگوں کو کبھی اوپر آنے ہی نہ دیا اور جو میسر آئے تو وہ نظام کی گرفت میں ایسے پھنسے کہ ہاتھ پاوں مارے جاتے ہیں لیکن رہائی مشکل نظر آتی ہے۔ یہی حال اب عوام کا ہے۔

ایک وائلڈ لائف ڈاکیومینٹری میں دیکھا کہ ایک تیندوا درخت کی شاخ پہ چاروں ٹانگیں لٹکائے اپنا منہ شاخ پر پھینکے سست پڑا ہے۔ وہ کاہل اور بیزار تیندوا میرے ذہن میں جم گیا۔ اب قوم کی حالت بھی ایسی ہی لگتی ہے کہ آسمان سے گرے تو کھجور کے اونچے درخت میں ٹنگے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں اور جب تھک جاتے ہیں تو کچھ دیر کو پھر ٹانگیں بازو لٹکا کر شاخ پہ ڈھیلے پڑے تیندورے کی طرح سستا لیتے ہیں لیکن جب اپنا آپ ہوا میں معلق دکھائی دیتا ہے اور۔ زمین پیروں سے دور نظر آتی ہے تو پھر پیر زمین پہ جمانے کی جدوجہد کا آغاز کریتے ہیں کہ اس جھاڑ جھنکار سے جان چھڑائیں۔
اب پتا نہیں یہ جھاڑ جھنکار اس ملک کا کرپٹ سسٹم ہے یا خان صاحب کی تبدیلی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).