افغانوں کے مددگار بنیں، مالک و آقا نہیں


پاکستان، افغانستان میچ کے دوران افغان تماشائیوں کا پاکستان کے خلاف سفاک، زہرناک طرزعمل اور نفرت و عداوت میں ڈوبی ہوئی نعرہ بازی عام پاکستانیوں سے لے کر دانشور طبقے تک ہر جگہ موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ افغانوں کے شدت پسندانہ طرز عمل کے جواب میں ہمارا اپنا ردعمل بھی متشددانہ اور انتہا پسندانہ ہے۔ ہم میں سے اکثر افغانوں کو نمک حرام، محسن کش، احسان فراموش اور بے مروت کہتے ہوئے انہیں اپنا وہ ”حسن سلوک“ یاد دلا رہے ہیں جو ہم چالیس سال سے ان کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔

ہمارے لیے یہ امر بھی ناقابل یقین ہے کہ ہمارے جن اکابرین نے محب وطن اور ایثار کیش قبائلیوں کی موجودگی میں مغربی سرحد کو مامون و محفوظ قرار دیا تھا، آج وہاں سے آتش و آہن کے شعلے ہمیں خاکستر کرنے کے لیے کیوں بلند ہو رہے ہیں؟ بھارت کے خلاف ہمارے دست و باز و بننے والے اور کشمیر میں سبز ہلالی پرچم لہرانے کے دعویدار مجاہدین آج بھارت کے ہاتھوں میں کیوں کھیل رہے ہیں؟ جنہیں ہم نے انصار مدینہ کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے چالیس سال تک مہمان بنائے رکھا آج وہ ہمارے لیے آستین کے سانپ کیوں ثابت ہو رہے ہیں؟ افسوس کہ ہمارے تجزیہ کار اب بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے حالات و واقعاف کا تجزیہ کر کے درست نتیجے پر پہنچنے کے بجائے نفرت اور عداوت کی آگ میں جل رہے ہیں۔

عالم آب و گل میں چیزیں قانون فطرت کے مطابق وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ کسان گندم بو کر مکئی کی فصل حاصل نہیں کر سکتا۔ آج افغانستان کے حوالے سے ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو چالیس سال قبل ہم نے بویا تھا۔ ہم نے افغانوں کی تین نسلوں کو اپنے مفادات کی خاطر جنگ کی بھینٹ چڑھا دیا۔ افغانستان بالکل اسی طرح روس کی طفیلی ریاست تھی جس طرح ہم امریکہ کے زیر اثر ہیں۔ افغانستان اگر روس کو اپنے ملک میں بلاتا ہے تو ہم افغانوں کے مالک و آقا بن کر انہیں ڈکٹیٹ کرنے والے کون ہوتے ہیں؟

ہم نے سفید ریچھ کے گرم پانیوں تک پہنچنے کا واویلا کر کے امریکہ کی آشیر باد اور ڈالرز لے کر دنیا بھر سے مجاہدین اکٹھے کیے اور برادر پڑوسی ملک کی اینٹ سے اینٹ سے بجا دی۔ ضیا دور میں اس جنگ کی قیادت کرنے والے بعض جرنیلوں کی سات پشتوں نے اپنے ہاتھ رنگے اور افغانوں کی اتنی ہی نسلیں لہو رنگ ہو گئیں۔ پھر ایک اور خدائی خوار ڈکٹیٹر آیا جس نے مجاہدین کو مفسدین بنا کر منڈی لگائی اور تمام انسانی، اخلاقی اور سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر افغانستان کے سفیر کو بھی امریکہ کے حوالے کر دیا۔

2001 سے تا حال مظلوم و معتوب افغانوں پر گویا ہر روز کتنی ہی قیامتیں گزرتی رہیں اور ہم یہاں ان کے نام پر ڈالرز اینٹھ کر، یخ بستہ محلات میں بیٹھ کر تزویراتی حکمت عملی کے نام پر گڈ اور بیڈ طالبان کا کھیل کھیلتے رہے۔ بین الاقوامی فورمز پر افغانستان کے مسائل کے حوالے سے جتنے بھی مذاکرات، سیمینارز، معاہدات ہوئے ہیں ان میں ہم نے ایک غیر جانبدار فریق کے مقابلے میں افغانوں کا مائی باپ اور آقابن کر ان کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ افغانستان آج بھی جنگ و جدل اور بد امنی کا گڑھ بنا ہوا ہے۔

آج ہم افغانوں کی پاکستان دشمنی پر حیران ہو رہے ہیں حالانکہ ہم نے گذشتہ چالیس سال سے لاکھوں افغانوں کا معاشی بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ ہم انہیں نمک حرامی کے طعنے دے تو دے رہے ہیں مگر ان کی اس نفرت اور اشتعال کے پیچھے چھپے اسباب کا منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ امریکہ جو بلا شرکت غیرے عالمی سپر پاور ہے، دنیا کے بے شمار ممالک کو اربوں ڈالرز کی امداد دیتا ہے۔ اس کی افواج خانہ چنگی میں مبتلا ملکوں میں امن کی بحالی کے لیے بڑھ چڑھ کے حصہ لیتی ہیں بلکہ قائدانہ کردار اداکرتی ہیں۔

ہم نے بھی اس سے امداد کے نام پر اربوں ڈالرز کھائے ہیں۔ مگر امریکہ کی اس جود و سخا کے باوجود ہمارے سمیت پوری دنیا اسے سامراجی اور استعماری گماشتے کے طور پر یاد رکھتی ہے، اس لیے کہ وہ اس خطیر امداد کے بدلے پوری دنیا کو اپنے اشاروں پر چلانا چاہتا ہے۔ کم و بیش یہی حال ہمارے صوبہ پنجاب کا ہے جس نے پورے پاکستان کی معیشت کا تقریبا چالیس سے پچاس فیصد بوجھ اٹھا رکھا ہے مگر باقی صوبے ہمیشہ اس کے تحکمانہ اور جابرانہ کردار کے شاکی رہتے ہیں۔

محلے کی سر کردہ، باشرع اور سماجی کارکن حاجی صاحب ہر مشکل وقت میں بیواؤں اور یتیم لڑکیوں کی بڑھ چڑھ کر مالی و ”اخلاقی“ امداد کرتے ہیں مگر سارے محلے والے بوجوہ حاجی صاحب کی عزت نہیں کر تے، اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ حاجی صاحب کا مطمح نظر کیا ہے۔ ہمیں بھی اگر افغانوں کے دلوں میں بھڑکتے نفرت و عداوت کے الاؤ کو ٹھنڈا کرنا ہے تو ہمارے فیصلہ سازوں کو اپنے ماضی کی غلطیوں سے رجوع کر کے افغانوں کو صدق دل سے سینے سے لگانا ہو گا۔ ہمیں افغانوں کا مالک و آقا بننے کے بجائے ان کا مددگار بننا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).