آگ اور گھر کا چراغ


دوستوں سے قطع تعلق کر سکتے ہیں۔ رشتہ داروں سے نہیں! دور رہنے کی جتنی بھی کوشش کریں۔ موت اور خوشی کے مواقع پر ملنا ہی پڑتا ہے۔ ساتھ بیٹھنا ہی پڑتا ہے۔ پڑوسی، رشتہ دار نہیں ہوتے مگر پڑوسیوں سے بھی جان چھڑانا ناممکن ہے۔ گھر بیچ کر دوسرے محلے، دوسرے شہر دوسرے ملک کو ہجرت کر جائیں گے۔ مگر ملک کو کہاں لے جائیں گے؟ کچھ عرصہ ہوا اس کالم نگار نے ایک تحریر میں دعا کی تھی اور قدرت کی منت زاری کہ افغانستان کو اٹھا کر امریکہ لے جائے یا یورپ کی بے شک کوئی امیر ریاست بنا دے مگر پاکستان کو اس بارڈر سے نجات مل جائے!

پاکستان اور افغانستان ایسے بھائی ہیں جو ہزار کوشش کے باوجود، ساری نفرتوں کے باوصف، ایک دوسرے سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ مجید امجد نے کہا تھا ؎ جو تم ہو برق نشمین، تومیں نشیمن برق الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب! کیا کہنا کلیم کاشانی نے تو دریا کوزے میں بند کر دیا ؎ بامن آویزشِ او الفتِ موج است و کنار روز وشب بامن و پیوستہ گریزاں ازمن ہماری اور افغانستان کی باہمی کشمکش کنارے اور موج کے تعلق جیسی ہے۔ ابھی ساحل کو چومتی ہوئی اور ابھی دور جاتی ہوئی!

کرکٹ میچ کے موقع پر جو کچھ برطانیہ میں ہوا، اس کے بعد ہم پاکستانی پرانے زخم چاٹنے لگ گئے ہیں۔ مگر کم ہی ہیں جو معاملے کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھ سکیں۔ شعوری اور لاشعوری دونوں طور پر ہم اس بات کو نہیں بھول پا رہے کہ افغانستان کا علاقہ مغل سلطنت کا حصہ تھا۔ (قندھار مغلوں اور ایرانیوں کے درمیان وجہ نزاع رہا) مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ برٹش عہد میں جب برما اور سری لنکا سمیت پورا جنوبی ایشیا ایک وحدت میں پرو دیا گیا، افغانستان اس وحدت کا کبھی بھی حصہ نہ بنا۔

مسلسل کوشش کے باوجود برطانوی ہند، افغانستان کو اپنی کالونی نہ بنا سکا۔ افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔ اس کی ذمہ داری اس فضا پر ہے جو باچا خان اور ان کے ساتھیوں نے تیار کی تھی۔ کس کو برا لگتا ہے کہ ساتھ والی زمین مل جائے یا ساتھ والے ملک کا ایک علاقہ! افغانستان کو امید تھی کہ نوزائدہ مملکت پاکستان اپنی اکائیوں کو متحد نہیں رکھ سکے گی اور اونٹ کا نچلا ہونٹ گر پڑے گا۔ یوں پختون علاقے افغانستان میں شامل ہوجائیں گے۔

افغان حکومت باچا خان اور ان کے ہم نواؤں کی مکمل حمایت کر رہی تھی۔ بہت سے پڑھے لکھے پاکستانیوں کو بھی نہیں معلوم کہ افغانستان دو حصوں پر مشتمل ہے جنوب اور مشرق پختونوں کی اکثریت پر مشتمل ہے۔ شمال اور مغرب ازبکوں، تاجکوں، ترکمانوں اور ہزارہ اکثریت پر! موجودہ افغانستان کو احمد شاہ ابدالی نے 1747 ء میں ایک الگ ریاست کے طور پر تشکیل دیا۔ اس وقت سے لے کر 1979 ء کے سوویت حملے تک، افغانستان کے پیش نظرپر پختون چھائے رہے۔

احمد شاہ ابدالی سے لے کر ظاہر شاہ تک تمام بادشاہ درانی تھے یا بارکزئی بعد میں بھی سردار داؤد خان، نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین، نجیب اللہ، صبغتہ اللہ مجددی سب پختون تھے۔ ببرک کارمل بھی والدہ کی طرف سے پختون ہونے کا مدعی تھا۔ برہان الدین ربانی تاجک فغانستان کے پہلے غیر پختون حکمران تھے۔ روسی حملے کے بعد ازبک اور تاجک جنگ جوؤں نے اپنے آپ کو نمایاں کیا۔ پختونوں کے مقابلے میں شمال کے غیر پختون تعلیم، صنعت و حرفت زراعت اور بیرونی دنیا سے روابط کے حوالے سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔

غیر پختونوں کا پیش منظر پر چھا جانا، پختونوں نے اپنے روایتی اقتدار کے لئے چیلنج سمجھا۔ ہم افغان طالبان کو لاکھ اسلامی احیا کی عینک سے دیکھیں، شمالی افغانستان کے لئے یہ ایک نسلی تحریک ہے جو پختونوں کی بلا شرکت غیرے حکمرانی ہی ہے۔ کابل کے لئے احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار کی باہمی لڑائی۔ پختون اور تاجک لڑائی تھی ورنہ کیا احمد شاہ مسعود پابند صوم و صلوٰۃ نہ تھا؟ بدقسمتی سے پاکستان نے اپنا سارا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈال کر شمال کے غیر پختونوں کو اپنا دشمن بنا لیا، یہ ایک ناہموار، ٹیڑھی، غیر متوازن اور غیر متعادل خارجہ پالیسی تھی۔

اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوا کہ شمالی اتحاد کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہو گیا۔ بھارت ہمیشہ سے افغانستان کی پاکستان مخالف پالیسیوں کی پشت پر تھا۔ چنانچہ دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کی قربت راس آئی دشمن (پاکستان) ایک ہی تھا! طالبان پر صدقے واری ہونے کے بجائے اگر پاکستان متوازن پالیسی اپناتا اور شمالی اتحاد اور طالبان دونوں کو اپنی ڈپلومیسی کے طلسم کا اسیر کرتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ رہا اہل پاکستان کا یہ طعنہ کہ افغان مہاجرین خیمے میں اونٹ بن گئے ہیں تو اس میں کس کا قصور ہے؟

ضیا پسند حلقے، ملک کے بجائے ضیاء الحق کے عہد حکومت کے زیادہ وفادار ہیں۔ سوویت یونین کے مقابلے میں افغان مزاحمت کی مدد پر کسی کو اعتراض نہیں۔ اعتراض صرف یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق اور ان کے حامیوں نے پاکستانی سرحد کو برباد کر کے رکھ دیا۔ پاکستانی ویزے کی اس قدر بے حرمتی ہوئی کہ عملی طور پر پاکستان کو افغانستان کا حصہ بنا کر رکھ دیا گیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے مطبوعہ مضامین گواہ ہیں کہ غیر پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر ملک میں لایا جاتا اور چھپا چھپا کر رکھا جاتا۔

اس اندھی بہری پالیسی کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ افغان مہاجرین پر ضیاء الحق کی حکومت نے پاکستان کی تجارت، جائیداد، ملازمتوں اور شہریت کے دروازے کھول دیے۔ ہر شعبے میں انہوں نے مقامی لوگوں کو کہنیوں سے پیچھے دھکیلا اور آگے ہو گئے۔ مہاجرین کو کیمپوں میں رکھنے کے بجائے پورے ملک میں آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت دے دی گئی۔ آج ہم کہتے ہیں کہ افغان مہاجرین نے اٹک میں مقامی دکاندار کو قتل کر دیا اور لاہور کی مارکیٹ میں واحد مقامی دکاندار کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

مگر یہ نہیں پوچھتے کہ بازاروں اور مارکیٹوں میں انہیں دکانیں کھولنے کی اجازت کس بدبخت، ملک دشمن نے دی تھی اور کیوں دی تھی؟ روڈ ٹرانسپورٹ پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ وفاقی دارالحکومت کے دائیں بائیں ترنول اوربارہ کہوجیسی سینکڑوں آبادیاں پورے ملک میں افغانوں سے اٹی پڑی ہیں یہ سب پاکستان کی اپنی پالیسیاں ہیں۔ اس میں افغانوں کا کیا قصور ہے؟ آج اگر چینی یہاں جائیدادیں خرید رہے ہیں، اگر چینیوں کے ویزے چیک نہیں کیے جا رہے، اگر وفاقی دارالحکومت میں ان کی گاڑیوں کے کاغذات تک نہیں دیکھے جا رہے اگر عربوں کو کھلی چھٹی ہے کہ ہمارے صحراؤں میں دندناتے پھریں، ہمارے قیمتی پرندوں کی نسلوں کی نسلیں ختم کر دیں اور ہماری عزت تک داغدار ہونے کی خبریں پھیل جائیں تو اس میں چینیوں اور عربوں کا کیا قصور ہے؟

ہمارا اپنا احساس کمتری ہمیں ہر غیر ملکی کے سامنے دستہ بستہ کھڑا کر دیتا ہے! ”افغان بھگاؤ، ملک بچاؤ“ کی تحریک ضرور چلائیے مگر پہلے اپنی چارپائی کے نیچے بھی ڈانگ پھیر لیجیے اور یہ بھی دیکھ لیجیے کہ ان مہاجرین کے نام پر ہم نے فنڈ کہاں کہاں سے اور کتنے لئے؟ جذبات کی نہیں، حقائق پر غور کرنے کی ضرورت ہے! جس ملک میں چند سکوں کے عوض غیر ملکیوں میں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ تھوک کے حساب سے بانٹے جائیں، جس ملک میں نادرا جیسے حساس محکموں میں بھی غیر ملکیوں کو ملازمتیں دے دی جائیں اس ملک کے باشندوں کو سارا الزام دوسروں پر نہیں دھرنا چاہیے :
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).