عورت صرف نوکری نہیں، اختیار بھی چاہتی ہے


\"andaleeb\"عورت کی برابری صرف نوکری کرنے سے نہیں ہے، بلکہ جو کچھ وہ اپنی نوکری سے کماتی ہے، اُس پر اختیار رکھنے سے بھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر عورت نوکری کرتی ہے تو وہ اُس کی تفریح ہے اور گھر پر کام کرنا اُس کا فرض۔ گھر کے تمام کام، وہ چاہے یا نہ چاہے، اُس کی ذمہ داری ہوتے ہیں اور وہ باورچی خانے سے لے کر بچوں کی پرورش تک ہر چیز کرتی ہے۔ مگر مالی معاملات میں اُس کو پورا حق نہیں دیا جاتا۔ اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے مردوں کو یہ ڈر لگتا ہے کہیں وہ گھر پر اپنی گرفت نہ کھو بیٹھیں۔

یہ سوچ معاشرے میں عام ہے کہ مالی طور پر خود دار عورت کیونکر ایک مرد کے ہر کام کو بنا معاوضے کے کرے گی؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کے کردار کو محض گھریلو کاموں کے لئے مخصوص رکھا جاتا ہے، اور مرد کو باہر کے کاموں کے لئے۔ اس طریقے سے عورت کو دنیا کی زیادہ معلومات بھی نہیں ہوتی، اور وہ ساری زندگی یہ جھڑکی سن سن کر گزار دیتی ہے کہ ”تم کو کیا پتہ دنیا کیسی ہے“۔

حالانکہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ ہر عورت کو گھر کے کام کرنے پسند ہیں اور ہر آدمی کو باہر کے۔ ہم اپنے اردگرد ایسے ہزاروں لوگ دیکھتے ہیں کہ جو مرد ہیں۔ لیکن گھر کے کام کرنے کا شوق رکھتے ہیں اور عورتیں ہیں جو باہر کے کام کرنے پر خوش ہوتی ہیں۔ میرے خیال سے اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ جب مرد کھانا کھا سکتا ہے تو پکا بھی سکتا ہے اور عورت بھی پیسہ خرچ کرسکتی ہے تو کما بھی سکتی ہے۔

اصل میں عورت اور مرد کے الگ الگ کام صرف بائیولوجی کی حد تک محدود ہیں۔ جیسے کہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت یا بھاری سامان اُٹھانے کی قوت۔ حالانکہ اُس کا بھی یہ مقصد قطعی نہیں کہ اگر عورت بچہ نہ پیدا کرنا چاہئے تو وہ عورت نہیں رہتی اور مرد بھاری چیزیں نہ اُٹھانا چاہے تو مرد نہیں رہتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جسمانی طاقت کو آپ اچھی نشوونما اور کسرت کے ذریعہ کسی حد تک خود بھی بہتر کر سکتے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ عورت کی نشوونما اور اُس کے ساتھ کھانے میں ابتری کا سلوک کرنا ایک الگ مضمون ہے۔ آخر کتنی ہی عورتیں کھیتوں میں کام کرتی ہیں اور پتھر توڑتی ہیں، جو کہ ایک شہری بابو شاید اپنے خواب میں بھی نہیں کر سکے۔

لہٰذا عورت کی جگہ باورچی خانے میں اور مرد کی جگہ سڑکوں پر والی دقیانوسی سوچ جہالت کا نتیجہ ہے۔ اس میں کافی حد تک مردوں کے اس نفسیاتی خوف کا عنصر بھی ہے، جس میں عورت کا خودمختار ہونا اُن کو اپنی بقا کے خلاف نظر آتا ہے۔ کتنے ہی مرد شاید اس بات کو محسوس بھی نہ کرتے ہوں گے، لیکن اپنے سے آگے بڑھتی عورت کو مرد ایک نہیں، بلکہ ہزاروں طریقوں سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس میں ہر مرد کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، اور نہ ہی ہر عورت کی بات ہو رہی ہے، بلکہ معاشرے کے ایک کثیر طبقے کا ذکر ہے۔

خیر، بات شروع ہوئی تھی عورت کی برابری اور کام شروع کرنے سے۔ ترقی یافتہ دنیا میں بھی تحریک نسواں شروع کرنے والی عورتیں گھریلو تھیں۔ اُن کی لڑائی اپنے لئے کام میں برابری کا حصہ تھا۔ ہمارے معاشرے میں نوکری پیشہ عورت کا مسئلہ صرف اس کی اجرت ہی نہیں بلکہ اس اجرت پر اس کا اختیار بھی ہے۔

نشے کے عادی شوہر اکثر نوکری کرنے والی عورت کے پیسے چھین لیتے ہیں اور اُن کو مارتے بھی ہیں۔ وہ اُن کو چھوڑ کر نہیں جاتیں۔ صرف اس لئے نہیں کہ اُن کو سٹاک ہوم سینڈروم ہے بلکہ اس لئے بھی کے معاشرہ اُن کو ایک تنہا عورت کے روپ میں صرف مفت کا گوشت سمجھتا ہے، یا پھر وہ اپنے بچوں کی خاطر نہیں جاتیں کہ اُن کا مستقبل برباد ہوجائے گا۔ اور یہ کہانی صرف گھر میں کام کرنے والی عورت کی نہیں ہے۔ باہر اچھے عہدوں پر کام کرنے والی بھی نہ جانے کتنی عورتیں ہیں کہ جن کو اپنی مرضی کے بغیر جوائنٹ اکاؤنٹس کھلوانا پڑتے ہیں، یا کسی نہ کسی مد میں اپنے شوہر یا اُس کے گھر والوں کو پیسے دینا ہوتے ہیں، جس میں سے وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی خرچ کرنے کا حق نہیں رکھتیں۔ یا اگر خرچہ کر بھی لیتی ہیں تو اُن سے دس ہزار سوال کئے جاتے ہیں۔

غرض یہ کہ ہمارے معاشرے میں جب تک عورت معاشی طور پر خود مختار نہیں ہوگی، اور مرد اپنے کھانے پینے، صفائی اور یہاں تک کہ بچوں کی پرورش میں برابر کا شریک نہیں ہوگا، عورت ایک مفت، بن بیگار کی ملازمہ ہی رہے گی۔ جس کی موت پر بھی لوگوں کو کم افسوس ہوگا، کہ کام والی تو بہت مل جاتی ہیں کم پیسوں کی شکل میں بھی اور بیوی کے روپ میں بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments