روٹی بندہ کھا جاندی اے


یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں جوگی ہانس گاؤں میں ایک میڈیکل افسر کی حیثیت سے کام کررہی تھی۔ وہ گاؤں شہر سے دس کلومیٹر کی مسافت پہ تھا۔ اس گاؤں کا نام بھی کسی دیو مالائی کہانی کے کردار سے ملتا جلتا تھا۔ وہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ اور وہاں کا واحد سرکاری ہسپتال نہر کنارے واقع تھا۔ اس ہسپتال کو اور بھی آس پاس کے چھوٹے بڑے دو تین مزید گاؤں لگتے تھے۔ وہاں کام کرتے ہوئے مجھے تین ماہ ہو چکے تھے۔ اس لیے کم و بیش گاؤں کے سارے لوگ ہی مجھے جانتے تھے اور میں بھی کافی لوگوں کو جانتی تھی۔

ان دنوں میری پارٹ ون کی تیاری بھی جاری تھی جس کی وجہ سے میرے خاصے مصروف دن گزر رہے تھے۔ اس دن میں اپنے روٹین کے مطابق آوٹ ڈور میں بیٹھی تھی۔ میری ایل ایچ وی نے مجھے ایک مریضہ کے بارے میں بتایا میں نے اسے اپنے کمرے میں بلا لیا۔ اس کے حمل کا غالباً چوتھا یا پانچواں مہینہ چل رہا تھا۔ اس کے پہلے بھی پانچ بچے تھے اس لیے شاید وہ اس چھٹے بچے کی پیدائش پہ زیادہ خوش نہیں تھی۔ میں نے اسے غور سے دیکھا وہ ایک درمیانی جسامت کی ایک سانولی رنگت والی عورت تھی۔

اس کی آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے تھے رخساروں پر آئرن کی کمی کی وجہ سے کالے نشان موجود تھے۔ ہونٹ پھٹ کے ان پہ پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ چہرے پہ جھریاں تھیں حالانکہ اس کی عمر اتنی زیادہ نہ تھی۔ مگر شاید اس کے حالات نے اسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔ جسم پر میل کی تہیں جمی ہوئی تھیں جیسے کافی عرصے سے نہائی نہ ہو۔ مٹی سے اٹے ہوئے پاوں میں ٹوٹی ہوئی پلاسٹک کی چپل تھی۔ اس عورت کو دیکھ کہ مجھے محسوس ہوا کہ وہ چہرہ پہلے بھی کہیں دیکھ رکھا ہے ذہن پر ذرا زوردینے پہ احساس ہوا کہ یہ تو غربت کہ خدوخال ہیں جو اس عورت کے چہرے کہ اندر سے جھانک رہے تھے۔ مجھے ایل ایچ وی نے بتایا کہ اس کے گھر کے حالات کافی خراب ہیں۔ اس کا مکمل چیک اپ کر کے اس کو سمجھایا کہ اپنی خوراک پہ خاص توجہ دو جسے اس نے شاید غور سے سنا بھی نہیں کیونکہ جہاں پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل سے نصیب ہو وہاں نخرے کون اٹھاتا ہے۔ وہ عورت ہر ہفتے چلتے پھرتے ہسپتال کا چکر لگا لیتی تھی۔ اور میں بھی اسے ہر دفعہ آئرن کی گولیوں کا پتہ پکڑانا نہ بھولتی۔

اس امید پہ کہ خوراک نہ سہی وہ گولیاں ہی شاید اس کا کوئی بھلا کر دیں۔ اور ایل ایچ وی اس کو ہر دفعہ تاکید کرتی کہ اپنا کیس یہاں سے کروانا میں فری کروں گی۔ وقت گزرتے پتہ ہی نہیں چلتا۔ ایک دن میں ہسپتال پہنچی تو پتہ چلا کہ اس مریضہ کا بچہ رات کے وقت شہر کے سرکاری ہسپتال میں پیدا ہو گیا ہے۔ ایل ایچ وی اس بات پہ دکھی تھی کہ اس کی ڈلیوری ہمارے ہسپتال سے نہیں ہوئی۔ اور ہمارے مہینے کے ٹارگٹ پورے کرنے مشکل ہو جائیں گے۔

میں نے ان ٹارگٹس وغیرہ میں کبھی خاص دلچسپی نہیں لی تھی۔ مجھے کاغذی کام سے زیادہ عملی کام میں دلچسپی ہوتی تھی۔ کچھ دن بعد ہی وہ مریضہ اپنے بچہ کو چیک اپ کرانے لے کر آگئی وہ ایک کمزور سا بچہ تھا۔ ماں کو شدید کمزوری کی وجہ سے دودھ بھی نہیں اترا تھا اس بچہ کو ڈبہ کادودھ دینا پڑا تھا۔ اس کی ماں کو خاصا سمجھایا کہ بچہ کو کس طرح سے دودھ بنا کر دینا ہے۔ وہ ہر بات پہ سر ہلا دیتی تھی۔ پتہ نہیں اسے سب سمجھ آجاتا تھا یا کچھ بھی سمجھ نہیں آتا تھا۔

یہ بات مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی تھی۔ کچھ دن بعد وہ دوبارہ بچہ کو لے کر آئی تو وہ پہلے سے زیادہ کمزور لگ رہا تھا۔ اوراسے چھاتی کی انفیکشن تھی۔ اس چند دن کے بچہ کاعلاج کرنے کے لیے اس چھوٹے ہسپتال میں دوائیاں نہیں تھیں اس لیے اسے شہر ریفر کر دیا تھا۔ مجھے امید تھی کہ وہ شہر جائے گی تو وہاں اس کا علاج بہتر ہو جائے گا۔ اس کے بعد وہ کافی دن ہسپتال نہ آئی تو مجھے لگا کہ شاید اس کا بچہ ٹھیک ہوگیا ہے۔ کچھ دن بعد وہ دوبارہ آئی تو اس کا بچہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی وہ شدید کمزور بچہ malnourishment کی ایک ٹائپ marasmas کا شکار تھا۔

اس کی ماں سے پوچھا کہ اس کو دودھ نہیں دیتی اس نے کہا دیتی ہوں۔ کافی دیر کریدنے پہ پتہ چلا کہ وہ ایک پورے فیڈر میں ایک چمچ دودھ کا ڈالتی ہے۔ پتہ نہیں وہ غربت تھی یا جہالت۔ وہ بچہ شدید بیمارتھا اس کی ماں کے ساتھ ایک گھنٹہ لگا کے اسے سمجھایا کہ اس کو شہر کے سرکاری ہسپتال لے جا کر داخل کراؤ۔ وہ ہمیشہ کی طرح سر ہلا کے چلی گئی اور میں سوچتی رہی کہ یہ علاج کرائے گی یا نہیں۔ اس کا انداز ہمیشہ سرسری سا ہوتا تھا جیسے میں اس کے نہیں کسی اور کے بچہ کے بارے میں بات کررہی ہوں۔

دو تین دن بعد میں اپنے کمرے میں بیٹھی مریض دیکھ رہی تھی۔ کہ نائب قاصد نے میری میز پہ چاولوں کی ڈش لا کے رکھی۔ اکثر ہی گاؤں کہ کسی گھر سے کسی نہ کسی ختم یا نیاز کے چاول آتے تھے اس لیے میں نے خاصا دھیان نہیں دیا۔ مریض ختم ہوئے تو سارا اسٹاف میرے کمرے میں آگیا۔ میں نے بھی اپنے لیے ایک پلیٹ میں چاول نکال لیے۔ ابھی پہلا نوالہ ہی منہ میں ڈالا تھا کہ ڈسپنسر نے بتایا کہ یہ اس عورت کہ گھرسے آئے ہیں اس کا بچہ فوت ہو گیا ہے۔

جس کو زندہ رکھنے کے لیے دودھ کے پیسے نہیں تھے اس کے مرنے پہ دیگ چڑھانے کہ پیسے کہاں سے آئے۔ جذبات کی شدت سے میری کنپٹیاں سلگنے لگی تھیں۔ سب باتوں میں مصروف چاول کھا رہے تھے اور میں بس یہ سوچ رہی تھی کہ ہم کتنے بے حس ہو گئے ہیں۔ ایک انسان کو زندہ رکھنے کے لیے پیسے نہیں تھے مگر جب وہ مر جاتا ہے تو اس کے لیے دیگ چڑھانے کے پیسے آجاتے ہیں۔ ابھی اس کا سوئم بھی ہوگا برسی بھی منے گی بس اس دور میں صرف جینا ہی مشکل ہے۔

‏مَیں تو، حیراں ہوں

کہ حیران نہیں ہے، کوئی

آدمی اِتنے ہیں، مگر

انسان نہیں ہے، کوئی

اور صرف دیگ ہی نہیں چڑھی تھی باقاعدہ سے ٹینٹ لگا کے فاتحہ دی گئی تھی۔ بس زندگی ہی شاید زیادہ سستی تھی۔ وہاں اس بچہ کی فاتحہ نہیں پڑھی گئی تھی وہ انسانیت کی فاتحہ تھی۔ میرا سارا منہ کڑوا ہو گیاتھا۔ ایسا لگا جیسے منہ میں زہر گھل گیا ہو۔ وہ نوالہ میرے حلق میں پھنس گیا تھا۔ اس کے بعد چاول میرے حلق سے نیچے نہیں اترے۔ وہ سارا دن عجیب سا گزرا۔ اس رات مجھے نیند نہیں آئی تھی۔ پتہ نہیں آنسو آنکھوں سے بہہ کر دل پہ گر رہے تھے یا روح میں جذب ہو رہے تھے۔

دل پہ ایک عجیب سا بوجھ محسوس ہو رہا تھا میں نے ایک ڈاکٹر ہونے کہ ناطے سے اپنا فرض پورا کردیا تھا۔ مگر انسان ہونے کا فرض شاید پورا نہیں ہو سکا تھا۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ ڈاکٹر بننا انسان بننے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ غربت اور جہالت نے ایک زندگی نگل لی تھی۔ اور اس سب میں ہم سب کا کہیں نہ کہیں کردار ضرور تھا۔ آج بھی اکیلے میں بیٹھ کہ اپنا احتساب کروں تو دل پہ بوجھ سا محسوس ہوتا ہے۔ آج بھی جب میں یہ کہانی قلم بند کررہی ہوں تو پتہ نہیں میرا دل رورہا ہے یا میرا قلم کیونکہ آنسو کہیں نہ کہیں سے بہہ ضرور رہے ہیں۔ اب مجھے اس شعر کی سمجھ آئی جو بہت پہلے کہیں پڑھا تھا۔

تو کی جانے یار امیرا!

روٹی بندہ کھا جاندی اے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).