کیا حکومت الہیہ نے ہمیں داروغہ بنایا ہے


ولا تکونوا کالذین نسوا اللہ فانساھم انفسہم

اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو وہ اللہ کو کیا بھلائیں گے خود اپنے آپ کو بھلا دیا۔

کیا ہمارا مقصد زیست بس اتنا ہے کہ ملک و بیرون ملک نمودار ہونے والے واقعات پر معقول اور غیر معقول رد عمل کرتے رہیں۔ ؟

اللہ نے مسلمانوں کے لئے دین مکمل کردیا ”الیوم اکملت لکم دینکم“۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دین کی مکمل وضاحت کردی ”الحلال بین والحرام بین“۔ اس کے باوجود ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہیں جو عدم واقفیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ دوسری وجوہات کی بنیاد پر شریعت اسلامی کی خلاف ورزی اور شعائر دینی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ کوئی اس لئے ایسا کرتا ہے کہ اس کو لبرل اور الٹرا سیکولر کہلانے کا شوق ہے۔ الٹرا سیکولر کی اصطلاح اس لئے لکھا کہ سیکولرازم کے حقیقی معنی اور مفہوم دہریت الحاد اور بے دینی نہیں ہے۔

سیکولرازم کا مطلب ہے کہ ہر فرد بشر کو آزادی دی جاتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مذہب کی پوری یا ادھوری اتباع کرے اور اگر کسی کی مرضی ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کی بالکل اتباع نہ کرے تو سیکولر ملک اور سیکولر دستور اس کو اس کا بھی حق دیتا ہے۔ اب اگر اس ملک کا کوئی مسلمان دین کا پابند نہیں ہے یا دینی شعائر کو نظر انداز کرتا ہے تو اسے ٹرول کرنے کا، نشانہ بنانے کا، اس کے خلاف محاذ آرائی کرنے کا اور اس کی ذاتی زندگی کو طشت از بام کرنے کا حق کسی فرد تنظیم ادارہ یا گروہ کو نہیں ہے۔

سب سے پہلی بات یہ کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اس ملک کے دستور و قوانین پر کاربند رہیں گے اس لئے کہ ہم ایک سیکولر ملک کے شہری ہیں۔

دوسری بات یہ کہ اگر یہ سیکولر ملک نہیں اسلامی مملکت ہوتا پھر بھی جو حرکتیں ہم کر رہے ہیں اس کی اجازت اسلامی مملکت بھی نہیں دیتی ہے۔ اسلامی مملکت میں بھی یہ کام فرد کا نہیں ریاست کا ہے۔ ملزم سے باز پرس کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

تیسری بات یہ کہ اللہ نے ہمیں ”ادعوا الی ربک بالحکمة والموعظة الحسنة“ (یعنی اللہ کی طرف حکمت اور خیر خواہانہ انداز میں لوگوں کو دعوت دو۔ ) کا مکلف بنایا ہے۔ کل قیامت کے روز ہم سے اسی کی باز پرس ہوگی۔ دین نام ہی ہے خیر خواہی کرنے کا۔ اور خیر خواہی یہ نہیں ہے کہ کسی نے غیروں کا دینی شعائر اپنایا تو اس کی عزت نیلام کیا جائے۔ اس کی ذاتی زندگی کھنگالی جائے اور اس کی اشاعت کی جائے کہ اس کے کتنے معشوق ہیں اور وہ کس کس بدعنوانیوں میں ملوث تھا تھی یا ہے۔

اس کی راتیں کہاں گزرتی تھیں اور دن کہاں۔ یہ تحقیق و تفتیش کا کام آپ نے اپنے ذمہ اس لئے لیا ہے کیونکہ آپ کو اس سے نفرت ہے۔ ورنہ کیا آپ نے کبھی بالیووڈ کی مسلم اداکارہ کا فلم میں نہیں معمول زندگی میں برملا کسی غیر مرد کو بوسہ لینے پر یا کسی اداکار کی خنزیر کا گوشت کھانے کے سلسلے میں رائے یا شراب پینے پر ٹرول کیا۔ فلم کی بات کریں تو کیا آپ اس سے واقف ہیں کہ مسلم ممالک بشمول عرب ممالک کتنی فحش اور نیم برہنہ فلمیں بنتی ہیں جو ہمارے مقدس شہروں میں بھی دیکھی جاتی ہیں۔

ان میں کام کرنے والے عرب مسلم بھی ہوتے ہیں۔ فلم سے باہر کی دنیا میں کتنے مسلمان خواتین و مرد کیسے کیسے اخلاق سوز پیشے سے وابستہ ہیں۔ لیکن فرد بشر کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ کسی کے منگل سوتر سیندور اور ساڑی تو لوگوں کو نظر آگئے لیکن کیا کسی نے اپنے گریبان میں بھی جھانکا کہ وہ یا اس کے رشتے دار اور پڑوسی کن کن حرام کاموں میں ملوث ہیں۔ ؟ کس نے کس کی زمین پر ناحق قبضہ کیا کون ام الخبیثات سود کے پیسے سے گھر بار چلا رہا ہے قتل غارتگری فریب بے ایمانی جن کی پہچان بن چکی ہے کیا ہم نے کبھی ان کے بارے میں فتویٰ لیا؟ ان کو ٹرول کیا ان روکنے کی سمجھانے کی کوشش کی؟

دینی شعائر کے تعلق سے عبد اللہ ابن الباز رحمہ اللہ کا یہ قول ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر مسلمان غیر مسلموں کے بعض دینی شعائر کو دیگر ادیان کا حصہ نہیں بلکہ محض رسم و رواج سمجھ کر اپنایا ہو تو وہ گنہگار نہیں ہوگا مگر جب معلوم ہوجائے کہ یہ محض فیشن رسم رواج نہیں بلکہ غیر مسلموں کے لئے اس کی مذہبی خاصیت اور اہمیت ہے تو اسے ترک کر دینا چاہیے۔ ۔ اداکارہ نصرت جہاں ایسی پہلی مسلم خاتون نہیں ہے جس نے ساڑی پہنی ہے یا شادی کے بعد اپنی مانگ میں سیندور بھرا ہو۔

مشرقی اتر پردیش بہار جھارکھنڈ اڑیسہ بنگال اور آسام میں بے شمار ایسی مسلم خواتین ہیں جو ساڑی پہنتی ہیں اور سیندور لگاتی ہیں اس لئے نہیں کہ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق شادی کے بعد مانگ میں سیندور بھرتی ہیں اور چوڑیاں پہنتی ہیں یہ سہاگن ہونے کی علامت ہے اور شوہر کی وفات کی خبر سنتے ہی مانگ سے سیندور پونچھ لیا جاتا ہے اور چوڑیاں توڑ دی جاتی ہیں۔ ان کا ایسا ماننا ہے کہ سیندور اور چوڑیوں سے اس کی طرف خاوند کی کشش بڑھتی ہے اور غیر مرد سیندور والی کو شادی شدہ سمجھ کر لحاظ کرتے ہیں بری نظر نہیں ڈالتے اس کے علاوہ دیوی پاروتی نے سیندور لگایا تھا اس لئے اس شادی شدہ زندگی کے دوام کے لئے دیوی پاروتی کا آشیرواد ملتا ہے۔ جبکہ مسلم خواتین محض زینت بناؤ سنگھار اور رسم و رواج سمجھ کر سیندور اور چوڑیوں کا استعمال کرتی ہیں تاہم جن علاقوں خواتین کو سیندور کے غیر مسلموں کا دینی شعائر میں سے ہے بتایا گیا انہوں نے لگانا ترک کر دیا۔

آپ داروغہ نہ بنیں تبلیغ کریں صحیح دین پھیلائیں۔

المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو اور اپنے مقصد زیست کو بھلا دیا اسی لئے ہم اپنی تعمیر و ترقی اور اصلاح کے کاموں کو چھوڑ کر غیر ضروری مسائل میں ایسے الجھتے ہیں جیسے وہی ہماری اولین ترجیحات ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).