عمران خان صاحب بھاگ جائیں


عمران خان کی اقتدار میں آنے کی جدوجہد کے دنوں میں عمومی تاثر تھاکہ جدوجہد کو رنگ جنرل پاشا کی خاص عنایت سے چڑھا ہے۔ الیکشن کے دوران اور پولنگ کے دن عمومی تاثر یقین میں بدل گیا تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ اور بجٹ کی منظوری کے بعد کی صورتحال میں عمران خان بری الذمہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔ مملکت خداداد کا بچہ بچہ اس امر کی چیخ چیخ کر شہادت دے رہا ہے عمران خان ایسے نہیں ہیں۔ جیسے ان سے کام کروائے جا رہے ہیں۔

یہ بھی تاثر پیدا ہورہا ہے کہ عمران خان زیادہ دیر اس صورتحال کو برداشت کرنے والے نہیں ہیں۔ ایک دن پھٹ پڑیں گے۔ گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کی گرفتاری جس انداز سے کی گئی ہے۔ اس پر بھی عوامی تحفظات ہیں کہ یہ کام عمران خان انتظامیہ نہیں کر سکتی ہے۔ نواز شریف، آصف علی زرداری سمیت دیگر سیاسی گرفتاریوں پر عوامی سوچ میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ چور، ڈاکو اور کرپشن والا خیال بہت کمزور پڑگیا ہے اور گرفتاریوں کو سیاسی انتقام قرار دینے کے ساتھ حکومتی نا اہلی کو چھپانے کی کوشش بھی کہا جارہا ہے۔

اب وہ بات بھی دم توڑ گئی ہے کہ حکومت کو آئے بھی تھوڑا وقت ہوا ہے۔ عوام کا ایک طبقہ اس بات پر کافی سخت موقف رکھتا ہے کہ عمران خان کے دونوں ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ عمران خان کو کچھ کرنے نہیں دیا جارہا ہے۔ عوام کے اس طبقے کا تعلق حکمران جماعت سے ہے مگر کچھ غیرجانبدار حلقے بھی تائید کرتے ہیں کہ حکومت کے پاوں باندھے ہوئے ہیں۔ مرضی سے چلنے نہیں دیا جارہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی سے اعلان لاتعلقی کرنے والے راولپنڈی کے رہنما سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے بھی اس امر کا اظہار عقیدے کی طرح کیا کہ پاکستان میں جو کچھ ہوتا ہے۔ بالادست قوتوں کی مرضی سے ہوتا ہے۔

شمالی پنجاب میں یہ بات عقیدے کی صورت ہی پائی جاتی ہے۔ صوبہ پوٹھوہار بنانے کی جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعت تحریک صوبہ پوٹھوہار کے رہنماؤں کو بھی اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ صوبہ پوٹھوہار جس قوت نے بنانا ہے۔ وہ فی الحال نئے صوبوں پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو کے مصداق مسلم لیگ ن کی توڑ پھوڑ اور دیگر سیاسی قوتوں کو زیر کرنے کی پالیسی سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس تاثرکو حقیقت پرمبنی سمجھا جائے یا پھر دانستہ ایک قومی ادارے کے امیج کوپراگندہ کیا جارہا ہے تاکہ عوامی سطح پر اپنی فیس سیونگ کی جائے اور اپنے کیے کا الزام بھی کسی اور پر تھوپ کرپتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کی جائے۔ یہ ایک گندہ کھیل ہے۔ اس کھیل کے جو جو بھی کھلاڑی ہیں۔ وہ ملک و قوم کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔ بظاہر حکمران منتخب ہوکر آئے ہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جارہا ہے تو انہیں ڈر کس بات کا ہے۔

پارلیمان کے فورم کو آگاہ کریں۔ اگر وہ اہلیت نہیں رکھتے ہیں تو پارلیمان سے مشاورت کریں۔ درپیش ملکی مسائل سے نجات پارلیمان کے علاوہ کوئی دوسرا فورم نہیں ہے۔ اس لئے حکمرانوں کو مسائل کو چھپانے کی بجائے پارلیمان کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ سیاسی قوتوں کے خلاف مقدمات اور گرفتاریاں حکومت کے لئے مزید مشکلات کا باعث تو بن سکتی ہیں۔ مگر کسی بھی صورت میں حکومت کی مضبوطی کا تاثر قائم نہیں کرسکتی ہیں۔

یہ وہ عہد بھی نہیں ہے۔ جس سیاسی مخالفین کو دباکر حکومتیں اپنا وقت گزار لیتی تھیں۔ یہ عہدمیڈیا کی آزادی، شخصی آزادیوں اور انسانی حقوق دینے کا عہد ہے۔ روگردانی سے کام نہیں چلے گا۔ عمران خان کی سابقہ پہچان بھی یہی ہے کہ وہ انسانی حقوق، شخصی آزادیوں کے قائل ہیں۔ کڑا حتساب کریں۔ کرپشن کے خلاف اقدام ضرور کریں۔ مگر طریقہ درست اپنائیں۔ یہ آمرانہ طرز حکمرانی ہے جوپاکستان کے عوام اب قبول نہیں کریں گے۔ عوام ترکی، ایتھوپیا اور سوڈان کے واقعات سے سبق سیکھ چکے ہیں۔ ہوش اور حکمت عملی سے کام لیں۔ بصورت دیگر بھاگ جائیں اقتدار سدا نہیں رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).