مٹھی مسمار ہو چکا ہے


سورج کے ہمراہ جیسے ہی آنکھ کھلی، ٹک ٹک کی آواز نے من کے بھیتر بے چینی سی پیدا کردی۔ ہاتھوں سے کروٹ لی اور آنکھوں نے انگڑائی لے کے سردی کی دھوپ کو جذب کیا۔ دروازے سے جھانکا تو پڑوسی اپنے ہی احاطے کو ہتھوڑا مار رہا تھا۔ یہ مزدور بچارا، ٹھیلا چلانے والا، چونی آٓٹھنی ملا کے دکان بنایا تھا۔ ایک نایاب حسرت تھی، گھر گھر کے چکر کاٹنے کے بجائے اپنے ہی گھر میں دکان بنا کے گھر کی گزران کرے گا۔ جس نے اینٹوں کی چناوٹ پانی سے نہیں، اپنے پسینے سے کی تھی۔ ملبے سے پل بھر کے لئے آنکھ ہٹائی پھر بے دردی سے اپنے درد کو ٹانکتا رہا۔ قحط سالی نے پہلی ہی سب چھین لیا تھا، صاحبِ شہر سے کہنا اب کیا اور نگلنا ہے؟

درد سے گھٹن ہو رہی تھی، فاصلا بالشتوں سے ناپتا آگے چلا، مکیں اور مکاں جیسے ایک دوسرے پر ٹوٹ کے برس پڑے ہو۔ مارکیٹ تک پہنچا، بوڑھا دکاندار کسی سے کہہ رہا تھا، طاقت سے گونجتی آواز کو ہم لبیک کہیں اور گند کا منہ دکھانے کے لئے تھلے، اسٹیپز، واش رومز سب اکھاڑ کر پھینک دیں پر یہ بچوں والا کھیل تین چار مرتبہ ہو چکا ہے۔ غیر قانونی دیواریں گرانے کے لئے تو چارہ گری ہے پر قانونی کوئی درجہ بندی نہیں، نہ گند کو ڈھانپنے کے لئے، نہ کوئی تعین کہ کتنے اسٹیپس کا گھر یا دکان سے اندر و باہر جانے کے لئے۔

کچھ عرصہ پہلے میونسپل والون نے کچھ دکانوں کے باہر اسٹیپس بنا کے دیے تھے، اب وہ خود ہی آ کے اکھاڑ رہے ہیں۔ انہیں خود پتا نہیں کیا کرنا ہے پر یہ پلان ضرور ہے تباہ کرنا ہے صاحب ”اور بوڑھا غریب آنکھوں سے امیرشہر کو تکتا رہا۔ واپار کے ہرے بھرے درختوں کو دن دھاڑے بڑے شد و مد سے نیست و نابود کیا گیا۔ بلڈوزورس کو کئی دکانون کی بھینٹ دی گئی، ان گنت پسینوں کی ہولی سے کھیلا گیا پر پھر بھی ان کی پیاس نہیں بجھی۔ درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

کرڈٹ اکانومی کے گاؤں مٹھی کو جدت کے رنگوں مین رنگنے اور گاؤں کو شہر بنانے کی تیاریاں عروج پر تھی، شروعات تو ان تھلوں کو مٹانے سے کی گئی جس مین اس گاؤں کی تھذیب و تمدن، کلچر، امن، اپنا پن اور دکھ، سکھ کا لہو شامل تھا۔ یادوں کی تعبیریں تھی، خوابوں کے جزیرے تھے، انتظار کا موسم تھا، جوانی کے اثاثے تھے، بوڑھوں کے آشرم تھے، تھکاوٹ کا احساس تھا، پرانے خطوط کے لفافوں کی پتیاں تھی، بیڑیوں کا دھواں تھا، کرکٹ اور سیاست کے تبصرے تھے، بڑھتی مہنگائی اور کاروبار کے حساب تھے، الجھی سلجھی رسموں کا بندھن تھا، بن کہے اور ان سنے شاعروں کے گیت تھے، نوجوان نسل کے ڈجیٹل میسیجز تھے اور لمحوں سے افسانوں تک نہ ختم ہونے والی فون کالز پر باتیں تھی، لایک اور کمینٹس سے آٓگے ووٹ پر فیس بک کے اسٹیٹس تھے۔ درد تھے، عذاب تھے، خواب تھے، سراب تھے پر بے حساب تھے اور لاجواب تھے، سب ختم ہوگئے۔ کچھ نہیں رہا صاحب إ سب جل کر خاک ہوگئے۔ ہم اپنے بھیتر اپنے آپ کی میت پر رو رہے ہیں۔ نوجوان نے ہلکی سی آٓہ بھری جو صدیوں کا درد لمحوں میں بتا رہی تھی۔

اندھیرا مانگنے آٓیا تھا روشنی کی بھیک، ہم اپنا گھر نہ جلاتے تو اور کیا کرتے

گاؤں کی گلیوں میں ٹھلتی گائے، در و دیوار کے سایے سے محروم ہوکرآہیں بھرنے لگی۔ َ تلسی آہ غریب کی کبھی نہ خالی جائے۔ یہ زمیں ازل سے لے کر آج تک دو گز کے سوا کسی کی نہیں ہوئی ہے۔ وقت کے اندھے، بہرے حکمرانوں کو سوچنا پڑے گا۔ دنیا کی صدیوں سے چلتی ہوئی ریل میں چڑھے ہوئے مسافر گویا یہ سوچ رہے ہیں کہ ؓ یہ گاڑی میری ہے، تو یہ ان کی بھول ہے۔ اس میں تم جیسے مسافر پتا نہیں کتنے چڑھے، اترے ہیں، کل اور بھی آئیں گے۔ اپنی بھول کا تماشا کرکے کسی کی معصومیت کا مذاق مت اڑایئں۔

زمینوں کے ابااجداد تو ریوینیو والے ہی ٹھہرے۔ کون سا یہاں نالے پر لٹکی کیبن سے لے کر بڑے ہوٹل تک کا بزنس ہے، جس کے عطیئے کا ناخن تک بھی پٹواری نے نہ نوچا ہو۔

کچھ نے تو صاحب شطرنج کے پیادوں کا بھی کام کیا آپس میں لڑ پڑے اور توڑ مروڑ کی ایک دوسرے کو نشانہ بنایا۔ گھر کو گھر کے چراغوں نے ہی تو آگ لگائی۔ دور انگریز تو ختم ہوا پر سوچ انگریز کا تیور ابھی بھی سیاسی مہروں میں ہے۔

میں چیختا، چلاتا۔ ٹوٹا۔ پھوٹا منظر دیکھ کر پیشماں تھا کہ اندر سے آواز آئی، شہر یتیم ہوگیا ہے آنکھوں نے امبر کی اور دیکھا، مسکراتے کسی نے کانوں میں سرگوشیاں دی، عروج میں زوال ہوتا ہے اور نور الہدی شاہ کی نظم سنائی۔

بوڑھے ملزم کے آگے زہر بھرا پیالا رکھا گیا

جج نے کہا

پیو

اگر تم حق پر ہو

بوڑھے نے کہا

تم بھی پیو اگر تم منصف ہو

جج نے کہا

ٓآدھا آدھا پیتے ہیں

جو حق پر ہوگا وہ زندہ رہے گا

ناحق مر جائے گا

دونوں نے آدھا آدھا زہر پیا

جج مر گیا

بوڑھا زندہ رہا

پیالے میں زہر نہیں

پانی تھا

ناحق خود زہر ہوتا ہے

یہ جج بھی نہیں جانتا تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).