رانا ثناءاللہ کو خطرہ ہے


مریم بی بی نے ابھی کچھ دن پہلے ہی کہا تھا کہ پاکستان کو مصر اور نواز شریف کو مرسی نہیں بننے دیں گے۔ ممکن ہے کہ انہیں ایسے کسی منصوبے کی بھنک پڑ گئی ہو۔ اگر ایسا نہیں اور یہ محض ایک اندازہ تھا تو لگتا ہے کہ اب یار لوگوں نے اسے چیلنج کے طور پر لے لیا ہے۔ کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیر اعظم نواز شریف سے اہل خانہ تک کی ملاقاتیں محدود کرنے کے ساتھ اب ان کے لیے گھر سے آنے والے کھانے پر بھی پابندی لگائی جارہی ہے۔

حکومتی بلکہ ترجمان یہ موقف اختیار کررہے ہیں کہ گھر سے آنے ولا کھانا سابق وزیر اعظم کو لاحق امراض کے باعث ان کے لیے زہر ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اب کھانے کو وہی ملے گا جس کا حکم اوپر سے آئے گا۔ نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی، دل میں کئی سٹنٹ ڈالے گئے ہیں۔ چند سال قبل لندن میں ان کے آپریشن کے دوران مخصوص میڈیا لابی نے اس حوالے سے پروپیگنڈا کیا تھا کہ کوئی سرجری نہیں ہوئی، قوم اور عدالتوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے، وغیر ہ، وغیرہ۔

وہ سب غلط ثابت ہو چکا۔ ریاستی اداروں کی حراست میں آنے کے بعد ہر چیز اوپن ہوگئی کہ نواز شریف کی سرجری سے لے کر ان کو لاحق امراض اور اس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کیا کیا ہیں۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ کل تک جو صاحبان ایجنڈا اینکر و تجزیہ کا ر اور نام نہاد ترجمان آپریشن جھٹلا رہے تھے اب ان کے سینوں میں ہمدردی کی شدید لہر اٹھی ہے، کہا جا رہا ہے کہ گھر سے آنے ولا کھانا نواز شریف کی جا ن لے سکتا ہے۔

نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان فارن کوالیفائیڈ ہیں۔ آپریشن کے بعد ان کی خوراک کا چارٹ یقینا لندن سے بن کر آیا ہوگا۔ گھر والوں سے زیادہ کس کو خبر ہو سکتی ہے، خود مریض بھی بخوبی وقف ہو گا، ایسے میں حکومت نے گھر کا کھانا بند کرکے اپنی مرضی کے مطابق خوراک دینے کا جو فیصلہ کیا ہے اللہ نہ کرے کہ اس کے نتیجے میں کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آجائے۔ گھر سے آنے والے کھانے پر پابندی لگانے کے ساتھ سابق وزیر اعظم کی ہفتہ وار ملاقاتیں محدود کرنے سے یہ بالکل واضح ہو چکا کہ منصوبہ سازوں کی اصل نیت کیا ہے؟

منشیات کے ”شاہکار“ کیس میں رانا ثناءاللہ کی گرفتاری اور اس کے بعد ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے پلان مزید واضح ہوجاتا ہے۔ اب تک کی مصدقہ اطلاعات کے ساتھ جولائی کے تپتے مہینے میں مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر اور رکن قومی اسمبلی کو ایک چھوٹے سے کھڈے میں ڈالا گیا ہے۔ جہاں کوئی روشن دان تک نہیں، ایک چادر دی گئی ہے، چاہیں تو اوپر لے لیں، چاہیں تو فرش پر ڈال کر اس کے اوپر لیٹ جائیں۔ پینے کا پانی گندا اور خوراک ناقص اور اس کا بھی کوئی ٹائم نہیں۔

ادویات فراہم نہیں کی جارہیں۔ اہل خانہ کے مطابق رانا ثناءاللہ امراض قلب میں مبتلا ہیں۔ ان کی بائیں آنکھ میں کلاٹ ہے، کمر میں درد رہتا ہے۔ بعض اور شکایات بھی ہیں۔ ایسا ہونا کوئی انکشاف ہے نہ حیرت انگیز امر۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے ہاں پچاس سال سے اوپر جاکر لوگ بیمار ہوتے تھے۔ پھر عمر کی یہ حد چالیس سال تک آگئی۔ اور سچ جانیے اب تو کوئی حد رہ ہی نہیں گئی ہے۔ مخصوص میڈیا پر بعض ”پرچی“ تجزیہ کار جواب سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچھا بھلا آدمی جیل میں جاتے ہی کیسے بیمار ہوجاتا ہے؟

اگر ایسے نابغوں کو صرف 48 گھنٹوں کے لیے بند کردیا جائے تو یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ ان کے گھروں سے دواؤں کے کتنے لفافے اور کیسی پرہیزی خوراک آتی ہے؟ آج کل تقریباً ہر بندہ کسی نہ کسی مرض میں مبتلاہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب وہ باہر ہوتا ہے توٹائم پر دوا، ورزش، فزیو تھراپی، مناسب آرام، متوازن خوراک اور کچھ ہمت کرکے اپنی تکالیف دوسروں پر ظاہر کیے بغیر معمولات جاری رکھتا ہے۔ اگر وہ گرفتار ہوجائے تو ظاہرہے کہ فوری طور پر ان تمام چیزوں سے محروم ہوجاتا ہے۔

آسانی سے پینا ڈول کی ایک گولی بھی میسر نہیں ہوتی۔ چند ہفتے قبل سابق وزیر ریلوے سعد رفیق کو ایک کھٹارہ بکتر بند گاڑی میں جان بوجھ کر معمولی سفر کئی گھنٹوں پر محیط کر کے عدالت لایا گیاتو پتہ چلا کہ ان کی ٹانگ میں شدید درد ہے۔ اس سے قبل ان کے گھر والوں کے سوا شاید ہی کسی کو علم ہو گا، بظاہر چاق وچوبند نظر آنے والے سعد رفیق جو پہلے بھی کئی مرتبہ قید کاٹ چکے ہیں۔ شیٹکاکے مرض میں مبتلا ہیں۔ خواجہ سعد رفیق سے یاد آیا مشرف دور میں ایک بار وہ اور عمران خان اکٹھے گرفتار ہو گئے تھے۔

صرف دودن میں کس کی کیا حالت ہو گئی؟ یہ سعد رفیق کی زبانی سنیں تو پورا لطف آتا ہے۔ بہر حال ان دنوں سعد رفیق اور سلمان رفیق دونوں گرم قید خانوں میں اپنے صبر کا امتحان دے رہے ہیں۔ ایسانہیں کہ سبھی قیدی کڑے امتحان سے گزرتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو ٹھنڈے کمروں میں رہتے ہیں صرف جیلوں میں ہی نہیں نیب حوالات میں بھی دونوں طرح کی سہولت موجود ہے۔ علیم خان کے بارے میں کہا جا تاہے کہ وہ ایئر کنڈیشن لگا کرسوتے رہے بلکہ گھر بھی چلے جایا کرتے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2