یہ سب فلاں فلاں کا قصور ہے


سب سے پہلے تو اس قدر دیر کی معذرت۔ بہت عرصے بعد لکھ رہی ہوں۔ یقین جانئے کہ وجہ کاہلی نہیں بلکہ کچھ ذاتی کاموں کا پہاڑ تھا۔ آج کچھ سرکتا دکھائی دیا تو جھٹ قلم تھام لیا۔ یا شاید یہ اپنے بس کی بات ہوتی بھی نہیں۔ الفاظ خود اپنے آپ کو لکھواتے ہیں۔ لکھنے والے کی یہ اوقات کہاں کہ فیصلہ کرے اس نے کیا لکھنا ہے۔ ایک غیر ارادی لاشعوری فعل ہے جو اپنے ہی آپ ہو جاتا ہے۔ شاید لفظ روٹھ گئے تھے۔ آج لوٹے ہیں۔ ابھی بھی کچھ خفا سے ہیں لیکن چلئے ہمارے دیس تو پدھارے۔ تحریر ربط سے خالی ہو تو پیشگی معافی کی درخواست ہے۔ روح سے خالی ہو تو جو سزا چور کی وہ ہماری

کل رات تک ورلڈ کپ کا دور دورہ تھا۔ تھا اس لئے کہ پانچ سو رنز کا خواب پورا نہ ہو پایا۔ کچھ اغیار کی سازشوں نے بھی مارا۔ جب پتہ تھا کہ ہمیں ان کی اچھی گیم کی ضرورت تھی تو ڈھنگ سے کیوں نہیں کھیلے؟ ان کے ہاتھوں میں مہندی لگی تھی کیا؟ سارا ورلڈ کپ ہی فکسڈ تھا۔ ان کافروں کو بھی اچھا کھیلنا تب ہی یاد آتا ہے جب ہمارے مد مقابل ہوں۔ ایک دوسرے کے سامنے تو فتح میں یوں تہذیب دکھاتے ہیں کہ جیسے کھانے کی لمبی آبنوسی میز پر سب بیٹھے ہوں۔ سب کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہوں۔ لیکن پندرہ منٹ اسی تکرار میں گزر جائیں کہ پہلے آپ۔ جی نہیں، پہلے آپ۔ ہر کوئی اسی کوشش میں سرگرداں ہوتا ہے کہ دوسرا ہی بھنے قورمے سے ٹانگ کی بوٹی اٹھائے۔

جب یہ کمبخت ہم سے میچ کھیلتے ہیں تو شادی کے کھانے کا سماں ہوتا ہے۔ جب سرگودھا کے شادی ہال میں مانانوالہ کی بارات تاخیر سے پہنچے تو روٹی کھلنے کا منظر دیدنی ہوتا ہے۔ طشتری سے قورمہ نکالنے کے چمچ پر وہ گھمسان کا رن ہوتا ہے کہ الحفیظ الامان۔

یعنی قورمہ وہی رہتا ہے بس حالات بدل جاتے ہیں۔ یا ’برگر پیزا‘ فیم مومن ثاقب کے بقول وقت بدل گیا۔ حالات بدل گئے۔ جذبات بدل گئے۔ محبت ٹو وے ہوتی ہے۔ تمام ٹیمیں یہاں ورلڈ کپ جیتنے نہیں بلکہ ہمیں ہرانے آئی ہیں کہ کہیں پاکستان کے یہ شاہین انگلستان فتح نہ کر لیں۔ نیو ورلڈ آرڈر نہ لے آئیں۔

ہم جانتے ہیں کہ آپ کے دل میں بھی وہی ہے جو ہمارے دل میں ہے۔ حقیقت آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی۔ ہم ورلڈ کپ سے باہر نہیں ہوئے ہمیں باہر کیا گیا ہے۔ صیہونی لابی متحرک ہے۔ اسی طرح ہمارے ملکی حالات بھی خراب کرنے میں پچھلی حکومتوں اور اغیار کا ہاتھ ہے۔ ڈالر کی قیمت بھی ایک سازش کے ذریعے بڑھائی جا رہی ہے۔ یہ مہنگائی کا طوفان اور بے روزگاری کا عفریت کسی اور کی کرنی ہے۔ ورنہ ہمارا ملک تو پچاس لاکھ نوکریاں تیار کیے کھڑا ہے۔ دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند ہونے کو ہی ہے۔

اگر اس دنیا کو ہم اتنے برے لگتے ہیں تو ہمیں چھوڑ دے۔ ہمارا مطلب ہے ہم سے ادھار واپس مانگنا چھوڑ دے۔ ہماری ترقی میں روڑے نہ اٹکائے۔ ہم سے جلنا چھوڑ دے کیونکہ جلنے والے کا منہ کالا۔

دنیا والو، ڈرو اس دن سے جب ہم اپنا جہاں آپ بسا لیں گے۔ اپنا ورلڈ کپ آپ بنا لیں گے۔ اپنی طرز کا نیا ٹورنامنٹ لائیں گے جس میں اپنی کمزوری دوسروں پر ڈالنے کا مقابلہ ہو گا۔ ہم تو ابھی سے وہ جیت چکے ہیں۔ آج میں اوپر آسمان نیچے۔

اوئے ٹرمپ! اوئے مودی! اوئے نواز شریف!
ہماری مانئے تو اسے اپنی طاقت بنائیے۔ آج ہی ’فلاں کی وجہ سے‘ نامی اچھوتے کھیل کو اپنا قومی کھیل قرار دیجئے۔ اور آسمان چیر دیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).