جانور راج: انسانوں سے تجارت کی شروعات


(تحریر: جارج آرویل، ترجمہ: آمنہ مفتی)۔
ایک اتوار کی صبح، جب جانور اپنے احکامات وصول کرنے کے لئے جمع ہوئے تو نپولین نے اعلان کیا کہ اس نے ایک پالیسی وضع کی ہے۔ اب سے جانوروں کا باڑہ، پڑوس کے باڑوں کے ساتھ تجارت، کیا کرے گا:ظاہر ہے کمانے کے مقصد سے نہیں، بس کچھ ایسی اشیاء کے حصول کے لئے جو کہ ازحد ضروری تھیں۔ پون چکی کی اہمیت، ہر ایک شے سے سوأ ہونی چاہییے، اس نے کہا۔ چنانچہ، وہ، توڑی کی ایک دھڑ، اور اس سال کی گندم میں سے کچھ حصہ بیچنے کی بات چیت کر رہا ہے۔ اگر مزید رقم درکار ہوئی تو وہ انڈوں کی فروخت سے پوری کی جائے گی جن کی ڈھپئی میں ہمیشہ ہی بڑی مانگ رہی ہے۔ مرغیوں کو یہ قربانی، پون چکی کی تعمیر میں اپنا حصہ سمجھ کے قبول کرنی چاہیے، نپولین نے کہا۔

ایک بار پھر جانوروں کی کسی گڑبڑ کا احساس ہوا۔ انسانوں کے ساتھ کوئی لین دین نہیں کرنا، تجارت میں ہاتھ نہیں ڈالنا، کبھی پیسے کے چکر میں نہیں آ نا؛کیا جانی کو دفعان کرنے کے بعد پہلے فاتحانہ اجلاس میں یہ باتیں طے نہیں ہوئی تھیں؟ تمام جانوروں کو ان قراردادوں کا طے ہونا یاد تھا:یا کم ازکم وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں یہ یاد ہے۔ ان چاروں پٹھورے سے سؤروں نے جو نپولین کے مباحثے بند کرانے پہ بھی بولے تھے، کمزور سی صدائے احتجاج بلند کی مگر انہیں فوراً ہی کتوں کی ایک عنیف غراہٹ نے خاموش کرا دیا۔ تب، حسب معمول، بھیڑوں نے “دو لاتیں اچھی ہیں، چار لاتیں گندی ہیں” ممیانا شروع کر دیا اور لمحاتی اضطراب دب دبا گیا۔

آخر نپولین نے کھر اٹھا کے سب کو خاموش کرایا اور کہا کہ وہ پہلے ہی سب انتظامات کر چکا ہے۔ کسی بھی جانور کو کسی انسان سے تعلق رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں اور ظاہر ہے کوئی چاہتا بھی نہیں۔ وہ یہ تمام بوجھ اپنے کندھوں پہ اٹھانا چاہتا تھا۔ ایک جناب نوید مسرت جو کہ ڈھپئی میں وکیل کے منشی تھے، باہرکی دنیا اور جانوروں کے باڑے کے درمیان، وچولے بننے کو تیار ہو گئے تھے، اور موصوف ہر سوموار کی صبح نپولین کے احکامات لینے کو فارم پہ آ یا کریں گے۔ نپولین نے اپنی تقریر ہمیشہ کی طرح، “جانور راج، زندہ باد” کے نعرے پہ ختم کی، اور‘ وحوشِ انگلستان ’کا ترانہ گانے کے بعد جانوروں کو رخصت کر دیا گیا۔

اس کے بعد چیخم چاخ نے باڑے کا ایک دورہ کیا اور جانوروں کے دماغوں کو ٹھنڈا کیا۔ اس نے انہیں یقین دلایا کہ تجارت میں ہاتھ ڈالنے اور پیسے کو استعمال نہ کرنے پہ تو کبھی کوئی قرار داد منظور تو کجا پیش ہی نہ ہوئی تھی۔ یہ نرا خیال تھا، شاید اس کے ڈانڈے ان جھوٹوں سے ملتے تھے جو ابتداء میں سنو بال نے پھیلائے تھے۔ کچھ جانوروں کو ابھی بھی ذرا شبہ تھا، مگر چیخم چاخ نے ان سے عیاری سے پوچھا، ”کیا آپ کو یقین ہے کامریڈز کہ یہ آپ کے کسی خواب کا حصہ تو نہیں؟ کیا آپ کے پاس ایسی کیسی قرار داد کا کوئی ثبوت ہے؟ کیا یہ کہیں لکھا ہوا ہے؟ “ اور چونکہ یہ سچ تھا کہ ایسا کچھ بھی کہیں لکھا ہوا نہیں تھا، جانور مطمئن ہو گئے کہ انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔

ہر سوموار کو جناب نویدِ مسرت انتظامات کی رو سے فارم پہ تشریف لاتے تھے۔ وہ ایک گٹھا، مکار صورت آدمی تھا جس کے بڑے بڑے گل مچھے تھے، ایک پٹے ہوئے وکیل کا پٹا ہوا منشی مگر اتنا عیار ضرور تھا کہ سب سے پہلے ہی بھانپ گیا تھا کہ جانوروں کے باڑے کو ایک دلال کی ضرورت پڑے گی اور دلالی خاصی بھاری ملے گی۔ جانور اس کی آمد ورفت کو ایک سہم کے عالم میں دیکھتے تھے اور اس سے جس قدر ممکن ہو بچتے تھے۔ اس کے باوجود، چار ٹانگوں پہ چلتے ہوئے نپولین کو جناب نوید کو احکامات جاری کرتے دیکھنا جو کہ دو ٹانگوں پہ چلتا تھا ان کے حوصلے بلند کرتا تھا اور وہ کسی حد تک نئے انتظامات سے راضی ہو ہی گئے۔

نسلِ انسانی سے ان کے تعلقات اب قطعاً پہلے جیسے نہ تھے۔ انسان، جانوروں کے باڑے سے اس کی ترقی کے بعد کچھ کم حسد نہ کرتے تھے : بلکہ یہ حسد پہلے سے کہیں زیادہ تھا۔ یہ تو ہر انسان کے ایمان کا جزوِ لاینفیک تھا کہ فارم جلد یا بدیر دیوالیہ ہو جائے گا اور سب سے بڑھ کر پون چکی ناکام ہو گی۔ وہ کلال خانوں میں ملتے تھے تو تصویروں کی مدد سے ایک دوسرے کو سمجھاتے تھے کہ پون چکی گرے ہی گرے، اور کھڑی بھی رہی تو کبھی کار آمد نہیں ہو گی۔

پھر بھی اپنی خواہش کے برعکس ان کے اندر اس مستعدی کے باعث جس سے جانور اپنے معاملات خود سنبھال رہے تھے جانوروں کی عزت گھر کر چکی تھی۔ اس کی ایک نشانی تو یہ تھی کہ انہوں نے جانوروں کے باڑے کو اس کے اصل نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا بجائے اس کے کہ اسے ’آ دم جانی کا باڑہ‘ کہنے پہ مصر رہتے۔ انہوں نے جانی صاحب کا ساتھ دینا بھی چھوڑ دیا تھا جو کہ اپنے باڑے کو واپس لینے کی امید چھوڑ کے کسی اور گاؤں جا بسے تھے۔

نویدکے سواء ابھی تک باہر کی دنیا اور جانوروں کے باڑے کا کوئی تعلق نہ تھا مگر ایک افواہ مسلسل گردش میں تھی کہ نپولین جلد یا بدیر، خالصہ کلاں کے رؤف جٹ یا بوہڑ والا کے مسٹر اللہ دتہ کے ساتھ ایک کاروباری معاہدہ کرنے والاتھا، مگر یہ کبھی کسی نے نہ سوچا تھا کی دونوں ہی کے ساتھ بیک وقت معاہدہ کرے گا۔

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج! کرپٹ انسانوں سے نجات کے بعدجانور راج: پون چکی کی تباہی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).