جہاد پر پابندی ایک دفعہ پھر ناکافی رہے گی


ایک دفعہ پھر یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ کچھ مذہبی جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ان خبروں کے ساتھ جو تصاویر اخباروں کی زینت بنی ہیں وہ ہہت ہی جانی پہچانی ہیں، نہ صرف پاکستان میں بلکہ پاکستان سے باہر بھی۔ یہ نام اور تصاویر اقوام متحدہ اور دوسرے با اثر فورمز پر بولے جاتے ہیں اور پاکستان کے لیے وہ کوئی اچھی خبر نہیں ہوتے۔ ان تصاویر کے متعلق جواب دینا ہمارے بہت سے سرکاری مندوبین کے لیے ممکن بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے حکومتی نمائندے جو ان فورمز پر بھیجے جاتے ہیں وہ جواب دینے کی اتھارٹی بھی نہیں رکھتے اور خوف زدہ سے ہوتے ہیں۔ انہوں نے واپس گھر بھی آنا ہوتا ہے۔

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ جہاد کو پچھلے چالیس سال ہم نے خوب پالا ہے۔ عام طور پر پوری دنیا کا امن خراب کرنے میں بدترین کردار امریکہ کا ہے۔ امریکی حکومتوں اور اس کی اشرافیہ کا خیال ہے کہ وہ اس سے بہت کماتے ہیں اس لیے وہ اس پر بہت روپیہ اور دوسرے وسائل لگاتے ہیں۔ پچھلے چالیس برس میں امریکی صدور خاص طور پر ریگن اور بش نے انسانیت کے خلاف بد ترین جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور ہمارے فوجی ڈکٹیٹر ان کے بد ترین جرائم میں حصہ دار تھے۔

امریکی صدور کے ان جرائم کا نتیجہ ہے کہ افغانستان، پاکستان، عراق اور شام کے کروڑوں انسان کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بہت سے تو بے دردی سے مار دیے گئے اور جو بچ گئے ہیں انہوں نے اپنے پیاروں کو بے دردی سے قتل ہوتے دیکھا ہے۔ اپنے گھر، شہر اور ملک کو کھنڈر بنتے دیکھا ہے۔ کروڑوں کو اپنے شہر اور ملک ہی چھوڑنے پڑے۔ کروڑوں انسانوں کو اس اذیت سے گزارنے کا جرم دنیا کے طاقت ور ترین ملک امریکہ کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔

جیسا کہ پہلے کہا ہے کہ امریکی حکومتیں یہ جرائم اکیلے نہیں کرتیں۔ ہمارے ڈکٹیٹرز اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔

افغانستان کو برباد کرنے میں بھی ہم نے امریکہ کا ساتھ کچھ اس طرح سے دیا کہ ساتھ ہی خود کو بھی برباد کر لیا۔ افغان جہاد کا ایندھن ہمارے نوجوانوں نے بننا تھا۔ اس لیے ہم نے اپنے نوجوانوں کو انسانوں کی طرح نہیں پالا کہ وہ بڑے ہو کر اپنے لیے ایک اچھی زندگی کا انتخاب کریں اور معاشرتی امن اور زندگی کا حصہ بنیں یا اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔ بلکہ ہم نے انہیں اس طرح پالا ہے کہ وہ بڑے ہو کر ایک بم کا کام کریں۔ جو بھی ان کی زد میں آئے اسے برباد کر دیں اور انہیں لگے کہ وہ کامیاب ہوئے ہیں۔

صرف یہی نہیں جو اس قابل نہیں ہیں کہ کلاشنکوف چلائیں یا بم باندھیں وہ مالی قربانی دیں اور اس کا اجر اگلی زندگی میں پائیں۔ اب جہاد میں مالی طور پر حصہ ڈالنے والوں کی تعداد بم باندھنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔ اور اس سے بھی کہیں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس جانی اور مالی قربانی اور جہاد کو نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ اس میں شامل ہونے والوں کے احسان مند بھی ہیں۔

جہاد کے لیے یہ ماحول ہم نے برسوں کی محنت سے قائم کیا ہے۔ اس لیے یہ مسئلہ صرف دو چار جہادی تنظیموں کو ادھورے دل سے بین کرنے سے حل نہیں ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں اس سارے پروسیس کو واپس کرنا پڑے گا جو پچھلے چالیس سال سے چل رہا ہے۔ اس کو الٹ پھیرنے میں بہت وقت اور وسائل بھی درکار ہے۔ لیکن پہلا قدم تو اٹھائیں۔

سب سے پہلے تو یہ اعتراف کرنا لازمی ہے کہ ہم نے افغان جنگ میں شامل ہو کر شدید غلطی کی اور یہ کہ اسلام کا نام اس جنگ میں غلط استعمال کیا گیا۔ یہ اسلام اور کفر کی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی جنگ تھی اور ہمارے ڈکٹیٹر فوجی حکمرانوں اور کچھ مذہبی رہنماؤں نے اس میں ذاتی مفاد کی خاطر امریکی ایجنٹ کا کام کیا اور پاکستانی عوام کو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس بنا دیا۔ ہیلری کلنٹن نے وزیر خارجہ کے طور پر اس بات کا اعتراف کر لیا ہے اور ہمارے موجودہ سپہ سالار نے بھی یہ بات واضح الفاظ میں کہی ہے۔ اسی بات کو اتنا عام کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے جہادی انکرز میڈیا کے ذریعے قوم کو اب مزید گمراہ نہ کر سکیں۔

اس اعتراف کے بعد ممبر اور سکولوں کے سلیبس کی طرف توجہ دینی ضروری ہے۔ تاکہ ادھر جو غلط کیا گیا تھا اس کو دوبارہ درست کیا جائے۔ ہم اپنے بچوں کو جھوٹ، نفرت اور انسانوں میں تفریق کا سبق دے رہے ہیں۔ اگر ہم اسے نہیں بدلیں گے تو کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ ہمارے بچے یہ سیکھ کے بڑے ہوں کہ سب انسان برابر ہیں۔ دنیا میں بہت سارے مذاہب ہیں اور ہر مذہب قابل احترام ہے۔ یہ تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے لیے اپنی مرضی کے مذہب پر کاربند رہیں۔

عورتیں بھی برابر کی انسان ہیں اور انہیں بھی اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کو ہے۔

مسلمان کے بھی اپنے اپنے فرقے ہیں اور سارے فرقے قابل احترام ہیں۔ کسی فرقے کو دوسرے فرقے پر فوقیت نہیں ہے۔ آپ صرف اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ یہ ساری تعلیم ہم صرف ان بچوں تک پہنچا سکتے ہیں جو سکولوں میں آتے ہیں۔ جب کہ ہمارے لاکھوں نہیں کروڑوں سکول جانے کی عمر کے بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ان کروڑوں بچوں کو سکولوں میں لانا ممکن ہی نہیں۔ مزید یہ کہ ہمارے سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد میں روزانہ کا اضافہ بھی ہزاروں میں ہے۔ اس لیے بچوں کی ٹھیک تعلیم اور تربیت کا تعلق فیملی پلاننگ کے ساتھ بہت گہرا ہے۔

فیملی پلاننگ کا رواج دینے کا مطلب ہے کہ لوگوں کو فیملی پلاننگ کی تربیت اور سہولت دونوں ہی بھرپور طریقے سے مہیا کریں تاکہ لوگوں کے ہاں بچے صرف اس وقت پیدا ہوں جب وہ چاہتے ہوں۔

اگر یہ سارے کام آج شروع کیے جائیں تو آج سے بیس سال بعد ہم ایک باعزت قوم ہوں گے۔ لوگ ہمارے نوجوانوں کو گمراہ نہیں کر پائیں گے۔ ہم اپنے فیصلے خود کریں گے اور امریکہ کی جنگوں کا ایندھن بننے کی بجائے ہم دنیا کے امن میں حصہ ڈال سکیں گے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik