رنجیت سنگھ کی واپسی اور پہلی پنجابی قومپرست پارثی کا قیام


گذشتہ دنوں دو اہم واقعات پنجاب کی سیاست اور تاریخ میں اہم تبدیلیوں کا سبب بنے ہیں۔ لاہور کے شاہی قلعے میں پنجاب کے نامور حکمران راجا رنجیت سنگھ کا مجسمہ آویزاں کیا گیا ہے، اور دوسری طرف پنجاب میں پہلی قرمپرست پارٹی ”پنجاب نیشنل پارٹی“ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ پنجاب جہاں پر صدیوں سے غیر پنجابی حکمران قابض رہے ہیں وہاں پنجاب کے باسی صرف مہاراجہ پورس اور راجہ رنجیت سنگھ کو اس دھرتی کا بیٹا اور حکمران مانتے ہیں۔

راجہ پورس کا سب سے بڑا کارنامہ اپنی دھرتی کے دفاع میں وقت کے سب سے طاقتور تریں اور کامیاب حکمران سکندر اعظم کے سامنے ڈٹ جانا، موت قبول کرنا مگر ہار نہ ماننا مانا جاتا ہے۔ جبکہ راجا رنجیت سنگھ نے کمال یہ کیا کہ پنجاب کو ان قبضہ گیر افغان حکمرانوں سے پنجاب کو پاک کرنا تھا جنہوں نے نسل درنسل پنجاب کو لوٹا اور یہاں ہر سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ کچھ تاریخدانوں کا کہنا ہے کہ راجا رنجیت سنگھ مسلس کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے اپنے سلطنت کو بڑہانا چاہا اور آسپاس کی دوسری ریاستوں پر بھی قابض ہونا شروع ہوگیا، سرائیکی وسیب کے لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں، یہ سرائیکی خطہ راجا رنجیت سنگھ کی دور میں پہلی بار پنجاب کے قبضے میں آگیا تھا، یہ حقیقت ہے کہ راجا رنجیت سنگھ اصل میں کابل سے کلکتہ اور دیوسائی سے دیبل تک پھیلانے کی کوششوں میں مگن تھا، مگر اس سے زندگی نے وفا نہ کی اور پیچھے بھی بہتر جانشیں نہ ہو نے کی وجھ سے ایسا نہ ہوسکا۔ شاہی قلعے میں راجا رنجیت سنگھ کے مجسمے کی موجودگی اس بات کی غماز ہے کہ راجا رنجیت سنگھ اس وقت بھی پنجاب کی دلوں میں کہیں نہ کہیں بستا ہے، اور پنجابی قومپرستی کا اصل استعارہ ہے۔

دوسری طرف پنجاب میں پہلی پنجابی قومپرست پارٹی ”پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان“ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کی خبر پنجاب کے کسی اخبار سے پہلے سندھ کی سندھی اخباروں میں چھاپی گئی ہے۔ پنجاب کے قومپرست حلقوں نے اس پارٹی کا اعلان کرتے ہی سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے قومپرست حلقوں سے اس مدد کی امید رکھی گئی ہے کہ وہ پنجاب قوم کا اصل صرف نمائندہ اس پارٹی کو سمجھیں گے۔

ویسے تو ساری دنیا میں قومیت کو ایک ہی تصور ہے، اس کا مطلب ہے جو تصور ہمارے پاس ہے وہ نہیں ہے۔ ہم سب سے جداگانہ اور وکھری ٹائپ کے لوگ ہیں۔ ہمارے دینی معاملات بھی دنیا کے باقی مسلمانوں سے مختلف ہیں تو سماجی معاملات بھی باقی سماجوں سے مختلف، ہماری جمہوریت بھی پوری دنیا کے ممالک سے منفرد ہے تو ہماری فوج بھی ساری دنیا کی فوجوں سی یکسر مختلف، ہمارے سیاستدان، افسران، استاد، مرشدین، ادیب، شاعر اور پہلوان بھی دوسرے ممالک کے ایسے کام کرنے والوں لوگوں سے مختلف ہیں۔ ہم پون صدی سے ایک ہی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ہم باقی دنیا مختلف نظر آئیں۔ اسی چکر میں ہم اپنے اصل رنگ، مزاج، آواز اور جذبات کو دبائے ہوئے تھے۔ جو سرکار اعلیٰ حکم کرتے تھے وہ ہی بن جاتے تھے۔ بندہ آخر بندہ ہے تھک جاتا ہے، دماغ آخر دماغ سوچنے تو لگ جاتا ہے۔

پورے ملک کے دیگر صوبوں میں پنجاب کے حوالے سے ”قبضہ گیر، شاؤنسٹ، بے وفا، حقوق غضب کرنے والا، چور اور لاپرواہ پڑوسی کے طور پر خیالات اتنے پختہ ہیں کہ سننے والوں نے ایسی باتیں کئی بار قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سنی ہوں گی ں، جنہوں نے وہاں نہیں تو دیگر صوبائی اسمبلیوں اور جلسہ گاہوں میں ضرور سنی ہوں گی ں۔

ایسا کیوں ہے، آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا پنجاب واقعی اس فیڈریشن میں راج کرنے والا واحد صوبہ ہے؟ یہ سوال اگر کسی عام پنجابی سے کیا جائے تو وہ کوئی معقول جواب دینے کے بجائے الٹا سوالیہ نظروں سے دیکھتا رہے گا ”کیا واقعی ایسا ہے کیا؟ “ جس طرح صوبہ سندھ میں سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیاں واضع لکیر موجود ہے، ویسے پنجاب میں پنجابی اور اردو بولنے والوں کے درمیاں واضح لکیر نہیں۔ سندھ میں اردو بولنے والوں کو سندھی بولنے اور سکھانے کی کوشش کی گئی مگر وہ کامیاب ہونے نہیں دی گئی، اس طرف پنجاب میں پنجابیوں سے کہا گیا کہ آپ اردو کے آگے پنجابی کو سرینڈر کردو تو آپ کی اصل حب الوطنی میں نکھار اور ایمان میں اضافہ ہوگا تو انہوں نے دیر ہی نہیں کی، پنجابی کو پہلے گھر کے تہہ خانے میں قید کیا اور پھر زیادہ ثواب کمانے کی نیت سے گھر اور شہر بدر کردیا۔

ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں شاید ایک بھی پنجابی میڈیم اسکول نہیں ہے، جبکہ سندھ میں مستقل سیاسی عدم استحکام کے باوجود تمام سرکاری اسکولز میں سندھی میڈیم موجود ہونے کے ساتھ تمام نجی اسکولز میں سندھی لازمی پڑہایا جاتا ہے۔ کیا یہ سب کچھ سندھ سرکار یا مستقل حکومت میں رہنے والی سیاسی پا پ پ پ کا ایجنڈا ہے یا ان کو سندھی بولی اور ثقافت سے کوئی خاص شغف ہے، اس سلسلے میں اکثر اہم دانش لوگوں کا خیال ہے کہ ”ایسا بالکل نہیں ہے، پ پ پ کو سندھ کے قومی معاملات سے ذاتی طور پر نہ تو کوئی دلچسپی ہے نہ ہی سندھ ان کا پہلی ایجنڈا رہا ہے، پ پ پ اک سخت وفاقی پارٹی ہے، سندھ کے اکثر قومی معاملات پر پ پ پ کی سرد مہری ہمیشہ ثابت رہی ہے مگر ایک بالغ اور مضبوط سیاسی پارٹی ہونے کی وجھ سے وہ اپنے وفاقی اور صوبائی حقوق اور اختیارات کو جانتی بھی ہے اور اسی حاصل کرنے سے لے کر ان کو استعمال کرنے کا فن بھی جانتی ہے۔

دوسری طرف سندھ کے لوگوں میں سندھی قومپرستی ان کے خمیر کا حصہ ہے، سندھ میں تو پیر، مرشد، شاعر، ادیب، صحافی، سیاستدان، تاجر، عالم، ذاکر سے لے کر طالب علم تک وہ پہلے سندھی ہوگا باقی سب کچھ بعد میں یقیناً ان کو اس بات کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے، جو وہ مسکراتے چکا بھی دیتے ہیں۔ یہاں سندھی کا مطلب صرف س دھی اسپیکنگ نہیں ہر وہ شخص جو سندھ سے سچا ہو، عبدالستار ایدھی سے لے کر ادیب رضوی تک سب سندھ کے سماجی ہیروز سمجھے جاتے ہیں۔

پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان کے عہدیداروں میں چیئرمین چوہدری مطلوب وڑائچ، سینئر نائب چیرمین پروفیسر طارق جٹالہ، صدر احمد رضا وٹو، نائب صدر ڈاکٹر انصر جمیل، جنرل سیکرٹری میاں آصف علی کو چنا گیا ہے۔ پنجاب میں پہلی قومپرست پارٹی کے قیام پر سندھ کے اکثر حلقوں کی طرف سے خوش آمدید کیا گیا ہے، کیونکہ سندھ کا قومپرست حلقہ ہمیشہ سے سوچتا رہا ہے کہ پنجاب کی باگ ڈور جب تک اصل دھرتی دھنی پنجابیوں کے ہاتھ میں نہیں آئے گی پنجاب جاگ نہیں سکتا۔

پنجاب میں اس وقت یہ بات پروان چڑھ رہی ہے کہ پنجاب پر اصل حکمرانی تو پنجابیوں کی ہے ہی نہیں۔ وفاق سے پنجاب کے نام پر دوسرے صوبوں پر فیصلے تھوپنے سے لیکر، دوسرے صوبوں کو اعتماد میں لئے بغیر عالمی سطح کے فیصلے کرنے والے بھی اصل میں پنجابی نہیں۔ پاکستان کے پڑوسی ممالک کے ساتھ مراسم سے لیکر، اہم طاقتور ممالک کے ساتھ دوستی یا دشمنی پالنے تک کے فیصلے کون کرتا ہے، کیا کسی صوبے سے اس سلسلے میں مشورہ کیا جاتا ہے، دنیا بھر میں قائم سفارتخانوں میں کس صوبے کے کتنے لوگ سفیر یا ملازم ہیں اور ان کو کون تیار کرتا ہے، کس ملک سے دوستی رکھنی ہے کس سے نہیں یہ فیصلہ کون کرتا ہے، چھوٹے صوبے سمجھتے ہیں کہ یہ سب پنجاب کرتا ہے، اور جب یہ ہی سوال جب نوزائیدہ پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان کے وائیس چیئرمین طارق جٹالہ صاحب سے پوچھتے ہیں تو وہ  تین بار مسکراتے ہوئے کہتے ہیں ”یار تسی جاندے او تے ساڈا منہ کیوں کھلواندے او۔

” پروفیسر طارق جٹالہ نے سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد باقاعدھ سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور کہتے ہیں کہ“ ہم پنجابی سمیت سندھی، بلوچی اور پشتو کو ملک کی قومی زبانیں تسلیم کرتے ہیں، قوموں کو قومیت تسلیم کرنے سے ہی ملک کے آدھے مسائل ہوجاتے ہیں۔ ہم سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے قومپرست حلقوں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری اخلاقی مدد کریں گے، ہم ان کے ساتھ مل کر اپنی قومی شناخت، بولی اور ثقافت کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔

پارٹی کے صدر احمد رضا وٹو کا کہنا ہے کہ ”ہم جانتے ہیں کہ پنجابی بولی، ثقافت اور پنجابی قومیت کے نام پر بننے والی اس پارٹی کے لئے خود پنجاب کے اندر کام کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا، یہ دیگر قومپرست پارٹیوں کے مقابلے زیادہ مشکل ہوگا۔ اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں پاکستان کے استحکام اور صوبوں کے درمیاں زیادہ ہم آہنگی کے لئے یہ ضروری ہے کہ پنجاب بھی دیگر صوبوں کی طرح اپنی بولی، ثقافت اور خودمختاری کی بات کرے۔

اس سے ملک کی دوسری قومیتوں کے آواز کو بھی تقویت ملے گی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں پنجاب میں اب ایسا ممکن نہیں وہ غلط سوچتے ہیں، بہت جلد پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان میں پنجاب کی اہم شخصیات کی شرکت ہوگی، اور ہمیں امید ہے کہ اگلی الیکشن تک ہم اس پوزیشن میں ہوں گے کہ یہ پارٹی پنجاب، پنجابی اور پنجابیت کے نام پر الیکشن لڑ سکے۔ کیونکہ آج تک پنجاب میں ہمیشہ ذات برادری، مذہب مسلک اور وفاق کے نام پر الیکشن لڑے گئے ہیں مگر کبھی کسی پارٹی نے پنجاب کا نام نہیں لیا نہ ہی پنجابی بولی اور قومیت کی بات کی ہے۔ لاہور میں بہت جلد پنجاب نیشنل پارٹی کا مرکزی کنوینشن بلایا جائے گا جس میں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے قومپرست حلقون سمیت ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور دانشور حضرات کو دعوت دی جائے گی، اور اپنے منشور کو پیش کیا جائے گا۔

پنجاب میں بننے والی اس پہلی قومپرست پارٹی کو دیگر صوبوں کے معاملے میں مختلف نظر سے دیکھا جارہا ہے، سندھ کے کچھ دانشور حلقوں کا خیال ہے کہ پنجاب کے مزاج میں قومپرستی کا خمیر شامل نہیں اس لئے ممکن ہے کہ یہ سیاسی دھول آئندہ الیکشن سے پہلے ہی بیٹھ جائے۔ جبکہ سندھ کے قومپرست حلقوں نے اس عمل کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہ ہے کہ ”اگر پنجاب اس بات کو سمجھ لے کہ پنجابی بولی اور پنجابی ثقافت ہی اس کی ازلی پہچان ہے تو بہت سارے دو۔

طرفہ معاملات اور مسائل آسانی سے حل ہوجاتے ہیں۔ سندھی اخبار کوشش نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ”پاکستان میں عام طور پر یہ سمجھا جارہا تھا کہ اب پاکستان میں قومپرست سیاست کا وجود ختم ہو رہا ہے، مگر اس وقت میں پنجاب میں ایک قومپرست پارٹی کا قیام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ملک میں قومپرستی کا دور ابھی ختم نہیں ہوا، اور سینیئر سیاسی کارکن یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب نیشنل پارٹی اصل میں سندھ کی ہی قومپرست سیاست سے متاثر ہوکر بنائی گئی پارٹی ہے۔ یاد رہے کہ سندھ میں قومپرست پارٹیاں مسلسل زیر عتاب رہنے اور قومی و صوبائی الیکشن میں حصہ نہ لینے کے باوجود عوامی طور پر اتنا اثر رکھتے ہیں کہ سندھ کے قومی معاملات پر پ پ پ، مسلم لیگ، پی ٹی آئی اور جے یو آئی جیسی بڑی وفاقی پارٹیوں سے صوبائی اور وفاقی سطح پر اپنے مطالبات منوا کر رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).