زین العابدین، بنگال کا قحط اور امرتیا سین


Amartya Sen

حالیہ انسانی تاریخ کے بڑے بڑے قحط کہاں نمودار ہوئے؟ 1845 سے 1849 تک آئرلینڈ کا قحط ایک عظیم افتاد تھی۔ جانی زیاں کا اندازہ سے سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئرلینڈ کی 25 فیصد آبادی صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ آئرلینڈ کی اجتماعی نفسیات پر اس قحط کے اثرات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہندوستان پر تاج برطانیہ کی باقاعدہ حکومت 1860 میں قائم ہوئی۔ صرف 15 برس کے اندر جنوبی ہندوستان میں زبردست قحط پڑا جسے مدراس قحط کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 55 لاکھ افراد بھوک کے ہاتھوں مارے گئے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ ہندوستان سے عمدہ کوالٹی کی زرعی مصنوعات دساور کی منڈیوں میں فروخت کی جا رہی تھیں اس لئے گنگا جمنا کے دوآبے میں قحط پھیل گیا۔

انقلاب روس کے بعد سوویت یونین میں پے در پے قحط نمودار ہوئے۔ 1917 سے 1937 تک سوویت یونین کی آبادی میں شرح نمو صفر رہی۔ جانی زیاں کے اعداد و شمار اس لئے عرض نہیں کر رہا کہ کوئٹہ میں میرے قابل صد احترام استاد آغا سرور کاکڑ کے اشتراکی دوست برافروختہ ہوتے ہیں۔ (پاکستان میں کس پائے کا سیاسی شعور ہم نے پروان چڑھایا کہ سعودی ملوکیت کا ذکر کرو تو ایک وضع کے لشکری کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ ایران میں استبداد کا نام لو اور ایک دوسری وضع قطع کا قبیلہ سیخ پا ہوتا ہے۔ سوویت اسطور کی حقیقت بیان کی جائے تو مساوات انسانی کے نام پر اشتراکی عصبیت کے علمبردار کف در دہان ہوتے ہیں۔ سنکیانگ کا نام لو تو سرکار دربار کو سی پیک یاد آ جاتا ہے۔ کیا کیجئے، ہمیں تو ہے مشکل سبھی طرح۔) 1958 میں چین نے چیئرمیں ماؤ کی قیادت میں عظیم جست لگائی تو 1962 کا قحط سامنے آیا۔ (مرنے والوں کی تعداد بتانا بوجوہ مناسب نہیں)۔ 1992 میں سوویت یونین منہدم ہوا تو شمالی کوریا میں قحط پھیل گیا۔ حکومت نے اس کا بندوبست یوں کیا کہ تحریر و تقریر میں بھوک اور قحط کا لفظ استعمال کرنے پر پابندی لگا دی۔

انسانی شعور کو یہ معمولی بات جاننے کے لئے بیسویں صدی کے آخری برسوں میں امرتیا سین کی تحقیق کا انتطار کرنا پڑا۔ جس نے قحط اور سیاسی بندوبست میں تعلق دریافت کیا۔ امرتیا سین نے بتایا کہ قحط کے اصل اسباب خوراک کی قلت نہیں بلکہ خوراک کی تقسیم میں ناانصافی، جمہوری آزادیوں کا فقدان اور ریاستی جواب دہی کا فقدان ہوتے ہیں۔ 1843 میں دوسری جنگ عظیم برما تک پہنچی تو برطانوی حکومت کی پالیسیوں کے باعث بنگال میں قحط پھیل گیا،۔ خوراک کے گوداموں میں چاول بھرے تھے لیکن انسانیت سڑکوں پر بھوکی مر رہی تھی۔ دس سالہ امرتیا سین نے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ ٹھیک جس طرح زین العابدین نے قحط بنگال کی تصویر کشی کی تھی، امرتیا سین نے قحط بنگال سے متاثر ہو کر نسل انسانی کے لئے قحط کا عقدہ کھول دیا۔ آج کچھ ذکر زین العابدین کا رہے۔ واضح رہے کہ 1971 میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو زین العابدین ڈھاکہ سکول آف آرٹ کے سربراہ تھے۔

قحط بنگال کا المیہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ حکومتی غفلت، قدرتی آفت اور انسانی بے حسی کا شکار ہونے والے چالیس لاکھ افراد مٹی کا حصہ بن چکے ہیں مگر زین العابدین کا فن زندہ ہے۔ اس کی لکیریں بولتی ہیں۔ زین العابدین بنگالی مصوری میں حقیقت پسند سکول کا بانی ہے۔ 1918ء میں بنگال کے ضلع میمن سنگھ میں کشور گنج کے مقام پر پیدا ہوا۔ رابندر ناتھ ٹیگور اور جیوتی رائے جیسے اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔ ٹیگور اور اس کے مکتبہ فکر کے دیگر فنکار مثلاً مکل دیو اور اٹل بوس زندگی کی حقیقتوں پر رومانویت اور روحانیت کا ایسا رنگ روغن تھوپتے تھے کہ مصوری زمیں کے درشت حقائق سے اٹھ کر مثالیت کے بادلوں میں تیرنے لگتی تھی۔ زین العابدین نے اس روایت سے انحراف کیا۔

بنگال میں چاول کے قحط نے اس کے دل میں ایسی آگ لگائی کہ وہ راتوں رات انسانی دکھ اور محرومی کا عکاس بن گیا۔ کالے بھجنگ مرد و زن کے استخوانی ڈھانچے بنگال میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے تھے۔ زین العابدین نے لکیر کے اختصار اور رنگوں میں کفایت کے باوصف ان خاکوں میں ایسی جذباتی شدت بھر دی کہ ہندوستانی مصوری کو ایک نئی زندگی آمیز جہت ملی۔ زین العابدین نے ان خاکوں میں باریک بین تفصیل کی بجائے بظاہر عجلت میں کھینچے گئے واضح نقوش کا ایسا ہنر استعمال کیا ہے کہ ہر تصویر انسانی اذیت پر زوردار احتجاجی نعرہ معلوم ہوتی ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ یہ تصویر بنانے والا نہ جمال پسند ہے نہ دانش ور ہے۔ بس آپ ہم جیسا ایک انسان ہے جس نے اپنے مشاہدات کو فن کی جھالر لگائے بغیر جیسا دیکھا، آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیا۔

زین العابدین تقسیم کے بعد ڈھاکہ چلے آئے تھے جہاں وہ کئی برس تک مصوری کی تعلیم دیتے رہے۔ اپنے فن پر بات کرتے ہوئے انھوں نے خود بھی اسے “تخلیق” کی بجائے “اظہار” قرار دیا تھا۔ زین العابدین ان خاکوں کی مدد سے یہ بتانا چاہتے تھے کہ بھوک اور پیاس بہت بڑی انسانی حقیقتیں ہیں۔ فلسفہ، مذہب اور سیاست کی پر پیچ وادیوں میں انسان جہاں تک چاہیں جائیں مگر کسی کے حلق میں پیاس کا کانٹا نہیں چبھنا چاہیے۔ کسی پیٹ میں بھوک سے جلن نہیں ہونی چاہیے۔ اپنے جیسے انسانوں کو بھوک اور پیاس کے دوزخ میں دھکیلنے والے معاشرے انسانیت کے درجے سے گر جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2