شاہ سائیں پر حملہ کرنے والی کی گرفتاری


کیا یہ محض اتفاق ہے کہ بیسویں صدی میں سندھ کے عظیم انقلابی بیٹے غریبوں، مزدوروں، ہاریوں اور عورتوں کے سیاسی حقوق کی جدوجہد کے شانہ بشانہ ثقافتی، تمدنی اور ادبی محاز پر بھی ایک جیسے توانائی کے ساتھ سرگرم رہے۔ ابراہیم جوئیو، حیدر بخش جتوئی، سوبھو گیان چندانی، فاضل راہو اور رسول بخش پلیجو سمیت جگمگاتے چراغوں کی ایک کہکشاں ہے جس نے ہمارے عہد میں سندھ کی دھرتی کو حقوق اور انصاف کے لئے ان تھک جدوجہد کے استعارے میں بدل ڈالا۔  اسے تاریخ کے قرض کی یاد دہانی سمجھنا چاہیے کہ جام ساقی نے 5 مارچ 2018 کو آنکھیں بند کیں اور ٹھیک ایک ماہ بعد 8 اپریل 2018 کو لاڑکانہ میں ایک بدمست وڈیرے نے ایک 24 سالہ حاملہ ڈانسنگ خاتون ثمینہ سموں کو گانے کی محفل میں سرعام گولیوں سے بھون ڈالا۔ یہ واقعہ ایک دستک تھا کہ سندھ سمیت پاکستان کے ہر حصے میں تکریم انسانی کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ جام ساقی نے یہ افسانہ بہت برس پہلے لکھا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی دھرتی پر ناانصافی کی مختلف شکلوں کی کتنی گہری سمجھ تھی۔

اس افسانے کو فاروق سولنگی نے سندھی سے اردو میں ترجمہ کیا۔

***    ***

روشنی میں جھلملاتا شہر، چاروں طرف آوازیں۔ ہنگامہ، سرکس تھیٹر، ریکارڈنگ، نمائشیں، ثقافتی شو، لوگوں کے دھکے، ناک منہ مٹی کے درّے۔ جھونپڑیوں میں گھنگھروؤں اور طبلوں کی آوازیں، عورتیں، بچوں اور مردوں کے سر۔ کنڈوں کی چقوں میں جھانکتے ہوئے تماش بینوں کے ہجوم، ہوٹلوں میں ہیجڑوں کے ڈانس۔ پگڑیوں کے ہجوم اور کہیں پر سندھی کڑھائی کی ٹوپیاں۔ آج آخری دھمال تھی۔ ہر کوئی آج تھکا تھکاسا، چار دن سے کام ہی کام۔ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے، جیون گزارنے کے لئے اور رشتوں کی طرح جینے کے لئے کام ہی کام۔ صدیوں سے یہ عمل جاری ہے۔

آنکھوں میں درد، کمر میں درد، گلا خراب، جسموں میں دردرت جگے، جمائیاں، دیمک کھائے ہوئے وجود، بچا بند سے نیچے مزار کے پیچھے قبرستان میں گانے اور ناچنے والوں کے ٹولے۔ آس پاس میں ناچنے والے لڑکوں کی چیخ و پکار۔ وہاں پر۔ ہی مریم بھی اپنی محفل جمائے کھڑی تھی۔ پاؤں مٹی میں خشک، ناخن پالش دھندلی، ٹخنوں سے اوپر شلوار، پاؤں میں گھنگھرو۔ کمر میں دوپٹا بندھا ہوا۔ گلابی رنگ کا سوٹ، ننگا، بالوں میں تیل لگا ہوا۔ دو چوٹیوں میں سے بال بکھرے ہوئے۔ کانوں میں سندھی بندے۔ رنگ سانولا، باجے پر اس کا شوہر غلاموں، طبلے پر واحدو۔ ایک پرانی قبر کے اوپر جلتا ہوا گولا۔ باجے کے پاس تہ کی ہوئی چادر پر ایک بچہ سو رہا تھا۔

مریم جیسے روپے رکھنے کے بہانے باجے کے پاس آئی تو آہستہ سے غلاموں سے کہا ”اب بس کر مردود! “

 ”نہیں، نہیں، کچھ دیر تو چلنے دو“ غلاموں نے کہا۔

 ”اب تو گرنے پر ہوں“ مریم نے کہا۔

 ”اب ایک دفعہ ہی آرام کرنا۔ “

 ”میری تو خیر ہے، مگر ارشو۔ “ ہاتھ اوپر کرکے انترا شروع کیا، گلے کی ساری رگیں ہری ہو کر تن گئیں۔ مگر پھر بھی بوجھل بوجھل، مایوسی میں ڈوبا ہوا سارا جسم۔ اس کا سارا دھیان بچے میں تھا۔ گانے کے دوران میں باربار اس کا منہ اس طرف چلا جاتا۔ کبھی کبھی کافی کا مصرع بھول جاتی تو غلاموں سہارا دیتا۔ تماش بین ایکد وسرے کے گال پر نوٹ رکھ کر دے رہے تھے۔ پتا نہیں کیوں آج مریم کو بہت غصہ آ رہا تھا۔ حالانکہ مریم کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔

 آج اسے ہر آدمی ایک گدھ لگ رہا تھا اور اپنا وجود اَدھ کھائی لاش۔ دل چاہ رہا تھا کہ جو لوگ اسے پیسے دے رہے ہیں، وہ ان کے منہ پر تھوک دے اور خود بھاگ جائے۔ مگر اندر ہی اندر وہ سوچتی رہی اور خون کے گھونٹ پیتی رہی۔ آخر کافی مکمل کرکے وہ بیٹھ گئی۔ غلاموں پیسوں کی گنتی میں لگ گیا۔ لوگ آہستہ آہستہ دوسرے ٹولوں کی طرف چل دے ے۔ مریم اپنے بیٹے کو گود میں لے کر دیوار کی طرف منہ کرکے دودھ دینے لگی ”غلاموں، ارشو کا منہ بہت گرم لگ رہا ہے۔ بہت بخار ہو گیا ہے۔ “

 ”ہاں۔ بس دُعا کرو۔ آج کی راتیں کما لیں، پھر صبح ہی دوائی لے لیں گے۔

 ”تو، تو ہے صرف کمائی اور دلالی کے پیچھے۔ دیکھ تو سہی میرے ارشو کی حالت کیا ہو گئی ہے؟ میں تو میلے میں آ ہی نہیں رہی تھی۔ مگر تم کہاں چھوڑنے والے ہو۔ مار پڑے خدا کی، بہت لالچی ہو۔ “

 ”اور بھلا کیا کریں؟ تم خود دیکھ رہی ہو کہ آج کل کتنی مہنگائی ہے۔ شادی مرادی بھی نہیں ہو رہی۔ شہر کے گلوکاروں نے تو مار ڈالا ہے۔ دیکھ رہی ہو نا، آہستہ آہستہ کرکے سب زیورات بھی بیچ ڈالے ہیں۔ “

 ”میں بھی اب لے دے کر کھڑی ہوں، ایک گلا کام نہیں کر رہا۔ دوسرا جسم میں ہمیشہ کا درد۔ اب زیادہ کام نہیں ہو رہا۔ “

 ”ہاں، تم سارا دن لکڑیاں کاٹتی رہو۔ “

مریم اچانک بے خودی کے عالم میں ارشو کو چومنے لگی۔ پتا نہیں کس جذبے کا بند ٹوٹ پڑا۔ مگر ارشو غش میں پڑا تھا۔ چند ہی گھڑیوں میں آنسو گالوں پرسے ہوتے ہوئے نیچے گرنے لگے۔ ٹھنڈی سانس لے کے آنکھیں زور سے بھینچ ڈالیں۔ ”مار پڑے تم پر، کہہ رہی ہوں کہ دو تین ایکڑ زمین آباد کرکے اپنا گھر بسالیں ورنہ ساری عمر حرام کی کمائی کھاکے ختم ہو جائے گی۔ اب گاؤں کس منہ سے جائیں۔ کالا منہ جو کیا ہے وہی کالا منہ لے کر جائیں گے۔ رشتے داروں نے بھی چھوٹے ہوتے ہی ایک۔ لوسی ناچو کے حوالے کر دیا“ مریم آہستہ سے ہونٹوں میں بڑبڑائی۔ گلاسوں میں ابھی چائے پی ہی رہی تھی کہ تماشبین کا ایک ٹولا آدھمکا۔

 ”بھئی شروع کرو، کوئی محفل و محفل سائیں بابا! “

 ”ابھی تمہارے سامنے ہی تو بند کیا ہے۔ مولا خیر کرے۔ “ غلاموں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔

 ”ارے کنجر کی اولاد۔ پھر نخرا؟ “ سائیں بھورل شاہ نے کہا۔

 ”تمہاری اتنی ہمت کہ سائیں کو جواب دیتے ہو“ ان میں سے ایک نے کہا۔ مریم پہلو بدل کر بے بسی کی دلدل میں پھنسی شیرنی کی طرح سب کو کراہیت سے دیکھنے لگی۔ ایک چھوٹے سے قد کا کالا جسم میں بھرا۔ سارے جسم پر کالے موٹے سخت بال، کالی موٹی کلائیاں جس میں کالا دھاگا بندھا ہوا۔ کلائی میں سنہرے پٹے والی گھڑی، ہونٹ موٹے اور نیچے لٹکتے ہوئے۔ فمیض کا گلا کھلا ہوا۔ آنکھیں لال۔ نشے میں چور۔ یہ تھا بھورل شاہ، دوسرا تھا لمبی گردن میں سونے کی زنجیر، بوسکی کی قیمض۔

 آستین آدھی موڑی ہوئی، تین انگلیوں میں تولے تولے کی انگوٹھیاں۔ پاؤں میں زرّی کے سینڈل۔ ہاتھ پاؤں پر مہندی۔ باریک مونچھیں، بال پیچھے کی طرف لٹکتے ہوئے۔ قلمیں بڑھی ہوئی۔ یہ تھا سائیں جبل شاہ۔ تیسرا دبلا پتلا سا ہاتھوں کی رگیں نکلی ہوئی۔ سیدھے ہاتھ پر لال بڑا سا داغ۔ ٹیڑان کا سوٹ، مونچھیں بڑی بڑی، گالوں پر گڑھے۔ یہ تھا وڈیرا ہینڈل، چوتھا قرانکی ٹوپی، بوسکی کی قیمیض ہاتھ میں گولڈ لیف۔ ناخنوں پر مہندی۔

 سفید رنگ کے جوتے۔ یہ تھا پیٹی والا۔ اور دوسرے دو تین ان کے خاص آدمی بھی تھے۔ کاندھوں پر انگھوچھے اور سر پر پرانی شکار پوری ٹوپیاں اور ان میں ایک دوسرا بھی تھا۔ جمعدار، جمعدار جس نے بہت زیادہ بھنگ پی ہوئی تھی۔ لڑکھڑاتا ہوا کہنے لگا ”ارے سائیں کا آج پتا نہیں کیسے موڈ ہو گیا راگ سننے کا۔ اور تو سائیں کو جواب دے رہا ہے۔ پتا ہے کس سے بات کر رہے ہو؟ سارے میلے کا مالک ہے۔ بہت کھائے پئے ہوئے ہیں۔ “

 ”سائیں کے تو ہم غلام ہیں۔ مگر بہت دیر ہو گئی ہے۔ اور وہ بھی بہت تھک گئی ہے۔ “ غلاموں نے بڑی بیزاری سے منتیں کرکے مریم کی طرف اشارہ کرکے کہا۔

 ”ارے اٹھ بندریا، گھور کیا رہی ہے۔ دو تین بول سنا۔ مرشد کو نخرے دکھا رہی ہو“ سائیں جبل شاہ نے مریم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

 ”چل اُٹھ، دو تین بول سنا سائیں والوں کو۔ “ غلاموں نے مریم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مریم کی گود ارشو کے گرم جسم کی وجہ سے اور بھی گرم ہو گئی تھی۔ ارشو غشی کی وجہ سے کبھی کبھی دودکھ کی چسکی لے لیتا ورنہ دبکا پڑا رہتا۔ ارشو کا ہاتھ ماں کے کرتے کے گلے کو زور پکڑے ہوا تھا۔ مریم نے خون کا گھونٹ بھرا اور آنسو اندرہی اندر پیتی ہوئی آہستہ آہستہ کرکے چھوٹے ارشو کو چھاتی سے نوچنے کی کوشش کی۔ ارشو اچانک چیخ کر اٹھا اور دونوں ہاتھوں سے مجبور ماں کی قمیض کو پکڑ لیا، انسانی دل ہوتا تو ضرور کانپتا مگر یہاں تو کسی کے دل میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔

 یہ حالت دیکھ کر غلاموں نے ارشو کو مریم سے کھینچ کر الگ کیا اور نیچے بچھے ہوئے کپڑے پر سلادیا۔ ارشو ایڑیاں رگڑنے لگا۔ غلاموں آہستہ آہستہ بچے کو سہلانے لگا۔ کچھ دیر کے بعد لڑکے پر دوبارہ غشی طاری ہو گئی۔ مریم نے پاؤں کے پنجے زمین پر زور سے مارے مگر کوئی بھی چشمہ نہیں پھوٹا۔ البتہ گھنگھروؤں کی چھم چھم فضا میں بھی بکھر گئی۔ جبل شاہ نے کہا ”دلبر! کچھ اماموں کی تعریف سناؤ۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2