اصلی بمقابلہ انگلش میڈیم مولا جٹ


 

اس ملک میں دو قسم کے لوگ رہتے ہیں، ایک وہ ہیں جن کے لیے انگریزی کا لفظ entitled استعمال ہوتا ہے، entitled کا لفظی مطلب حقدار یا مستحق ہے مگر ان لفظوں سے یتیمی جھلکتی ہے جبکہ entitled وہ شخص ہوتا ہے جو پیدائشی طور خود کو خصوصی سلوک کا مستحق سمجھے، ایسا شخص چاہتا ہے کہ اس کی چنیدہ باتوں، چیزوں یا شخصیات کو دوسروں کی پسند پر فوقیت دی جائے اور ہر معاملے میں اس کی رائے کو ہمیشہ صائب سمجھا جائے۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہیں ہم افتادگان خاک کہہ سکتے ہیں، انگریزی میں بولے تو Children of a lesser god یعنی معاشرے کا وہ یتیم مسکین طبقہ جس کی پسند نا پسند کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ان کے رہن سہن اور بود و باش کو پست اور گھٹیا سمجھا جاتا ہے اور ان کے زندگی گزارنے کے طریقے کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ ان دونوں طبقات میں وہی فرق ہے جو سات لاکھ میں بنائی گئی سلطان راہی کی ’مولا جٹ‘ اور پچاس کروڑ میں بنائی گئی فواد خان کی ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ میں ہے۔

کچھ فلمیں ایسی ہوتی ہیں جو اچھی ہوں یا بری، ہٹ ہوجائیں یا پٹ جائیں، انہیں دیکھنا فرض ہوتا ہے۔ دی لیجنڈ آف مولا جٹ بھی ایسی ہی فلم ہے۔ اس فلم کی جس پڑے پیمانے پر تشہیر ہوئی اور جس طرح پاکستان اور ہندوستان کے فلم سازوں نے یہ فلم دیکھنے سے پہلے ہی اس کی تعریف کی تو اسے دیکھنا فرض ہو گیا، ویسے بھی یہ میری پسندیدہ فلم مولا جٹ کا ’ری میک‘ ہے، اپنے تئیں سو بہترین فلموں کی جو فہرست میں نے بنا کر رکھی ہے اس میں مولا جٹ کا تئیسواں نمبر ہے جبکہ پاکستانی فلموں میں اسے میں نے سب سے اوپر رکھا ہے۔

میں لاہور کے جس سنیما گھر میں دی لیجنڈ آف مولا جٹ دیکھنے گیا وہاں لوگ اپنے قد کے برابر پاپ کارن کا ڈبہ خرید کر فلم دیکھتے ہیں اور واپسی پر سنیما ہال کا وہ حال کر کے جاتے ہیں کہ تین بندے مل کر اس کی صفائی کریں تو اگلا تماشا ( شو ) شروع ہوتا ہے، یہ وہی لوگ ہیں جنہیں اس ملک میں خونی انقلاب کی خواہش ہے، جو اصولاً تو انہی کے خلاف آنا چاہیے، مگر قومی ترانہ بجنے پر انہیں کھڑے ہونے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ بات کہیں اور نکل جائے گی، فلم پہ واپس آتے ہیں۔

پہلے دی لیجنڈ آف مولا جٹ کو وہ داد دی جائے جس کی یہ فلم مستحق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس فلم نے تاریخ رقم کی ہے، یہ پاکستان کی اب تک کی سب سے کامیاب فلم ہے، لوگ دوبارہ سینما گھروں کی طرف راغب ہوئے ہیں، اس سے ہماری مردہ انڈسٹری کو نئی زندگی ملے گی، بلال لاشاری ایک بے حد تخلیقی ہدایتکار کے روپ میں سامنے آئے ہیں، اپنے والد کامران لاشاری کی طرح ان میں بھی قابلیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور یہ قابلیت فلم میں جا بجا نظر بھی آتی ہے، فلم کی پروڈکشن کسی بھی حوالے سے بین الاقوامی معیار سے کم نہیں، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ فلم پاکستان جیسے ملک میں بنائی گئی ہے جہاں سال میں درجن بھر فلمیں بنتی ہیں اور وہ بھی چند کروڑ میں، فلم میں پنجاب کی منظر کشی بھی خوب کی گئی ہے، اداکاروں کے ملبوسات، سیٹ ڈیزائن اور لڑائی بھڑائی کے مناظر فلم کی جان ہیں، میں نے سنا ہے کہ اس کے لیے خاص طور سے تھائی لینڈ سے جنگجوؤں کو لایا گیا تھا جنہیں لڑائی کے مناظر استعمال کیا گیا۔ تعریف یہاں ختم ہوئی۔

دی لیجنڈ آف مولا جٹ دیکھتے وقت پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ یہ فلم اندھیرے میں بنائی گئی ہے، دن کی روشنی والے مناظر بہت کم ہیں اور اگر ہیں بھی تو انہیں ان ڈور میں ایسے فلمایا گیا ہے کہ شام کا گمان ہوتا ہے۔ فلم میں بظاہر تو پنجاب دکھایا گیا ہے مگر زمانہ متعین نہیں، کچھ پتا نہیں چلتا کہ یہ انگریزوں کے زمانے کا پنجاب ہے یا رنجیت سنگھ کا۔ فلم میں ایک کولوسیم بھی بنایا گیا ہے جس میں گلیڈی ایٹر کی طرز پر جنگجوؤں کے مقابلے دکھائے گئے ہیں، ایسا پنجاب میں کب ہوتا تھا، میں تو نہیں جانتا، کسی کے علم میں ہو تو ضرور بتائے۔

فلم کا مرکزی کردار مولا جٹ فواد خان نے نبھایا ہے جبکہ نوری نتھ کا کردار حمزہ علی عباسی نے، فواد خان کے مقابلے میں حمزہ علی عباسی کی اداکاری اور پنجابی کہیں بہتر ہے، فواد خان فلم کے پہلے ایک گھنٹے تک تو گونگا ہی بنا رہا، انٹرول کے بعد کہیں جا کر اس کے مکالمے شروع ہوئے مگر بالکل بے جان، مولا جٹ کے کردار سے بھی انصاف نہیں کیا گیا، کہیں وہ ایک خون خوار جنگجو کے روپ میں نظر آیا تو کہیں وہ یک دم مخولیا بن گیا، فواد خان نے کوشش تو بہت کی کہ پنجابی ٹھیک بولے مگر بات نہیں بنی۔

ماہرہ خان کی پنجابی تو ایسی تھی جیسی بھارتی فلموں میں غیر پنجابی اداکاروں سے بلوائی جاتی ہے، اس بات کی منطق سمجھ نہیں آئی کہ مکھو جٹنی جیسے ٹھیٹھ پنجابی کردار کے لیے پنجابی اداکار کیوں نہیں چنے گئے۔ لیکن پنجابی اداکاروں کی بھی سن لیں، مولے کے دوست مودے کا کردار فارس شفیع اور نوری کے بھائی ماکھے کا کردار گوہر رشید نے نبھایا، دونوں کی پیدائش لاہور کی ہے، فارس تو صبا حمید کا بیٹا ہے جبکہ گوہر غلام احمد پرویز صاحب کا نواسہ، اس کے باوجود دونوں نے جس طرح پنجابی بولی اسے دیکھ کر یوں لگا جیسے انہوں نے عمداً ایسا کیا ہے یا پھر انہیں بھی پنجابی نہیں آتی۔

گوہر رشید کی اداکاری ویسے خوب تھی۔ حمائمہ ملک کے حصے میں نوری نتھ کی بہن دارو نتھنی کا کردار آیا مگر نتھنی صاحبہ نے لباس ایسا پہنا جیسے وہ پنجاب میں نہیں بلکہ پیرس فیشن ویک میں کیٹ واک کر رہی ہوں، پنجابی ان کی بھی ایسی ہی تھی جیسے برگر بچے با امر مجبوری بولتے ہیں۔ فلم کی کہانی میں بھی کافی جھول ہیں، مولا جٹ کے ماں باپ کو بچپن میں نتھ خاندان کے لوگ قتل کر دیتے ہیں، اس صدمے سے اس کی قوت گویائی متاثر ہوجاتی ہے، جوان ہو کر جب اسے پتا چلتا ہے کہ قاتل کون تھے تو وہ نتھ خاندان کے کچھ بندوں کو قتل کر دیتا ہے، اس قتل سے گاؤں والے مولے کے خلاف ہو جاتے ہیں اور وہ مجبور ہو کر دارو نتھنی سے معافی مانگنے پہنچ جاتا ہے۔

یعنی ایک طرف تو نتھوں نے گاؤں والوں کا جینا حرام کیا ہوا تھا، اگر مولا ان کے لیے ڈھال بن رہا تھا تو انہیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا مگر الٹا وہ اسی کے خلاف ہو گئے، اور وہ مولا جٹ جو تمام عمر اپنے ماں باپ کے قاتل تلاش کرتا رہا اچانک ان قاتلوں کے گھر معافی مانگنے پہنچ گیا، چہ خوب! اس کے علاوہ بھی فلم میں کچھ خواہ مخواہ کے قتل ہیں، جیسے نوری نتھ کا اپنے باپ کو قتل کرنا، ایک محفل میں دارو کا اپنے باپ کے سامنے ایک سردار کے بیٹے کا سر کاٹ دینا جبکہ اسی دارو کو اس کے باپ نے بچپن میں زندہ درگور کرنے کی کوشش کی تھی اور نوری نتھ نے بچا لیا تھا۔

نئی مولا جٹ دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے حمزہ عباسی کے علاوہ کسی نے اصلی مولا جٹ نہیں دیکھی، حمزہ عباسی کی اداکاری پوری فلم میں سب پر بھاری نظر آئی، اس کے حصے میں پرانی فلم کے کچھ مکالمے بھی آئے جس کا اسے فائدہ پہنچا اور اس کا گیٹ اپ بھی کچھ ایسا تھا کہ راسپوٹین کا گمان ہوتا تھا، ان تمام باتوں نے مل کر اس کے کردار میں جان ڈال دی۔

کسی بھی فلم کی کامیابی کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ اس نے کتنے پیسے کمائے، اس پیمانے پر نئی اور پرانی دونوں مولا جٹ پورا اترتی ہیں، فلم کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اسے دوبارہ کتنی مرتبہ دیکھا جا سکتا ہے، اس پیمانے پر صرف اصلی مولا جٹ پورا اترتی ہے، اس کے مکالمے اس قدر شاندار تھے کہ خود ناصر ادیب سے بھی دوبارہ ایسے مکالمے نہیں لکھے گئے۔ نئی مولا جٹ کے اختتام پر نوری نتھ بغیر کچھ کہے سنے یک دم ہی مر جاتا ہے، جبکہ اصلی مولا جٹ میں جب مولا، نوری کو اس کی بہن کے صدقے معاف کر دیتا ہے، تو نوری نتھ خود اپنی ٹانگ کاٹ کر مولے کے حوالے کر دیتا ہے اور کہتا ہے : ’اوئے بخشش وچ تے مینوں جنت وی ملے تے نہ لواں اے تے لت اے، اے لت اپنا انصاف سمجھ کے لے جا، تے میں اینوں تیری بہادری دا انعام سمجھ کے بھل جاواں گا۔

(اپنی بہن سے ) مینوں اودوں تک اپنا ویر نہ آکھیں جدوں تک نتاں وچ کوئی مولا نہیں جمدا، جا اوئے جٹا جگر دا ٹکڑا وی لے جا تے جسم دا ٹوٹا وی۔ ‘ اس قسم کا ایک بھی مکالمہ دی لیجنڈ میں نہیں، ایسے میں یہ فلم صرف اس لیے کامیاب ہوئی کہ یہ ان لوگوں کی پسند تھی جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف انہی کی پسند اس ملک پر مسلط کی جانی چاہیے، افتادگان خاک جائیں جہنم میں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments