سندھ میں راجہ داہر کا مجسمہ نصب کرنے پر آپ کو غصہ تو نہیں آئے گا؟


راجہ داہر

رنجیت سنگھ کے مجسمے کی تنصیب کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پنجاب کو مبارک باد پیش کی جا رہی ہے کہ اس نے اپنے حقیقی ہیرو کی تعظیم اور احترام کیا ہے

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پنجاب کے پہلے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کی تنصیب اور انھیں ’شیرِ پنجاب‘ قرار دینے کے بعد صوبہ سندھ میں راجہ داہر کو بھی سرکاری طور پر ہیرو قرار دینے کے مطالبے نے شدت اختیار کر لی ہے۔

رنجیت سنگھ کے مجسمے کی تنصیب کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پنجاب کو مبارک باد پیش کی جا رہی ہے کہ اس نے اپنے حقیقی ہیرو کی تعظیم اور احترام کیا ہے۔

راجہ داہر سندھ کے ہیرو

کوئٹہ کے صحافی جاوید لانگاہ نے فیس بک پر لکھا ہے کہ آخر کار راجا رنجیت سنگھ بادشاہی مسجد کے جنوب مشرق میں واقع اپنی سمادی سے نکل کر شاھی قلعہ کے سامنے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی سابقہ سلطنت اور راجداہانی میں پھر سے نمودار ہو گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور مذہبی مساوات کا نمونہ‘

’یہ قلعہ مسلمان اور سکھ دونوں کا ورثہ ہے‘

نئے پاکستان کی پرانی ہندو لڑکیاں

انھوں نے مزید لکھا کہ پنجاب دہائیوں تک اپنی حقیقی تاریخ کو جھٹلاتا رہا ہے اور ایک ایسی مصنوعی تاریخ گھڑنے کی کوشش میں جتے رہا جس میں وہ راجا پورس اور رنجیت سنگھ سمیت حقیقی قومی ہیروز اور سینکڑوں کرداروں کی جگہ غوری، غزنوی، سوری اور ابدالی جیسے نئے ہیروز بناتا اور پیش کرتا رہا جو کہ پنجاب سمیت پورے برصغیر کا سینہ چاک کر کے یہاں کے وسائل لوٹتے رہے۔

درم خان نامی شخص نے لکھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کے بچوں کو سکولوں میں سچ بتایا جائے اور انہیں عرب اور مغل تاریخ کے بجائے اپنی تاریخ پڑھائی جائے۔

صحافی نثار کھوکھر پنجاب کے عوام سے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں کہ رنجیت سنگھ پنجاب پر حکمرانی کرنے والا پہلا پنجابی تھا، اگر سندھ حکومت ایک ایسا ہی مجسمہ سندھی حکمران راجہ داہر کا نصب کر دے تو آپ کو غصہ تو نہیں آئے گا، کفر اور غدار کے فتویٰ تو نہیں جاری ہوں گے؟

سندھ کے فن و فکر کو محفوظ رکھنے والے ادارے سندھیالوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اسحاق سمیجو بھی راجہ داہر کو سندھ کا قومی ہیرو قرار دینے کی رائے کی حمایت کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ جن بھی کرداروں نے اپنے وطن کے تحفظ کے لیے جان کے نذرانے پیش کیے ان کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تاریخ میں رنجیت سنگھ کا کردار تو پھر بھی متنازعہ رہا ہے، راجہ داہر نے نہ تو کسی ملک پر حملہ کیا اور نہ ہی عوام پر مظالم ڈھائے تاہم حکمرانوں سے عوام کو شکایت ایک فطری عمل ہو سکتا ہے۔‘

راجہ داہر کون تھے؟

راجہ داہر آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ کے حکمران تھے۔ وہ راجہ چچ کے سب سے چھوٹے بیٹے اور برہمن خاندان کے آخری حکمران تھے۔

سندھیانہ انسائیکلو پیڈیا کے مطابق مہا بھارت سے قبل کئی کشمیری برہمن خاندان سندھ آ کر آباد ہوئے، یہ پڑھا لکھا طبقہ تھا، سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے بعد انھوں نے رائے گھرانے کی 184 سالہ حکومت کا خاتمہ کیا اور چچ پہلا برہمن بادشاہ بنا۔

نظامِ حکومت

مورخین کے مطابق راجہ داہر کی حکومت کی سمت مغرب میں مکران تک، جنوب میں بحر عرب اور گجرات تک، مشرق میں موجودہ مالواہ کے وسط اور راجپوتانے تک اور شمال میں ملتان سے گزر کر جنوبی پنجاب کے اندر تک پھیلی ہوئی تھی۔

سندھ سے زمینی اور بحری تجارت بھی ہوتی تھی۔

ممتاز پٹھان تاریخِ سندھ میں لکھتے ہیں کہ راجہ داہر انصاف پسند تھے۔ تین اقسام کی عدالتیں تھیں جنھیں کولاس، سرپناس اور گناس کہا جاتا تھا، بڑے مقدمات راجہ کے پاس جاتے تھے جو سپریم کورٹ کا درجہ رکھتے تھے۔

سندھ پر حملہ

آٹھویں صدی میں بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کے حکم پر ان کے بھتیجے نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کر کے راجہ داہر کو شکست دی اور یہاں اپنی حکومت قائم کی۔

سندھ میں عرب تاریخ کی پہلی کتاب چچ نامہ یا فتح نامہ کے مترجم علی کوفی لکھتے ہیں کہ سری لنکا کے راجہ نے بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کے لیے کچھ تحائف بھیجے تھے جو دیبل بندرگاہ کے قریب لوٹ لیے گئے، ان بحری جہازوں میں خواتین بھی موجود تھیں۔ کچھ لوگ فرار ہو کر حجاج کے پاس پہنچ گئے اور انھیں بتایا کہ خواتین آپ کو مدد کے لیے پکا رہی ہیں۔

مورخ کے مطابق حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کو خط لکھا اور حکم جاری کیا کہ خواتین اور لوٹے گئے مال و اسباب کو واپس کیا جائے تاہم راجہ داہر نے انکار کیا اور کہا کہ یہ لوٹ مار ان کے علاقے میں نہیں ہوئی۔

سندھ کے بزرگ قوم پرست رہنما جی ایم سید نے حملے کے اس جواز کو مسترد کرتے تھے اور انھوں نے سندھ کے سورما نامی کتاب میں لکھا کہ ہو سکتا ہے کہ بحری قزاقوں نے لوٹ مار کی ہو ورنہ راجہ داہر کو اس سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

’یہ الزام تراشی ہے ورنہ اس سے قبل عربوں نے جو سندھ پر 14 بار حملے کیے اس کا کیا جواز تھا۔‘

علافیوں کی بغاوت

عمان میں معاویہ بن حارث علافی اور اس کے بھائی محمد بن حارث علافی نے خلیفہ کے خلاف بغاوت کر دی جس میں امیر سعید مارا گیا، چچ نامہ کے مطابق محمد علافی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکران میں پناہ حاصل کر لی جہاں راجہ داہر کی حکومت تھی۔

راجہ داہر

چچ نامہ میں مورخ کا دعویٰ ہے کہ راجہ داہر جوتشیوں کی بات کا گہرا اثر لیتے تھے

بغداد کے گورنر نے انھیں کئی خطوط لکھ کر باغیوں کو ان کے سپرد کرنے کے لیے کہا لیکن انھوں نے اپنی زمین پر پناہ لینے والوں کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ حملے کی ایک وجہ علافی کی حوالگی بھی سمجھی جاتی ہے۔

ریاستیِ انتشار

راجہ داہر کے تخت نشین ہونے سے قبل ان کے بھائی چندر سین حکمران تھے جو بدھ مت مذہب کے پیروکار تھے اور جب راجہ داہر اقتدار میں آئے تو انھوں نے سختی کی۔

چچ نامہ کے مطابق بدھ بھکشوؤں نے محمد بن قاسم کے حملے کے وقت نیرون کوٹ اور سیوستان میں ان کا استقبال اور مدد کی تھی۔

سندھ کے قوم پرست رہنما جی ایم سید لکھتے ہیں کہ کہ چندر سین نے بدھ ازم کو فروغ دیا اور بھکشوؤں اور پجاریوں کے لیے خصوصی رعایتں دیں، راجہ داہر نے ان پر سختیاں نہیں کیں بلکہ دو گورنر بدھ مذہب سے تھے جبکہ دیگر مذاہب سے ان کا تعلق اور احترام کا ایک ثبوت یہ ہے کہ محمد علافی کا نام سکے کی دوسری طرف نقش کروایا گیا تھا۔

راجہ داہر کی بہن کے ساتھ شادی

چچ نامہ میں مورخ کا دعویٰ ہے کہ راجہ داہر جوتشیوں کی بات کا گہرا اثر لیتے تھے۔

انھوں نے جب بہن کی شادی کے بارے میں رائے لی تو انھیں بتایا کہ جو بھی اس سے شادی کرے گا وہ سندھ کا حکمران بنے گا۔ انھوں نے وزیروں اور جوتشیوں کے مشورے پر اپنی بہن کے ساتھ شادی کر لی۔

مورخ کا کہنا ہے کہ مباشرت کے علاوہ دوسری تمام رسمیں ادا کی گئیں۔

جی ایم سید اس کہانی کو تسلیم نہیں کرتے انھوں نے لکھا کہ برہمن بہن تو دور کی بات کزن سے بھی شادی کو ناجائز سمجھتے ہیں۔

وہ دلیل دیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کسی چھوٹے راجہ کو رشتہ نہ دے کر لڑکی کو گھر بٹھا دیا گیا ہو کیونکہ ہندوں میں ذات پات کی تفریق ہوتی ہے اور اسی لیے کسی کم ذات یا کم درجے والے شخص کو رشتہ دینے سے انکار کیا گیا ہو۔

ڈاکٹر آزاد قاضی ’داہر کا خاندان تحقیق کی روشنی‘ نامی مقالے میں لکھتے ہیں کہ چچ نامے کے مورخ نے اروڑ کے قلعے سے راجہ داہر کے حراست میں لیے گئے رشتے داروں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان میں راجہ کی بھانجی بھی شامل تھی جس کی کرب بن مخارو نامی عرب نے شناخت کی۔ اگر چچ نامے کی بات مانی جائے کہ یہ راجہ داہر کی بہن کے ساتھ رسمی شادی تھی تو یہ لڑکی کہاں سے آئی۔

راجہ داہر کی بیٹیاں اور محمد بن قاسم

چچ نامہ میں مورخ لکھتا ہے کہ محمد بن قاسم کی دو بیٹیوں کو دارالخلافہ بھیج دیا گیا، خلیفہ ولید بن عبدالمالک نے غم خواری کی خاطر حرم سرائے کے حوالہ کیا تا کہ ایک دو روز آرام کر کے خلوت کے لائق ہوں۔

ایک شب دونوں کو طلب کیا گیا۔ خلیفہ نے ترجمان سے کہا کہ معلوم کر کے بتائے کہ کون بڑی ہے۔

بڑی نے اپنا نام سریا دیوی بتایا اور اس نے چہرے سے جیسے ہی نقاب ہٹایا تو خلیفہ ان کا جمال دیکھ کر دنگ رہ گیا اور لڑکی کو ہاتھ سے اپنی طرف کھینچا تاہم سریا دیوی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

’بادشاہ سلامت رہیں، میں غلام بادشاہ کے خلوت کے قابل نہیں کیونکہ عادل عمالدین محمد بن قاسم نے ہمیں تین روز اپنے پاس رکھا اور اس کے بعد خلیفہ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ ’شاید آپ کا دستور کچھ ایسا ہے، بادشاہوں کے لیے یہ بدنامی جائز نہیں۔‘

مورخ کے مطابق خلیفہ ولید بن عبدالمالک محمد بن قاسم سے بہت ناراض ہوا اور حکم جاری کیا کہ وہ صندوق میں بند ہو کر حاضر ہوں۔ جب یہ فرمان محمد بن قاسم کو پہنچا تو وہ اودھپور میں تھے، فوری تعمیل کی گئی لیکن دو روز میں اس کا دم نکلا گیا اور انھیں دربار پہنچا دیا گیا۔ بعض مورخین کا ماننا ہے کہ راجہ داہر کی بیٹیوں نے اس طرح اپنا بدلہ لیا۔

چچ نامہ پر اعتراض

چچ نامہ کے مترجم علی بن حامد ابی بکر کوفی ہیں۔ انھوں نے اچ شریف میں رہائش اختیار کی اور اس وقت ناصر الدین قباچہ کی حکومت تھی۔

وہاں ان کی ملاقات مولانا قاضی اسماعیل سے ہوئی جنھوں نے انھیں ایک عربی کتاب دکھائی جو ان کے آباؤ اجداد نے تحریر کی تھی، علی کوفی نے اس کا عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا جس کو فتح نامہ اور چچ نامہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بعض مورخین اور مصنف چچ نامہ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

ڈاکٹر مرلی دھر جیٹلی کے مطابق چچ نامہ سنہ 1216 میں عرب سیلانی علی کوفی نے تحریر کیا تھا جس میں حملے کی بعد لوگوں سے سنی سنائی باتیں شامل کی گئیں۔

اس طرح پیٹر ہارڈے، ڈاکٹر مبارک علی اور گنگا رام سمراٹ نے بھی اس میں موجود معلومات کی حقیقت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

جی ایم سید نے لکھا ہے کہ ہر ایک سچے سندھی کو راجہ داہر کے کارنامے پر فخر ہونا چاہیے کیونکہ وہ سندھ کے لیے سر کا نذرانہ پیش کرنے والوں میں سب سے اول ہیں۔ ان کے بعد سندھ 340 برسوں تک غیروں کی غلامی میں رہا، اس وقت تک جب تک سندھ کے سومرا گھرانے نے حکومت حاصل نہیں کر لی۔

قوم پرست نظریے کے حامی اس موقف کو درست قرار دیتے ہیں جبکہ بعض محمد بن قاسم کو اپنا ہیرو اور نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔

اس نظریاتی بحث نے سندھ میں دن منانے کی بھی بنیاد ڈالی جب مذہبی رجحان رکھنے والے نے محمد بن قاسم ڈے منایا اور قوم پرستوں نے راجہ داہر کا دن منانے کا آغاز کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp