تیسری جنس ہونے کی اذیت سہتی ایک ہستی کی کہانی


پوسٹ باکس نمبر 203 /نالاسوپارا۔
ناول پڑھنا ہے تو اہتمامِ ناول تو کرنا ہی پڑے گا۔ وہ جو میرزا غالب نے کہا تھا نہ کہ:
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

مگر اس گلی میں جائے بغیر گزارہ بھی تو نہیں۔ اور جو گزارہ نہیں تو چترامد گل کے ہندی میں لکھے اس ناول کوجسے احسن ایوبی نے ہمارے لئے اردو میں ترجمہ کیا ہے، پڑھنے سے پہلے ذہن سے کہہ دیں کہ نئے خیالات کے لیے اپنی کھڑکیاں کھول دے، مبادا کتاب پڑھنے کے بعد آپ خود کو ایک مختلف انسان پائیں۔ آنکھوں سے اجازت لے لیں کہ ان پہ بار بار امڈ آنے والی بدلی سے بچاؤ کا انتظام کرنا کچھ ایسا آسان نہ ہو گا۔ اور کیا آپ دل کو مٹھی میں بھینچ لینے کا فن جانتے ہیں کہ اس ناول کو پڑھتے ہوئے دل سینے کے پنجرے میں مرغ بسمل کی طرح تڑپے گا۔

اس ناول کا آغاز مجھے گھسیٹ کر میرے بچپن کی دہلیزپرلیے جا رہا ہے۔ عیدالاضحٰی، عیدالفطر، شب ِبرات، شب ِمعراج یا پھر کوئی اور تقریب ہوتی، ایسے مواقع پر کوئی نہ کوئی ایسی شبیہہ دروازے پہ نظر آتی تھی جسے شاید میں اس وقت تک دیکھا کرتی تھی جب تک وہ چلی نہیں جاتی تھی یا پھر چلا نہیں جاتا تھا۔

”شانی بیٹا ماموں کے لئے چوکی رکھ دو۔ “ امی مجھے پکارتیں۔

ماموں نے سفید ململ کا دوپٹہ بڑے سلیقے سے اوڑھا ہوتا اور چھینٹ کے سادہ سے سوتی کپڑے پہنے ہوئے ہوتے۔ مگر ان کے بڑے بڑے پھولوں والے چھینٹ کے کرتے میں ہلتے دو بھاری بھرکم غبارے، میری آنکھوں اور دماغ کا امتحان لینے پر تل جاتے تھے۔ ماموں ہے نہ۔ تو آدمی ہونا چاہیے اورآدمی ہے تو پھر اس کے پاس دودھ کیسے؟ مرے پاس زنانہ چھاتیوں کے لئے ایک ہی لفظ تھا ”دودھ“۔ میرا ننھا ذہن خود سے اُلجھتا رہتا۔ وہ چوکی پہ بیٹھا یا بیٹھی امی سے باتیں کرتا رہتا، ان کی گفتگومیرے پلے نہیں پڑتی تھی۔

ابابھی احترام سے اسے ”فقیر سائیں“ پکارتے اورسلام دعا کر کے خیریت پوچھتے۔ جاتے سمے امی، چینی، چاول، آٹا اور دالوں وغیرہ کی پوٹلیاں اس کے حوالے کرتی تھیں۔ سوائے اس کی بھاری بھاری چھاتیوں، یا قدرے مختلف آواز کے کچھ بھی تو عجیب نہ تھا۔ وہ بہت مہذب انداز میں بات چیت کرتا تھا/تھی۔ اور ہمیشہ امی کے سر پر ہاتھ رکھ کردعا دیتا تھا۔ مجھے لگتا ہے، اگر اس کردار نے اپنی ماں کو کبھی خط لکھا ہوتا تو شاید بنی کی طرح ہی لکھتا:

”آٹھویں کلاس تک بھی میں وہی تھا جو آج ہوں، اس وقت اسکول کے سالانہ جلسہ میں مہمان خصوصی جب تقریر کرتے تھے تو میں بھی دیگر طلبا کی طرح تالیاں بجاتا تھا۔ بات بات پر تالی بجانا میری فطری عادت نہیں ہے۔ نسوانی صفات مجھ میں کبھی نہیں رہیں، اب بھی نہیں ہیں اور جو صفات مجھ میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں تو کیا میں ان کو صرف اس لئے قبول کر لوں کہ میری برادری کے دوسرے افراد ان طور طریقوں کو اپنا چکے ہیں۔ کیا میں انہیں کے ساتھ بیٹھ جاؤں اور بلیڈ سے بانہوں اور سینہ کے جنگل صاف کر نے لگوں؟

محض اس لئے کہ ان کی شکل اختیار کیے بنا میرے سامنے زندگی بسر کرنے کے دوسرے راستے نہیں بچے؟ پچھلے پانچ برس سے میں اس متبادل کے سرے کی تلاش میں سرگرداں ہوں، ان سے الگ رہ کر کچھ آدھی ادھوری سانسیں جو بھی حصہ میں آئیں، میں ان پر قناعت کر لوں گا لیکن با! وہ سانسیں میری مٹھیوں کی قید میں آتی کیوں نہیں؟ ”

تو کیا بیہودہ طریقے سے تالی پیٹ کر، کمر کو لچکا کر، ہونٹوں کوعجیب طریقے سے گھما کر بات کرنے اور دیگر عجیب و غریب حرکات کروانے کا طریقہ بھی سوچا سمجھا آزمودہ ناٹک ہے؟ تب تو انسانوں کو ایسا تماشا بنانے والے خودغرض و مکار کرداروں نے، اس مکروہ جال کو بنُنے اور انسانوں کو اپنے پیاروں سے جدا کر کے ان کا کاروبار کرنے کا منصوبہ بہت ہوشیاری سے تیار کیاہو گا۔ انسان کو تماشا بنانا اتنا آسان تو کبھی نہیں رہا ہو گا؟

بہت سفاکی، منافقت، بے رحمی، بے حیائی اور مکاری کی ضرورت پڑی ہو گی۔ اور جب یہ تماشا کاروبار بن گیا ہو گا تب نہ صرف ستم گروں کے گروہ در گروہ تشکیل دینے پڑے ہوں گے بلکہ ظلم کو جاری و ساری رکھنے کے نت نئے طریقے بھی ایجاد کرنے پڑے ہوں گے جن کی وجہ سے یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار اپنے چھوٹے بھائی منجل کو سنبھالتے، ماں سے پوچھتا ہے۔

”میرے ننو کیوں نہیں ہے با؟ “
اورقدرت کے کارخانے کے خام مال اوراس کے بیوپاریوں کے مول تول سے خوفزدہ ومجبور مگر بہادری کے درس دیتی ماں بہلاتی ہے :
”بچہ کے پیدا ہوتے ہی آٹے کا ننو بنا کر لگانا پڑتا ہے، نرس بھول گئی تھی تجھے لگانا، لگوا دیں گے تیرے بھی۔ “

یہ قاتل سطریں پڑھتے ہوئے دل سے ہُوک نکلی۔ ۔ ۔ ہائے ساری دُنیا ماں کی طرح کیوں نہیں سوچتی؟ با بھی جانتی ہے کہ کیا کہہ رہی ہے مگرمعصوم بچے کو تسلی دینے کے لئے اس سے زیادہ مناسب الفاظ کہاں سے لائے سو نرس کو بھلکڑ کہنے میں ہی عافیت ہے۔ ۔ بھگوان کو کیسے کہے کہ بھگوان بھول گیا۔ مگر سوچنا تو بھگوان کو چاہیے نہ کہ کم از کم ایسے معاشرے میں تو ایسی فاش غلطیاں نہ کرے جہاں ”ننو“ مکمل انسان اور غیرمکمل انسان کا فرق بناتا ہے۔ جہاں پہ لوگ دماغ، عقل اور دل سے نہیں بلکہ ننو سے سوچتے ہیں۔

ماں جانتی ہے، جس سماج میں وہ رہ رہی ہے وہ بنانے کے نہیں بگاڑنے کے فن میں مشاق ہے۔ وہ جوڑتا نہیں ہے، توڑتا ہے اور ٹوٹے ہوئے کو مزید بکھیرتا ہے اور زخمیوں کے زخموں کے کھرنڈ کھرچ کر تفریح لیتا ہے۔ تماش بینی اس معاشرے کی سرشت بن چکی ہے۔ اس کے رواجوں میں ہمدردی اور محبت عنقا ہے۔ اسے کمزور کو تاراج کرنے میں لطف آتا ہے۔ اس نے صدیاں لگائی ہیں ظلم کرنے کی تربیت حاصل کرنے میں۔ اس نے طاقتور کو مزید طاقتور اور کمزور کو مذید کمزور کرنے کے مضبوط نیئم بنائے ہیں اور اب یہ رسوم و رواج اس کی قوت ہیں۔ یہ پورا دیمک ذدہ معاشرہ یرغمال ہے مذاہب و روایات کے ان دیکھے جال میں، جس کو جابر، مکار اور عیار قوتوں نے اپنے خصیص و رکیک مقاصد کے حصول کے لئے مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ مگر پھر بھی ماں اپنے بیٹے کے لئے ایک آبرو مند زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

” تو نے یہ بھی سمجھایاتھا کہ باؤلا! تو اور چھوکروں سے ذرا مختلف ہے، یہ تسلیم کر لینے میں ہی عافیت ہے، نہ کسی سے برابری کر اور نہ ہی اپنی اس کمی کا کسی سے تذکرہ۔ سماج کو ایسے لوگوں کی عادت نہیں ہے، وہ عادت ڈالنا بھی نہیں چاہتے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ حالات ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ وقت کروٹ لے گا اور وقت کے ساتھ ہی لوگوں کا نظریہ بدلے گا۔ تجھے کیسے سمجھاؤں؟ اب دیکھ بِنّی! نابینا لوگ ہمارے زمانہ میں اسکول جانے سے محروم تھے لیکن تو بتاتا ہے نا کہ تیرے اسکول میں دو نابینا طالب علم پڑھتے ہیں، بلکہ ان کی ضرورت کے مطابق الگ سے اسکول ہیں۔ انگلیوں سے پڑھی جانے والی زبان ہے، پیروں سے معذور انسان بھی تو مصنوعی ٹانگوں پر چلتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ مستقبل میں اس ادھورے پن کا بھی کوئی علاج نکل آئے، تیرے پپا نے تجھے لے جاکر بڑے اسپشلسٹ کو دکھایا تھا نا!

تیرا دلاسا جھوٹ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں یہ تسلیم کرکے چلتا رہا۔ مصنوعی ٹانگ کی طرح میں بھی اس ضروری عضو کے نقص سے ایک دن پاک ہو جاؤں گا۔ مگر بہت جلد میرا بھرم ٹوٹ گیا۔ تونے، میری با! تونے اور پپا نے مل کر قصائیوں کے ہاتھ میں مجھے معصوم بکری کی طر ح سونپ دیا۔ میری حفاظت کے لئے قانونی تدبیریں کیوں اختیار نہیں کیں؟ ”

”ضروری عضو“؟ کیا ہیں ”ضروری عضو“؟ مرد کے پاس چھ اِنچ کے گوشت کا لوتھڑا اورعورت کے پیٹ کے نیچے ناشپاتی کا ادھا۔ ۔ ۔ جوتعین کرتے ہیں مردانگی اور زنانگی کا؟ پورے یا ادھورے انسان ہونے کا؟ انسان کی ساری نیکی، اس کے عمل، اس کا کردار، ذہن، رُوح، احساس، ہمدردی ”دکھ، خوشی، سب پر غالب آ جاتے ہیں یہ دو عضو؟ انسان سے غیرانسان بنانے والے یہ دو عضو؟ گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسانوں کے جسم پریہ“ ضروری عضو ”نہ ہونے کی سزا ئیں دینے کے لئے سماج کے ٹھیکیداروں نے بڑے جتن کیے ہیں۔ ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ ایک پورے سماج کو مختلف جسمانی ساخت رکھنے والے انسانوں سے نفرت سکھانے اور نفرت کے اس گھناوٴنے، مگر منفعت بخش کاروبار کو صدیوں کامیابی سے چلا کر دکھایا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4