کاروباری ترقی کیوں روٹھی ہوئی ہے


بھائی دس روپے کا سرسوں کا تیل ڈال دینا۔ باجی اب کھلا تیل نہیں ملتا سو روپے کی شیشی ہے۔ یہ ایک عام سا مکالمہ تھا جو ایک دکان پر کھڑے میں نے سنا۔ آپ کہیں گے اس میں خاص بات کیا ہے۔ یہ مکالمہ سنتے ہی میرے ذہن میں ٹیکسٹائل کی سب سے بڑی چین کے مالک انگوار کمپارڈ کا خیال آیا یہ کھیت مزدور ماں باپ کا بیٹا تھا اور اس نے قرضہ لے کر فرنیچر کا کام شروع کیا۔ اس نے وزن میں ہلکا اور شوخ رنگوں کا فرنیچر بنانا شروع کیا اس وقت یورپ میں وکٹورین عہد کے بھاری بھرکم فرنیچر کا رواج تھا جو چار چار نسل تک چلتا تھا لہذا فرنیچر کی فروخت کم تھی لیکن انگوار کا کہنا تھا کہ یورپ میں چھوٹے فلیٹس بنیں گے اور میرا ہلکا فرنیچر اتارنا چڑھانا آسان ہو گا مزید میں یہ فرنیچر سستا دوں گا تاکہ گاؤں سے شہر اٹھا کر لانے سے نیا فرنیچر خریدنا آسان ہو۔

آج ہم میں سے جو لوگ اکیا سٹور وزٹ کر چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ سستے ریٹ میں کس قدر جدت فراہم کرتے ہیں پھر بطور انجینئر میرا کئی دفعہ اکیا سے واسطہ پڑا ان کا کسی بھی نئی فرم کو آرڈر دیتے ہوئے سب سے پہلا ٹارگٹ یہ ہوتا ہے کہ معیار کو برقرار رکھتے ہوئے ریٹ کیسے کم رکھا جائے اور سپلائی چین کو بہتر بناتے ہوئے یہ سستا ریٹ خریدار کو کیسے منتقل کیا جائے۔

ہم اور آپ مارک ذکر برگ کی فیس بک مفت میں استعمال کرتے ہیں واٹس آپ میل وغیرہ عام آدمی مفت میں استعمال کرتا ہے۔ پھر ہمارا بطور انجینئر یورپ کے سٹور ریٹرن سے واسطہ پڑتا ہے یعنی وہ چیزیں جو گاہک نے خریدیں اور کسی وجہ سے واپس کر دیں ان کی تفصیل مینوفیکچرنگ ملوں کو پہنچائی جاتی ہے۔ اسی فیصد سٹور ریٹرن یہ ہوتے ہیں کہ میں نے بیڈ شیٹ کھولی اور میرا خیال تھا میرے کمرے میں اچھی لگے گی لیکن اچھی نہیں لگی اس لئے میں واپس کر رہا/رہی ہوں۔ اور سٹور والے اس شکایت پر سر نہیں پھاڑتے بلکہ خوش دلی سے واپس کرتے ہیں بلکہ معذرت کرتے ہیں کہ ہماری چیز آپ کے معیار پر پوری نہیں اتری۔

بے شک کاروبار منافع کمانے کا ایک ذریعہ ہے لیکن یورپ میں اسے خریدار یا گاہک کی زندگی آسان بنانے یا اس کی ضروریات پوری کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

اب واپس پاکستان آئیں تیس سے پینتیس سال پہلے میں اپنی نانی کی انگلی پکڑ کر بیکری جاتا تھا اور نانی ایک پلیٹ میں دو یا تین ٹوٹے ہوئے انڈے دکھا کر کہ یہ خراب نکلے ہیں انہیں تبدیل کریں۔ دکاندار خوش دلی سے انڈے دیکھ کر کہتا خالہ یہ باہر نالی میں پھینک دیں اور نئے انڈے دے دیتا تھا۔

یہ چالیس سال پہلے کا کاروباری رویہ تھا اب آپ یہ تصور کریں کہ آپ خراب انڈے واپس کرنے جائیں یا سٹور پر یہ کہہ کر کوئی چیز واپس کرنے جائیں کہ کھولنے پر مجھے پسند نہیں آئی تو دکاندار کا کیا رویہ ہو گا۔ یقیناً ایک لمبی بحث پھر اگلی دفعہ آپ کو دیکھ کر کوئی چیز دینے سے اجتناب۔

اب ہم کاروبار کے ایک اہم فریق خریدار کے اطمینان اور ضروریات کو نظر انداز کر کے یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں یار کاروبار میں برکت نہیں رہی۔ کیا سبزی والا یا تیل والا دس روپے کے ساشے نہیں بنا سکتا جبکہ پاکستانی روپیہ ڈی ویلیو ہونے کی وجہ سے عوام تیزی سے غریب ہو رہے ہیں۔ کیا سیب یا آم ایک ایک فروخت نہیں ہو سکتا یا یورپ کی طرح قاش کاٹ کر فروخت نہیں ہو سکتا۔ یقیناً ہو سکتا ہے لیکن دکاندار یہ کشٹ کیوں اٹھائے حکومت کچھ کرتی نہیں کاروبار کیسے چلے ایک عام شکوہ ہے۔ شکوہ کرتے لوگ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ ترقی ہمیشہ مستقبل کی مارکیٹ کے جائزے اور ان حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے سے آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).