برطانوی سفیر کی لیک ہونے والی ای میل میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ‘ناکارہ’ ہے
واشنگٹن میں برطانوی سفیر کی لیک ہونے والی ای میلز میں ٹرمپ انتظامیہ کو ‘ناکارہ’، ’غیر محفوظ‘ اور ’نااہل‘ قرار دیا گيا ہے۔
سر کِم ڈیورچ نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں وائٹ ہاؤس ’ناکارہ‘ اور ‘منقسم’ ہے۔
لیکن اس کے ساتھ انھوں نے خبردار بھی کیا ہے کہ امریکی صدر کو کسی طرح منہا نہیں کیا جا سکتا۔
وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ میل آن سنڈے کو لیک ہونے والی ای میلز ’شرارت‘ ہے لیکن انھوں نے اس کی صداقت کو مسترد نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیے
‘اگر جنگ چھڑی تو ایران کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا’
’یورپ مکمل طور پر امریکہ، برطانیہ پر انحصار نہیں کر سکتا‘
ایران کا فیصلہ جوہری بلیک میل ہے: امریکی اہلکار
وائٹ ہاؤس نے ابھی تک ان میموز پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن ان سے برطانیہ اور امریکہ کے درمیان ’خصوصی تعلقات‘ کا امتحان ہو سکتا ہے۔
ایک پیغام میں سر کِم نے موجودہ وائٹ ہاؤس کے کبھی بھی ‘زیادہ اہل ہونے’ پر سوال اٹھایا۔
بہر حال سر کِم نے کہا کہ صدر ٹرمپ جون میں برطانیہ کے اپنے سرکاری دورے کے دوران ‘چکاچوند میں کھو گئے تھے۔’ لیکن سفیر نے متنبہ کیا کہ ان کی انتظامیہ اپنے ذاتی مفاد کو خاطر میں رکھے گی کیوں کہ وہ ابھی تک ’امریکہ پہلے‘ کی سرزمین ہے۔
میمو میں کہا گیا ہے کہ بریگزٹ کے بعد جب تجارتی تعلقات میں بہتری کی کوشش ہو گی تو برطانیہ اور امریکہ کے درمیان موسمیاتی تبدیلی، میڈیا کی آزادی اور سزائے موت پر اختلافات سامنے آ سکتے ہیں۔
برطانوی سفیر نے کہا کہ صدر کے دماغ میں بات ڈالنے کے لیے آپ کو اپنے نکات کو سہل یہاں تک کہ دو ٹوک انداز میں پیش کرنا ہو گا۔
گذشتہ ماہ ارسال کیے جانے والے پیغام میں سر کم نے ایران سے متعلق امریکی پالیسی کو ‘غیر مربوط اور خلفشار کا شکار’ قرار دیا۔
سر کم نے کہا کہ ٹرمپ کا تہران پر حملے کو دس منٹ پہلے یہ کہہ کر روک دینا کہ اس میں صرف 150 افراد مارے جائیں گے، سمجھ سے بالاتر ہے۔’
انھوں نے کہا کہ صدر کبھی بھی ’پوری طرح اس کے حق میں نہیں تھے‘ اور وہ امریکہ کے بیرونی جھگڑوں میں شامل نہ ہونے کے اپنی انتخابی مہم کے وعدے کے خلاف نہیں جانا چاہتے تھے۔
’اندرونی رسہ کشی اور انتشار‘
سر کِم نے کہا کہ ‘ایران پر امریکی پالیسی کا مستقبل قریب میں کبھی بھی مربوط ہونے کا امکان نہیں ہے’ کیونکہ ‘یہ بہت ہی منقسم انتظامیہ ہے۔’
لیک ہونے والی فائل سنہ 2017 سے حال کے واقعات کے ذکر پر مشتمل ہے جس میں سفیر کے ابتدائی خیالات شامل ہیں کہ میڈیا وائٹ ہاؤس میں جو ‘شدید آپسی رسہ کشی اور انتشار’ کی بات کہتا ہے وہ ‘زیادہ تر درست ہیں۔’
اس میں ٹرمپ کی انتخابی مہم اور روس کے درمیان ساز باز کے جو الزامات ہیں ان پر بھی تجزیہ ہے کہ ‘بدترین امکانات کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔’ تاہم اس کے بعد ہونے والی رابرٹ مولر کی جانچ میں ان الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکا۔
برطانوی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ کسی سفیر سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ وزیروں کو ان کے ملک کی سیاست کے متعلق ‘ایماندارانہ اور بے لاگ تبصرہ’ فراہم کرے۔
انھوں نے کہا ‘ان کے خیالات ضروری نہیں کہ وزیروں کے بھی خیالات ہوں یا پھر حکومت کے خیالات ہوں۔ لیکن ہم انھیں واضح بیانات کے لیے پیسہ دیتے ہیں۔’
انھوں نے کہا کہ وزرا اور سول سرکاری ملازمین ان مشوروں کو ‘درست طریقے سے’ ہینڈل کریں گے اور سفیروں کو انھیں رازدارانہ طور پر پیش کرنا چاہیے۔
ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن میں برطانوی سفارتخانے کا وائٹ ہاؤس سے ‘مضبوط رشتہ’ ہے اور یہ رشتے اس قسم کی ’شرارتوں‘ جیسا کہ یہ لیکس کے باوجود برقرار رہیں گے۔
- جمیلہ علم الہدیٰ: مشکل وقت میں شوہر کے ہمراہ ’گھریلو اخراجات اٹھانے والی‘ ایرانی صدر کی اہلیہ کون ہیں؟ - 23/04/2024
- ’مایوس‘ والدہ کی چیٹ روم میں اپیل جس نے اُن کی پانچ سالہ بیٹی کی جان بچائی - 23/04/2024
- مبینہ امریکی دباؤ یا عقلمندانہ فیصلہ: صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران ’ایران، پاکستان گیس پائپ لائن‘ منصوبے کا تذکرہ کیوں نہیں ہوا؟ - 23/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).