آسمان کو چھوتا معاشی و سیاسی بحران اور ہمارا کپتان


میری پسندیدہ شاعرہ ادیب دانشور آپا نور الہدیٰ شاہ کی چھوٹی سی خوبصورت تحریر یا آزاد نظم نظروں سے گزری اور باقیوں کی طرح اپنا اثر چھوڑ گئی آپا نے جعلی ریاست مدینہ کے امیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ

ایمنسٹی کے تحت ہمارے اثاثے
پیش ہیں عالی جاہ
ایک عدد زباں
جو بولنا جانتی ہے

دماغ
جو سوچتا ہے
اختلاف کا شعور رکھتا ہے

دل
جو سچ کی گواہی دیتا ہے

ہاتھ
جو ظالم وجابر کو آئینہ دکھاتے ہیں
الفاظ لکھتے ہیں

آنکھیں
جو سبکچھ دیکھ رہی ہیں

کان
جو آوازِ حق بھی سنتے ہیں
اور ناحق کی للکار بھی

یہ چھوٹی سی نظم اپنے آپ میں بہت کچھ کہہ گئی ریاست مدینہ بنانے والے وزیراعظم کی ریاست مدینہ کی دس ماہ میں حالتِ زار کا کچہ چٹھا بھی کھول گئی، خلق خدا کی آواز بن کر ریاست مدینہ بنانے والے، عوام کو عدل و انصاف فراہم کرنے کے دعوے کرنے والے، انہیں مصائب و آلام سے نجات دلانے، ظلم و جبر سے انصاف فراہم کرنے کے وعدے کرنے والے، کرپشن و لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے اور ان سے حساب لینے کی بڑھکیں مارنے والوں کو محض دس ماہ میں ان کی عوام میں اوقات دکھا گئی۔

پاکستان کی عوام نے جولائی کے انتخابات میں جس تبدیلی کو ووٹ دیا وہ یہ تو ہرگز نہیں ہو سکتی، یہ تبدیلی تو ان کے مصائب و آلام میں پہلے سے زیادہ اضافے کا سبب بن گئی ہے، یہ تبدیلی تو ان کی خودکشیوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ کر گئی، اس تبدیلی نے تو ان سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا، ان کے بچوں کی اچھی تعلیم کا خواب تک توڑ دیا یہ تبدیلی تو اس نعرے کا سبب بن گئی کہ ”چھین رہا ہے عمران خان—روٹی، کپڑا اور مکان“

خان صاحب اقتدار میں آتے ہی اپنے مخالفین پر احتساب کے نام پہ ٹوٹ پڑے دس ماہ پہلے شروع ہونے والی چور ڈاکو کی گردان ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی، وہ کبھی منی لانڈرنگ کرنے کے، تو کبھی ٹیکس اور قرضے ہڑپنے کے الزامات لگا کر اپنے مخالفین کے خلاف مختلف نوعیت کے انتقامی تحقیقاتی کمیشنز بناکر ان پر عرصۂ حیات تنگ کرنے میں جُتے ہوئے ہیں، وہ اپنی صفوں میں موجود چور ڈاکو بھی پکڑنے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا بار بار اعادہ کرتے نظر آتے تھے (اقتدار سے پہلے ) مگر جب اقتدار کا ہما ان کے سر بیٹھا تو سارے چور ڈاکو صرف مخالفین میں نظر آئے اپنے ساتھ سارے کے سارے اللہ کے ولی اور پہنچے ہوئے بندے فرشتے ہی کھڑے نظر آئے، احتساب کا ہلا بولنے کے بعد باری آئی اس میڈیا پہ چڑھ دوڑنے کی جس کے بنائے ہوئے عوامی پرسیپشن کی بنیاد پر عالی جاہ کپتان صاحب آج مسندِ اقتدار پر فائز ہیں۔

آج میڈیا پہ خان صاحب اور ان کے چاہنے والے، سہولت کار اور ان کے اقتدار کی راہوں کے کانٹے چننے والے صرف وہ بات سننا چاہتے ہیں جو ان کے بیانئے کے مطابق ہو، ریاست مدینہ کے والی وارث صرف تعریفی توصیفی کلمات سننے، معیشت ترقی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے، ملک میں دودھ و شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں، عوام اپنے محبوب والئی ریاست کے رعایا دوست اقدامات پہ نہال ہیں ان کے صدقے واری ہو رہے ہیں جیسی خبروں کو سننا چاہتے ہیں۔

کپتان صرف لفظ سلیکٹڈ سے اتنا خائف ہیں کہ یہ لفظ ہی پابند کردیا گیا، مگر کیا کیا جائے اس سوشل میڈیا کا کہ آج پوری دنیا میں لفظ سلیکٹڈ کپتان کی پہچان بن کر ان کا منہہ چِڑا رہا ہے، کپتان اپنی مدح سرائی کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے خلاف اٹھنے والی کوئی آواز سننے کے روادار نہیں ہیں۔ رانا ثنا اللہ کی گرفتاری آصف علی زرداری کے جیو نیوز کو دیے گئے انٹرویو پہ پابندی کپتان خان کی بوکھلاہٹ ان کے خوف اور سیاسی عدم تحفظ کے احساس کا منہہ بولتا ثبوت ہے۔

خان صاحب اور ان کے لانے والے کسی طوریہ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ کوئی ان کی اتھارٹی کو چیلنج کرے، وہ جیسا چاہیں جس کے ساتھ چاہیں وہ سلوک کریں کوئی انہیں نہ ٹوکے جیسے فیض نے کہا ہے کہ ”نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں۔ چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے“ کپتان صاحب چاہتے ہیں کہ ملک میں مسلسل بڑھتی سیاسی افراتفری، انتقامی احتسابی کارروائیوں کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھے، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے مسلسل معاشی دلدل میں دھنسے جانے کو کوئی اپنی گفتگو کا موضوع نہ بنائے، وہ آئی ایم ایف سے قرضے لینے دوست ممالک سے بھیک مانگنے، ٹیکسوں کی وصولی کی شرح میں 600 سؤ ارب روپے سے زیادہ کی گراوٹ کو، ملک کے تیزی سے بڑھتے گردشی قرضوں کو، ملک کی درآمدات و برآمدات میں خطرے کے نشانات کراس کرنے والی حدوں پہ کوئی لب کشائی نہیں چاہتے۔

عمران خان صاحب پچھلے ساڑھے دس ماہ میں سوائے اپنے ایک دعوے کہ ”میں ان کو رلاؤں گا“ کے کسی اور دعوے پہ کھرا نہیں اتر سکے ہیں۔ واقعی انہوں نے جو کہا تھا وہ کر کے بھی دکھا دیا آج پورا پاکستان مہنگائی، گرانی، افراطِ زر، پیٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں میں مسلسل اور ہوشربا اضافے، روپے کی گرتی قدر کی وجہ سے اپنے اوپر تیزی سے بڑھتے قرضوں کی وجہ سے دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں اور خان صاحب سب اچھا ہے سنا نے والے رودالیوں کی رودالیاں سن کر چین کی نیند کے مزے لُوٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔

انہوں نے اداروں کو اپنے طابع کرنے کی خواہش میں اداروں کو ہی پستیوں میں دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔ میرٹ قابلیت اور ایمانداری کا درس دینے والا شخص وزارت عظمیٰ کی کرسی پہ بیٹھتے ہی سارے اصول بھول کر اداروں کی تباہی اور بربادی کے درپے ہوگیا۔ کسی سے بلیک میل نہیں ہوتا، کسی ضمیر فروش کو ساتھ نہیں ملاؤں گا، لیکن سب نے دیکھا کہ عوام دشمن بجٹ پاس کروانے کے لئے ریاست مدینہ کے حاکم کس کس سے بلیک میل نہیں ہوئے، کس کس ضمیر فروش کو نہیں خریدا گیا، کون کون دہشتگرد قاتل پاکستان کا سب سے زیادہ نفیس شخص نہیں ٹھرایا گیا۔

پاکستان کی بقا سالمیت تعمیر اور ترقی عدل و انصاف کی ضامن عدلیہ کو بھی نہیں بخشا گیا اور اس پر بھی قدغنیں لگا کر اپنی پالیسیوں کے مطابق فیصلے کروائے جا رہے ہیں، سچے ایماندار منصفوں کو کٹہرے میں کھڑا کروا کر عوام الناس کی قانون و انصاف سے وابستہ موہوم سی امیدیں بھی ختم کرنے کی جانب پیش قدمی بڑی کامیابی سے جاری ہے۔ شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ یا علی کسی بھی معاشرے کی تباہی کا سب سے بڑا سبب کیا ہے، تو مولا علی علیہ السلام نے فرمایا اس معاشرے سے انصاف ختم کردو۔

آج ہم مولا علی علیہ السلام کے قول کے مصداق جس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں وہ معاشرے کی تیزی سے تباہی اور بربادی کی جانب گامزن نظر آتی ہے۔ خان صاحب جو اپنے کرکٹ کیریئر میں بڑے ذہین و زیرک کپتان رہے ہیں ان کی کپتانی میں ملک تیزی سے معاشی، سیاسی، معاشرتی تنزلی کی جانب گامزن ہے، ان کے دورِ اقتدار کے محض دس ماہ میں انہیں ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹ دینے والے بھی ان کے اقدامات، عوام دشمن بجٹ، مہنگائی اور گرانی میں ہوشربا اضافے پہ سراپا احتجاج سڑکوں پہ دھائیاں دیتے نظر آ رہے ہیں۔

بجٹ پاس ہونے والے روز اسلام آباد میں کراچی سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پہ منتخب میرے دو دوست بڑے شرمندہ شرمندہ سے اس بات کا اعتراف کر رہے تھے کہ ہم نے پاکستان کی تاریخ کے سب زیادہ عوام دشمن بجٹ کے حق میں ووٹ دیا ہے مگر کیا کریں ووٹ والے روز ایوان سے غیر حاضر نہ ہوں اس کے لئے ہمارے گھروں اور لواحقین پہ نظر رکھی جا رہی تھی، مجبور ہیں کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ خیالات ان دو ایم این ایز کے تھے جو کپتان کی ٹیم کا حصہ تو ہیں مگر لگتا ہے ان کا ضمیر ہلکی سی سانسیں ابھی لے رہا ہے کہ کم از کم یہ تسلیم تو کر رہے ہیں کہ یہ بجٹ ملک و عوام دشمن ہے۔

انتہائی تیزی سے بڑھتا سیاسی، معاشی بحران ملک کو ایک بند گلی میں لے جا رہا ہے اور ضد اور ہٹ دھرمی پہ اڑے کپتان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں لگتی کہ پاکستان چاہے معاشی و سیاسی طور دیوالیہ ہو جائے وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پہ قائم رہیں گے کیونکہ وہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے علاؤہ دیگر تمام چوروں اور ڈاکوؤں کو نشانِ عبرت بنانے کا عزم لے کر اقتدار میں لائے گئے ہیں۔ اللہ ربّ العزّت پاکستان کا حامی و ناصر ہو آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).