این آر او: بے نظیر بھٹو قوم کی مُجرم یا مُحسن؟


وطنِ عزیز میں میڈیا پر فقط مقتدرہ قوتوں کے بیانیئے کا پرچار ہوتا ہے اور وہی مقبول عام بھی ہوتا ہے۔ آئینِ پاکستان کو ردی کے کاغذ سے زیادہ کبھی اہمیت نہ دینے والی یہ مقتدرہ قوتیں جھوٹے حقائق اور جھوٹی تاریخ عوام کو رٹواتی رہتی ہیں۔ یہی قوتیں ہی فیصلہ کرتی ہیں کہ حقائق کے برعکس قوم کے سامنے کس کو ہیرو بنا کر پیش کرنا ہے اور کس کو ولن۔ پاکستان کے بننے کے بعد سے آج تک جھوٹی کہانیوں کے ذریعے عوام کی ذہن سازی کا یہ طریقہ واردات انتہائی کامیابی سے چل رہا ہے۔ قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او (National Reconciliation Ordinance) کے بارے میں بھی مقتدرہ قوتوں نے اپنا پسندیدہ بیانیہ اپنی سیاسی اور میڈیائی کٹھ پُتلیوں کو پوری طرح ازبر کروا رکھا ہے، جس کا وہ بات بات پر بھرپور پرچار کر کے عوام کو گمراہ کرتی ہیں۔

این آر او ایک صدارتی آرڈیننس تھا، جِسے ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007 ء کو جاری کیا۔ اس صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پرویز مشرف نے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے ان تمام مقدمات کو ختم کرنے کا اعلان کیا جو یکم جنوری 1986 ء سے لے کر 12 اکتوبر 1999 ء کے درمیان سیاسی بنیادوں پر درج کیے گئے تھے۔ سات دفعات پر مشتمل این آر او آرڈیننس کا مقصد قومی مفاہمت کا فروغ، سیاسی انتقام کی روایت کا خاتمہ اور انتخابی عمل کو شفاف بنانا تھا۔

این آر او آرڈیننس جاری ہونے کے دو سال بعد (پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران) جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور شریفین کا گٹھ جوڑ عروج پر تھا تو آصف علی زرداری کو دیوار سے لگانے کے لیے 16 دسمبر 2009 ء کو سپریم کورٹ نے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد این آر او کے تحت تمام کالعدم مقدمات دوبارہ کھلنے کے ساتھ آصف علی زرداری کے خلاف سیاسی انتقام کے طور پر بنائے گئے تمام مقدمات بھی بحال ہو گئے۔

ڈبل پی سی او زدہ افتخار چوہدری کو اپنی طبع آزمائی کے پیش نظر آصف علی زرداری کے خلاف سب سے اہم مقدمات یعنی سوئس کیسز کو مصالحے دار بنانے کے زیادہ مواقع نظر آئے، اِسی لیے انھوں نے اِسے سب سے اہم آئیٹمز سمجھ کر این آر او کی پٹاری سے نکالا اور شعبدہ بازی شروع کر دی۔ احتساب عدالت کی لِیلا دھاری کے افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں پورے تین سال تک کھڑکی توڑ شو جاری رکھا اور یہ عدالتی کمرہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف ایک کامیاب پروپیگنڈہ سیل کا منظر پیش کرتا رہا۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف تعفن زدہ عدالتی ڈائیلاگز کو چسکے لے لے کر ہر شام ٹی وی سکرینوں پر دہرایا گیا، اخبارات میں چیختی چنگھاڑتی شہ سرخیوں سے صفحات کالے کیے گئے اور اخبارات میں پورے پورے صفحات کے اشتہارات چھاپے گئے۔ قوم نے سوئس کیسز نامی ناٹک کو پورے اُنیس سال تک جھیلا۔

وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی عدالتِ عظمٰی کے حکم پر جب آئین کے آرٹیکل 248 کے مطابق سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے تیار تھے مگر عدالت اِس آرٹیکل کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کے مطابق خط لکھوانا چاہتی تھی۔ گیلانی کی طرف سے اِس غیر آئینی اقدام سے انکار پر سپریم کورٹ نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں جاری کیے گئے توہین عدالت کے آرڈیننس 2003 ء کے سیکشن پانچ کے تحت جرم کا مرتکب قرار دے کر غیر آئینی طور پر منتخب وزیرِ اعظم کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا۔

ایک ڈکٹیٹر کو تین سال کے لیے آئینِ پاکستان سے کھلا کھلواڑ کرنے کی اجازت دینے والے ججوں نے قومی اسمبلی میں منتخب وزیرِ اعظم کے حق میں قرارداد اور اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھا۔ مگر بعد ازاں وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف سے عدالت نے سوئس حکام کو اُسی متن کے ساتھ خط لکھوایا، جس کے لیے یوسف رضا گیلانی پہلے ہی رضامند تھے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر حکومتِ پاکستان کی طرف سے سوئس حکام کو بھجوائے گئے خط کا کورا جواب آیا اور سوئس حکام نے آصف علی زرداری کے خلاف کارروائی کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

یاد رہے کہ شریفوں نے پاکستانی ججوں کے ساتھ ملی بھگت (یہ بات سپریم کورٹ میں ثابت ہو چکی ہے ) کی طرز پر سوئس حکام سے بھی ملی بھگت کرنے کی بھرپور کوششیں کیں مگر سوئس انویسٹیگیٹنگ جج ڈینیل ڈیواؤ نے ابتدائی انکوائری میں بوگس ثبوت دیکھ کر مقدمات چلانا تو دور کی بات، فائل تک کرنے سے انکار کر دیا۔ مزید برآں، شریف حکومت کے سوئس وکیل جیکؤس پاتھن، جنیوا کے اٹارنی جنرل (پراسیکیوٹر جنرل) ڈینیل زیپیلی، جنیوا کے دوسرے اٹارنی جنرل فرانکوئس راجر مچلی کا ایس جی ایس اینڈ کوٹیکنا کمپنیز سے متعلقہ مقدمات (سوئس کیسز) کے بارے میں کھلے مواقف دے چکے تھے کہ پیش کردہ ثبوتوں کی بنا پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔

اِن حقائق کے باوجود عدالتِ عظمٰی پاکستان پیپلز پارٹی کے وزراء اعظم کو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹرز لینڈ میں ایس جی ایس اینڈ کوٹیکنا کمپنیز سے متعلقہ اُن بند کیسز (سوئس کیسز) کو کھلوانے کے لیے خط لکھوانے پر بضد تھی، جو سِرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ سوئٹرز لینڈ میں اِن کیسز کی فقط انکوائری ہوئی، جس کی کوئی عدالتی اہمیت نہیں تھی اور شواہد نہ ہونے پر سوئٹزر لینڈ میں یہ مقدمات فائل ہی نہیں ہو سکے تھے۔ مزید برآں، یہ بوگس کیسز پاکستانی احتساب عدالت میں بھی خارج ہو چکے تھے۔

آصف علی زرداری کی عہدہ صدارت سے سبکدوشی کے بعد عدالت کی بار بار کی ہدایات کے باوجود استغاثہ عدالت میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکا۔ اس طرح 24 نومبر 2015 ء کو عدالت نے آصف علی زرداری کو سوئس کیسز میں باعزت بری کر دیا۔ بعد ازاں، این آر او کی کالعدمی سے بحال ہونے والے تمام کے تمام مقدمات سے آصف علی زرداری عدالتوں میں باعزت بری ہو گئے۔ یہاں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آصف علی زرداری یا پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی عہدیدار نے این آر او سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے یہ اچھا ہوا کہ این آر او کی کالعدمی سے بحال ہونے والے تمام جعلی مقدمات عدالتوں میں بھی جھوٹے ثابت ہوئے (واضح رہے کہ اِن جعلی مقدمات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ آصف علی زرداری نامزد ملزم تھے ) ۔

اب ہم ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو این آر او لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

آئین شکن جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو وہ بار بار کہتے تھے کہ ”پاکستانی سیاست سے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ دونوں شخصیات اور ان کے حواری اب پاکستانی سیاست میں کبھی واپس نہیں آئیں گے“۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3