جج صاحب کی ویڈیو: حکومت کیوں بدحواس ہے؟


گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی پریس کانفرنس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو ریلیز کرتے ہوئے نواز شریف کے خلاف فیصلہ کو جبر اور ناانصافی قرار دیا گیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جج کے اس ’اعتراف‘ کے بعد نواز شریف کو ایک منٹ کے لئے بھی قید رکھنا ظلم اور ناانصافی ہوگی۔ آج احتساب عدالت کے جج صاحب نے عدالتی رجسٹرار کے ذریعے ایک تردیدی پریس ریلیز جاری کی ہے۔ جج ارشد ملک نے دباؤ میں فیصلہ کرنے کا الزام مسترد کرنے کے علاوہ مریم نواز کی پریس کانفرنس کو ’اپنے، ان کے ادارے اور خاندان کے خلاف سازش‘ قرار دیا۔

مریم نواز کے الزامات اور جج ارشد ملک کی تردید قابل فہم ہے۔ مریم نواز خود یہ اعلان کرتی رہتی ہیں کہ وہ نواز شریف کو مصر کا محمد مرسی نہیں بننے دیں گی اور ہر قیمت پر اپنے والد کے خلاف الزامات کو مسترد کروائیں گی۔ دوسری طرف جج ارشد ملک کے پاس بھی ان الزامات اور سامنے آنے والی ویڈیو کے خلاف تردیدی بیان جاری کرنے کے علاہ وکوئی چارہ نہیں تھا۔ الزام براہ راست اور دو ٹوک تھا۔ اس الزام کے ہوتے نہ نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سزا باقی رہ سکتی ہے اور نہ ہی ارشد ملک جج کے طور پر کام کرسکتے تھے۔ اس لئے مریم نواز کے پیش کردہ ’حقائق‘ کا جواب دینا ضروری تھا۔

اس میں شبہ نہیں کہ آنے والے دنوں میں اعلیٰ عدالتیں اور متعلقہ ادارے ان الزامات، پیش کی گئی ویڈیو اور جاری کئے گئے تردیدی بیان کا جائزہ لیں گے اور کسی حد تک کچھ سچ سامنے لانے پر ضرور مجبور ہو جائیں گے۔ کیوں کہ ملک میں جاری سیاسی افراتفری، سیاست کی نگرانی اور موجودہ حکومت کی نامزدگی کے حوالے سے فضا مکدر اور عوام کا سیاست دانوں اور اداروں پر بھروسہ مجروح ہؤا ہے۔ دگرگوں معاملات اور ملک میں پائے جانے والے سیاسی و سماجی انتشار کے باوجود یہ واضح اشارے بھی سامنے آتے رہے ہیں کہ ریاست کا کوئی بھی ادارہ موجودہ نظام کو لپیٹنے پر یقین نہیں رکھتا۔ اس میں اصلاح کے لئے کوئی کام ہو یا نہ ہو لیکن حکومت، اپوزیشن اور اداروں کی طرف سے بار بار یہ واضح کیا جاتا ہے کہ موجودہ نظام کو چلتے رہنا چاہئے۔ اسی لئے ملک کا عام شہری اس بات پر سوالیہ نشان بنا ہؤا ہے کہ اگر سب نظام چلانا چاہتے ہیں تو اسے بہتر بنانے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرنے میں کیا شے مانع ہے؟

البتہ حالات کو تبدیل کیا جائے یا ان سے سبق سیکھنے کوئی مثبت کوشش ہو یا نہ ہو لیکن یہ طے ہے کہ نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت کے جج پر لگنے والے الزامات کے بارے میں کچھ نہ کچھ سچ سامنے لانا موجودہ نظام کو بچانے اور لشٹم پشٹم چلانے کے لئے ضروری ہوگا۔ اسی لئے وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان، لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی پریس کانفرنس کے بعد مریم نواز پر گرجنے برسنے کے باوجود یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوئی ہیں کہ حکومت اس ویڈیو کا فارنزک آڈٹ کروائے گی تاکہ اس کی سچائی کا پتہ چل سکے اور حقائق عوام تک پہنچ سکیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام سے کوئی سچ نہیں چھپائے گی۔

سیاسی تصادم کے موجودہ ماحول میں ہر فرد اور ادارہ اپنا اپنا سچ سینے سے لگائے پھرتا ہے۔ اس لئے حکومت سے تو کوئی ایسا سچ بیان کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی جو اس کی سیاسی پوزیشن کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے۔ لیکن ملک کی عدالت عظمی اور خفیہ ہاتھوں کو سرگرم رکھنے والے اداروں پر البتہ اس حوالہ سے اصل ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس معاملہ میں جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو سامنے لائی گئی ہے جس میں وہ ’غلط اور بغیر ثبوت کے فیصلہ‘ دینے پر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں۔ مظلوم جج کے ضمیر پر یہ بوجھ لادنے میں وہی مشہور زمانہ ’خفیہ ہاتھ ‘ ملوث بتائے گئے ہیں جو اس بار نامعلوم سفید پوشوں کی صورت میں جج صاحب کو اٹھا کر لے گئے۔ انہیں ماضی کی کسی ’غلط کاری‘ کی کوئی ذاتی ویڈیو دکھا کر مرضی کا فیصلہ دینے پر مجبور کیا گیا۔ جج صاحب کے الفاظ میں ’کچھ لوگوں نے مجھے کسی جگہ پر بلایا۔ میرے سامنے چائے رکھی اور سامنے سکرین پر ایک ویڈیو چلا دی۔ وہ لوگ اٹھ کر باہر چلے گئے اور تین چار منٹ بعد واپس آئے تو ویڈیو ختم چکی تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے ناں؟ کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے۔ میں خود حیران ہوں یہ تو کوئی 10، 15 سال پرانی ویڈیو تھی اور مواد بھی وہی تھا۔ ہر بندے کا میٹریل انہوں نے رکھا ہوتا ہے‘

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali