جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو: حکومت کا ویڈیو کی فرانزک تحقیقات کرانے کا فیصلہ


شہزاد اکبر

شہزاد اکبر نے ویڈیو کے فرانزک آڈٹ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے حکومتی فیصلہ مشاورت کے بعد آئے گا

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف کی جانب سے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو ٹیپ کے اجرا کے معاملے کی تحقیقات خود متعلقہ عدالت کو کرنی چاہییں۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں اتوار کی شب بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات سے اس پر جانبداری کا الزام لگ سکتا ہے۔

یہ ویڈیو ٹیپ سنیچر کو پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں پیش کی گئی تھیں جس میں مبینہ طور پر نواز شریف کو العزیزیہ ریفرینس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو ایک لیگی کارکن ناصر بٹ کے ساتھ بات چیت میں فیصلہ لکھنے سے متعلق کچھ ‘نامعلوم افراد’ کی جانب سے دباؤ کے بارے میں بتاتے دیکھا اور سنا جا سکتا تھا۔

یہ ٹیپ سامنے آنے کے بعد اتوار کو احتساب عدالت کی جانب سے مذکورہ جج کا ایک بیان جاری کیا گیا جس میں انھوں نے ویڈیو کو ’جھوٹی، جعلی اور مفروضوں پر مبنی‘ قرار دیا تھا۔

اس بیان کے بعد وزیراعظم کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’آڈیو، ویڈیو ٹیپ بنانے اور چلانے والے دونوں کردار سند یافتہ جھوٹے ہیں اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مریم صفدر اعوان کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے آڈیو اور ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کرائیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’ویڈیو ٹیپ کی فرانزک تحقیقات کرائیں گے‘

’نواز شریف کو جیل بھیجنے والے جج دباؤ میں تھے‘

جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

مریم نواز اور بلاول حکومت مخالف تحریک پر متفق

’ایسا تو 1999 میں بھی نہیں ہوا جیسا اب کیا جا رہا ہے‘

تاہم شہزاد اکبر نے مشیرِ اطلاعات کی جانب سے ویڈیو کے فرانزک آڈٹ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے حکومتی فیصلہ مشاورت کے بعد آئے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق اس معاملے پر اب تک کوئی مشاورت نہیں ہوئی ہے مگر ہو سکتا ہے کہ منگل کو کابینہ کے اجلاس میں یا ممکنہ طور پر اس سے قبل اس حوالے سے بات ہو۔

شہزاد اکبر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کی تحقیقات خود عدلیہ کو کرنی چاہییں کیونکہ ایک عدالتی افسر کو انتظامی افسر کے سامنے پیش کروا کر تفتیش کروانا مناسب نہیں۔

’اس معاملے میں وزارتِ قانون متعلقہ وزارت ہے اور اس کا مشورہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر حکومت نے معاملے کی تحقیقات عدالت کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ بھی وزارتِ قانون کے ذریعے ہی ہو گا۔’

شہزاد اکبر کے مطابق چونکہ اسلام آباد کی احتساب عدالت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماتحت ہے، اس لیے وہ عدالت ہی اس حوالے سے تحقیقات کا متعلقہ فورم ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے تحقیقات کروانے پر جانبداری کا الزام لگ سکتا ہے۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس ویڈیو کو جعلی اور مفروضوں پر مبنی جج ارشد ملک کی پریس ریلیز آنے کے بعد کہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ویڈیو جاری کرتے وقت کہا گیا کہ آواز کہیں سے اور ویڈیو کہیں سے ریکارڈ کی گئی ہے، اور جج کا اس معاملے سے انکار کرنے کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیسے اس ویڈیو کو صحیح مانا جا سکتا ہے۔

احتساب عدالت کی پریس ریلیز

جج ارشد ملک کا بیان

اتوار کی دوپہر رجسٹرار احتساب عدالت کی جانب سے ایک پریس ریلیز کا اجرا کیا گیا جس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے سنیچر کے روز پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیوز کو جھوٹی، جعلی اور مفروضوں پر مبنی قرار دیا۔

انھوں نے اپنے اوپر عائد کیے گئے الزامات کو ’حقائق کے برعکس‘ اور ان کی اور ان کے خاندان کی ’ساکھ متاثر کرنے کی سازش‘ قرار دیا۔

’میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مجھ پر بالواسطہ یا بلا واسطہ نہ تو کوئی دباؤ تھا اور نہ ہی کوئی لالچ پیش نظر تھا۔ میں نے یہ فیصلے خدا کو حاضر و ناظر جان کر قانون و شواہد کی بنیاد پر کیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پریس کانفرنس محض میرے فیصلوں کو متنازع بنانے اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ ’اس میں ملوث افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر انھوں نے دباؤ یا رشوت کے لالچ میں فیصلہ سنانا ہوتا تو ایک مقدمے میں سزا اور دوسرے میں بری نہ کرتے۔ ’میں نے انصاف کرتے ہوئے شواہد کی بنیاد پر نواز شریف کو العزیزیہ کیس میں سزا سنائی اور فلیگ شپ کیس میں بری کر دیا۔‘

انھوں نے کہا کہ مریم صفدر کی پریس کانفرنس کے بعد یہ ضروری ہے کہ سچ منظرعام پر لایا جائے۔

’نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران مجھے ان کے نمائندوں کی طرف سے بارہا نہ صرف رشوت کی پیش کش کی گئی بلکہ تعاون نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں جن کو میں نے سختی سے رد کرتے ہوئے حق پر قائم رہنے کا عزم کیا اور اپنے جان و مال کو اللہ کے سپرد کر دیا۔‘

پریس ریلیز کے مطابق جج ارشد ملک نے کہا کہ مذکورہ ویڈیوز میں دکھائے کردار ناصر بٹ کا تعلق انھی کے شہر (راولپنڈی) سے ہے اور ان سے ان کی پرانی شناسائی ہے۔ ’ناصر بٹ اور اس کا بھائی عبداللہ بٹ عرصہ دراز سے مختلف اوقات میں مجھ سے بے شمار دفعہ مل چکے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ یہ جواب اس لیے دے رہے ہیں کیونکہ اس پریس کانفرنس کے ذریعے مجھ پر سنگین الزامات لگا کر میرے ادارے، میری ذات اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی سازش کی گئی ہے، لہذا وہ اس ضمن میں حقائق منظر عام پر لانا چاہتے ہیں۔

مریم نواز

جج ارشد ملک کی پریس ریلیز کے جواب میں مریم نواز نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’جبر و بلیک میلنگ کا شکار ہو کر اپنے ضمیر کے خلاف فیصلہ دینے والے جج صاحب! میں سمجھ سکتی ہوں کہ آج بھی فیصلے کی طرح تیار شدہ پریس ریلیز پر آپ نے مجبوری میں دستخط کیے ہوں گے، تھینک یو ویری مچ، آپ نے ویڈیو کا انکار نہ کر کے تصدیق کر دی۔‘

مریم نواز نے کیا الزامات عائد کیے تھے؟

واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے سنیچر کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ پاناما مقدمے میں نواز شریف کو جیل بھیجنے والے جج ارشد ملک پر ‘نامعلوم افراد’ کی طرف سے دباؤ تھا۔

پریس کانفرنس میں مریم نواز کا کہنا ہے کہ ‘جس جج کے فیصلے کے مطابق نوازشریف 7 سال کی سزا کاٹ رہے ہیں وہ خود ہی اپنے جھوٹے فیصلے کی خامیوں پر سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ جج نے ناصر بٹ کو بتایا کہ ‘کچھ لوگوں نے مجھے کسی جگہ پر بلایا۔ میرے سامنے چائے رکھی اور سامنے سکرین پر ایک ویڈیو چلا دی۔ وہ لوگ اٹھ کر باہر چلے گئے اور تین چار منٹ بعد واپس آئے تو ویڈیو ختم چکی تھی، انھوں نے مجھ سے پوچھا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے ناں؟ کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے۔

مریم نواز کے مطابق گفتگو کے دوران جج ناصر بٹ کو بتا رہے ہیں کہ وہ لوگ خود کشی کے علاوہ کوئی رستہ بھی نہیں چھوڑتے اور ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ بندہ اس جگہ پر ہی چلا جاتا ہے جہاں پر وہ لے کر جانا چاہتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp