ایدھی، محسن انسانیت1928۔ 2016


مجھے حیرت ہے جب اسلام کو غیر مسلم دہشتگردی سے منسوب کرتے اور اس میں تعصب بتلاتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ یہ اسلام کے حقیقی پیروکاروں سے دور اور ٹھیکیداروں کے نزدیک ہوتے ہیں۔ یہ اسلام کا وہ چہرہ نہیں دیکھ پاتے جو مسکرارہا ہے۔ میں بذات خود یہی سنتا آیا لیکن آج پچانوے فیصد دوست اور حلقہ مسلمان ہے۔ میں ان کو پڑھتا، سنتا، ان ہی کے ساتھ کھاتا پیتا اور ان ہی کے ساتھ نوکری بھی کرتا ہوں نیز گذشتہ چار سال سے یہی معمول ہے۔ آج تک ایسا فرد نہیں ملا جس نے مجھے اسلام کے بارے دوبارہ سوچنے پر مجبور کیا ہو۔

اسلامی ملک میں رہتے ہوئے مڈل کلاس طبقہ چونکہ اکثریت میں ہے اور اسی وجہ سے جو بیکن ہاؤس، دی ایجوکیٹرز جیسے نامور سکولوں میں داخلہ لینے سے بھی قاصر ہیں جہاں کوالٹی تعلیم دی جاتی ہے اور مثبت طور سکھائے جاتے ہیں۔ نصاب کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیاں اور دیگر مضامین بارے بھی سمجھایا اور فکری سوچ پر کام کیا جاتا ہے۔ لیکن جب ہم اپنے نصاب کی طرف لوٹتے ہیں تو پانچویں سے لے کر ماسٹر تک وہی پہیہ گھوم رہا ہے۔ وہی چودہ نکات ہیں۔

وہی قومی ہیرو۔ نہ کسی کو بڑھایا گیا ہے اور نہ کسی کو گھٹایا گیا ہے۔ مجھے قومی ہیروز سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ وہ حقیقی ہیں یا بناوٹی، بنے ہیں ہا بنائے گیے ہیں، انہوں نے ملک کو کیا دیا یا کیا لیا۔ اس کے بارے تو وہ بہتر بتاسکتے ہیں جو اس وقت ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے اور ان کے عادات و اطوار سے بخوبی واقف تھے۔

نئی جنریشن چونکہ ہونے پر یقین رکھتی ہے اور اس یقین کی وجہ سے خالق حقیقی کے وجود پر سوال اٹھآتی نظر آتی ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر اقبال، محمد بن قاسم اور اکثر تو قائد ملت پر بھی جملے کستے دیکھے گئے۔ اب ماضی سے کسی کو کھینچ کر تو نہیں لایا جاسکتا البتہ جو حال میں ہورہا ہے اس کے بارے گلی محلے میں بیٹھے بچے تک کو بتلایا ضرور جاسکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے آس پاس ایسے کئی لوگ ہیں جو معاشرے کے حقیقی لیڈر اور ہیروز ہیں۔ ضروری نہیں ان کا سیاست سے کوئی تعلق ہو یا انہوں نے تلوار یا بندوق پکڑ کر کوئی قبیلہ بچایا ہو۔

ہمارے تعلیمی نصاب اپنے کھوکھلے نظام کی طرح نصاب بھی کھوکھلا بنا رہا ہے جس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ کچھ افراد کی جیب تو کُھلی ہوجاتی ہے لیکن دماغی طور پر وہ لاشعور ہی رہتا ہے۔ جب اقبال کو نصاب میں پڑھتے ہیں تو اور تصویر نظر آتی ہے اور جب دیگر کتب اور تجزیہ کاروں سے سنتے ہیں تو بوکھلا جاتے ہیں

جبکہ ہمارے حال کے ہیروز جیسے ایدھی صاحب، منیبہ مازاری، جو بچوں کی فلاح کے لئے زندگی وقف کردیتے ہیں ان کا نصاب میں کوئی نام نہیں۔ کسی سڑک یا چوک کو ان کے نام سے منسوب کردینا کوئی شاہکار نہیں ہے۔ چوک میں کھڑا ہوکرکوئی یہ سوچے گا بھی نہیں کہ یہ کون تھے یا ہیں؟

تعلیمی نصاب بنانے والے کو چاہیے کہ ایدھی کی زندگی بارے اور ان کی اس قوم کے لئے خدمات کو قلمبند کریں، قائداعظم، علامہ اقبال کے بعد ایدھی بارے بتایا جائے۔ یہی وہ ہیروز یں اسلام کا حقیقی چہرہ ہیں اور حقیقی معنوں میں اسلام کو اجاگر کرنے والے ہیں۔ انہوں نے ہی اسلام کو عام فرد تک منبر پر بیٹھے بغیر پہنچایا اور بتلایا کہ مذہب کا ہونا کیا ہے۔ مذہب کس طرح انسانیت کا ذمہ دار ہے۔ حکومت پاکستان سے گذارش ہے کہ ہمارے نصاب کو اپڈیٹ کریں اور ان میں وہ ہیروز شامل کریں جو ہمارے ہوتے ہوئے ہمارے سامنے انسانیت سمجھا گئے۔ ایدھی چونکہ ہمارے بیچ ہی رہے، ہم نے ان کو دیکھا اور ان کو محسن انسانیت پایا لہذا ان پر کسی بھی طرح انگلی اٹھتی آج تک نظر آئی۔ آٹھ جولائی ان کی وفات کا دن ہے۔ آواز بنیں اور ایدھی کو قلمبند کریں۔

شارون شہزاد
Latest posts by شارون شہزاد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).