امریکہ نے کیسے ترقی کی؟


امریکہ کے دو بر اعظموں کی دریافت۔ اسی صورتحال کے تناظر میں یورپ کے بادشاہ اور ملکہ اپنی طاقت میں اضافے کے لئے نئی علاقے دریافت کرنا چاہتے تھے۔ کچھ افریقہ کی طرف گئے تا کہ وہاں سے انڈیا کا راستہ تلاش کیا جاسکے، جبکہ سپین میں رہنے والا کرسٹوفر لولمبس ایشیا کے ساتھ تجارت کا نیا راستہ ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ کولمبس مغرب کی طرف سے مشرق کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں تھا۔ سمندری سفر کے ماہرکولمبس کا تعلق اٹلی سے تھا۔

اس تلاش مہم کے اخراجات شاہی طور پر اٹھائے جانے کی پانچ سال کی کوشش کے بعدسپین کی ملکہ ایزابیلا نے اس کے منصوبے کو قبول کیا۔ اس نے تین جہازوں کا خرچہ برداشت کیا۔ کولمبس کی اس مہم کے لئے آدمی میسر نہ تھے، لہذا پہلے پہل 87 آدمی تیار کیے گئے جن میں ان پڑھ، جرائم پیشہ، قاتل شامل تھے جو سزائے موت کی جگہ سمندر کا سفر اختیار کرنے پر رضامند ہوئے۔ ان میں کئی سابق فوجی اورسور پالنے والے بھی شامل تھے۔ 12 اکتوبر 1492 کو کولمبس براعظم امریکہ کی سرزمین تک پہنچا۔

تینوں جہاز تین ماہ تک وہاں لنگر انداز رہے اور وہ علاقے کی چھان بین کرتے رہے۔ یہ انڈیا نہیں بلکہ کریبین کے ساحل تھے، سپین کے لئے انہوں نے نئی زمین دریافت کر لی تھی، لباس اور لوہے کے ہتھیاروں والے انسان مقامی افراد کے لئے حیران کن تھے۔ کولمبس جہاں پہنچا، اس کے بائیں طرف براعظم جنوبی امریکہ ( برازیل، ارجنٹینا، پیرا گوئے، یوروگوئے پیرو، ایکوڈور، کولمبیا، وینز ویلا وغیرہ) اور دائین طرف شمالی امریکہ ( کینڈا، امریکہ) موجودہ امریکہ کے تین حصے، مغرب، جس میں واشنگٹن، کیلیفورنیا سمیت 12 ریاستیں، مڈ ویسٹ اور شمال مشرق میں 16 ریاستیں اور جنوب میں 16، ۔

کولمبس کی سربراہی میں 1942 کے موسم گرما میں 69 دن کے سفر کے بعد تین بحری جہاز امریکہ پہنچے۔ یورپی ملکوں کی طرف سے آباد کار امریکہ پہنچے لگے، وہ دریافت کے ساتھ ساتھ مقامی پسماندہ انسانی آبادیوں کا صفایہ بھی کرتے گئے۔ مقامی قدرتی وسائل ڈھونڈے۔ اس سے امریکہ ایک نئے روپ میں سامنے آنے لگا۔ یہ صرف پانچ سو سال پہلے کی بات ہے، جب امریکی علاقوں میں پسماندہ انسان تو بستے تھے لیکن دنیا کے دیگر خطوں کی ترقی کے مقابلے میں وہاں کچھ نہیں تھا۔

قدرتی ماحول تھا، جانوروں، آبی حیات کی ایسی قسمیں، جو دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتی تھیں، چھ لاکھ میل پر محیط صاف پانی والاسمندری ساحل، یہاں سے آگے ہر سمت گھنے جنگلات۔ شمالی امریکہ کے لاکھوں کی تعداد میں رینڈئیر کے غول، اینٹی لوک، بائسن، اور گرزلی، ریچھ، مرغابیوں سمیت ہزاروں قسموں کے لا کھوں پرندے۔ امریکہ میں کئی ایسی کئی قدیم تہذیبوں کے نشانات بھی ملے ہیں جہاں لوگ اچھے، بڑی اور مضبوط عمارات اور شہروں کی شکل میں رہتے تھے۔

1491 میں امریکہ میں انسانی تہذیب کی پانچ چھ قسم کی آبادیاں تھیں۔ دس کروڑ (ون ہنڈرڈ ملین) کی آبادی تھی، ان میں شکاری، گاؤں، مچھیرے، کاشت کار، بادشاہ، غلام اور فوجی شامل تھے۔ امریکہ میں میں مکئی کی کاشت چھ ہزار سال سے کی جاتی ہے۔ دنیا کی ایک قدیم اور مشہور منظم ’انکا‘ تہذیب بھی امریکہ کے پہاڑوں میں ہی واقع ہے۔

یورپ میں امریکہ کی کشش اور یورپئینز کی آمد۔ 1493 میں سپینش ملکہ کو کولمبس کے خط سے اس نئی دریافت کا علم ہوا۔ کولمبس نے لکھا کہ اس نے جنت جیسی جگہ کا دریافت کی ہے جو سپین کے لئے خدا کے نام پر عیسائیت کے لئے فتح کی گئی۔ وہاں کئی معدنیات اور سونے کی موجودگی کی بھی اطلاع دی گئی۔ تاجروں، فوجیوں اور مذہبی مسافروں کے ذریعے ہفتوں، مہینوں میں کولمبس کی نئی دریافت اور شاندار ذرائع کی اطلاعات یورپ میں پھیل گئیں۔

کولمبس کا ملکہ کے نام خط کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے اور وسیع پیمانے پر اس کی فروخت ہوئی۔ اب کئی یورپی ملک اس نئے دریافت کے خزانے سے اپنا حصہ چاہتے تھے۔ چند ماہ بعد سپین کے بے زمین، بے کار لوگ اور سور پالنے والے ہزاروں کی تعداد میں کولمبس کے دریافت کردہ علاقے کی طرف جانے لگے۔ پہلے 17 بحری جہازوں پر 12 سو اسپین کے باشندے کریبین کے ساحل پر پہنچے، اور نئی دریافتوں کی تلاش میں مختلف اطراف کی طرف چل پڑے، یہ امریکہ کو فتح کرنے کی مہم تھی، ان کے پاس ہتھیار وں کے علاوہ گھوڑے تھے جو امریکہ میں وجود نہیں رکھتے تھے، گھوڑوں کی وجہ سے ہی سپین کے لوگوں نے چند ہی عشروں میں امریکہ کے تمام علاقے چھان ڈالے۔

سپینی لوگوں کے لائے گھوڑے امریکہ کے نئے ماحول میں تیزی سے پروان چڑہنے لگے۔ سپینی لوگوں کے چند گھوڑے جنگلی ہو گئے اور ان کی آبادی تیزی سے بڑہنے لگی۔ ان کے ملاپ سے گھوڑوں کی نئی نسل تیار ہوئی اورشمالی امریکہ میں ان جنگلی گھوڑوں افرائش کو راس آیا۔ تین سو سال میں وہ وسطی امریکہ کے میدانوں اور چٹانی پہاڑی علاقوں میں بھی پہنچ گئے۔ 18 ویں صدی کے اختتام تک وہ کینڈا تک پہنچ گئے۔ 150 سال میں ان جنگلی گھوڑوں کی تعداد شمالی امریکہ میں 70 لاکھ سے زیادہ ہو گئی۔ امریکہ کے مقامی قبائل کے لئے یہ جنگلی گھوڑے ایک بڑی نعت ثابت ہوئے اور وہ لڑائیوں، شکار اور سفر کے لئے ان گھوڑوں کا استعمال کرنے لگے۔ یہ گھوڑے ان قبائل کی مقامی ثقافت کا حصہ بن گئے۔

جب سپینی گروہ جنوبی اوروسطی امریکہ کو فتح کر رہے تھے، ان میں سے ایک سپینی گروہ نے شمال کا رخ کیا۔ فرنانڈو ڈیسوٹو کی سربراہی میں ایک سپنی گروہ نے فلوریڈا سے میسپی دریا کے اوپر کے حصے کی طرف کشتیوں میں سفر شروع کیا۔ وہ سونے کی تلاش میں تھے۔ وہ اپنے ساتھ خوراک کے لئے سور لائے تھے جو اس علاقے میں تیزی سے اپنی آبادی مین اضافہ کرنے لگے۔ انہوں نے جنگلوں میں سفر کیا، ان سوروں کی وجہ سے ہی وہ زندہ رہے۔ بعد میں آنے والوں کو بھی ان سوروں سے خوراک حاصل ہوئی۔

تاہم شمالی امریکہ کے مقامی قبائل کے لئے یہ سور اچھے ثابت نہ ہوئے۔ وہ ان کی کاشت کیے گئے مکئی کے دانے کھیتوں سے کھا جاتے تھے۔ مقامی ماحول میں سور بڑے اور خطرناک ہو گئے اور مقامی قبائل کے لئے خوف کا باعث بنے۔ کولمبس اپنے دوسرے سفر میں گھوڑوں کے علاوہ پنے ساتھ 8 سور لایا تھا۔ 20 سال میں صرف کیوبا میں 30 ہزار سور ہو گئے۔ ایموزون اور شمالی امریکہ میں سوروں کی تعداد تیزی سے بڑہتی گئی۔ امریکہ کی فتح میں گھوڑوں اور سور کے علاوہ عیسائی مبلغین نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5