امریکہ نے کیسے ترقی کی؟


امریکی کون ہیں اور امریکہ کیا ہے؟ دنیا کی ناقابل چیلنج سپر پاورامریکہ اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی 70 سالہ تاریخ کے تناظر میں ہر پاکستانی امریکہ میں مختلف حوالوں سے دلچسپی رکھتا ہے لیکن پاکستان میں امریکہ کے بارے میں معلومات نامکمل اور محدود ہیں۔ امریکہ کو سمجھنے کے لئے اس کی تاریخ کے مختلف ادوار کو دیکھنا پڑتا ہے۔ پہلا دور امریکہ کی دریافت کے بعد یورپی آباد کاروں کی آمد کا دور ہے، اس کے بعد کالونیوں کی تشکیل، مقامی حکومتوں کا قیام، برٹش راج سے آزادی کا اعلان اور برٹش فوج سے 18 سال کی جنگ کے بعد امن کا معاہدہ اور آزادی، اس کے تقریبا چھ عشرے بعد چار سال کی ہولناک سول وارکے بعد مزید دس سال قتل و غارت گری کی لہر اور اس کے بعد امریکہ میں انسانی آزادی اور آزادی اظہار کی عزم کے ساتھ تعمیر نو کے نئے دور کا آغاز۔ ان تمام مراحل کا جائزہ لینے سے ہی امریکی باشندوں اور ان کے فکر و عمل کو سمجھے میں مدد مل سکتی ہے۔ دنیا پر حکومت کرنے والے امریکیوں کے بارے میں جاننے کے لئے امریکہ کی گزشتہ پانچ صدیوں کی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہو جاتا ہے۔

امریکہ کی دریافت او دریافت کے محرکات۔ 16 ویں صدی سے 18 صدی تک امریکہ میں رہنے والوں نے ترقی کے اہداف کس طرح حاصل کرنا شروع کیے، اس کی ابتدا 1493 میں کرسٹوفر کولمبس کی دو بر اعظموں پر مشتمل امریکہ کی دریافت سے ہوتی ہے۔ امریکہ میں سپین، انگلینڈ اور دوسرے یورپی ملکوں کے لوگ آئے۔ ان کے ملاپ سے پیدا ہونے والی نسلیں انسانی ارتقائی ترقی کے حوالے سے بہترین ثابت ہوئیں۔ وہ اپنے ساتھ دنیا کے بہترین ہتھیار، اوزار اور مختلف اقسام کے جانور اور کاشت کاری کے بہتر طریقے، نئی فصلوں، پھولوں کی بیج لے کر آئے اور انہوں نے اپنی محنت اور افریقی غلاموں کی مدد سے ایک امریکہ کی تعمیر شروع کی۔

اس وقت امریکہ میں پانچ، چھ اقسام کے قبائل آباد تھے۔ امریکہ کی انسانی تہذیب یورپ کے مقابلے میں بہت پسماندہ تھی۔ ان کے پاس اچھے اوزار نہ تھے، امریکہ کے مختلف علاقوں میں مکئی، ٹماٹر، آلو کی کھیتی اگائی جاتی تھی اور خواراک کے لئے تیر کمان سے جنگلی جانوروں کا شکار کیا جاتاتھا۔ امریکہ سے سب سے پہلے تمباکو یورپ پہنچا۔ ٹماٹر، آلو اور مکئی بھی امریکہ سے ہی یورپ لائے گئے۔ جبکہ یورپ سے گھوڑے، بیل، سور، مرغیاں، امریکہ لائے گئے اور وہ امریکہ میں تیزی سے پھیلتے چلے گئے۔

یورپ کے لئے مشرق کے ساتھ تجارت نہایت اہم تھی۔ مشرق سے یورپ کے لئے مصالحے، سونا، جم سٹون اور سلک قیمتی اشیا تھیں۔ ترکوں کی وجہ سے یورپ کا مشرقی تجارتی روٹ شدید متاثر ہوا جس سے یورپ کی بیرونی تجارت بہت کم رہ گئی۔ یورپ کی بادشاہوں کے خزانے خطرے میں پڑ گئے۔ سپین کی ملکہ ایزابیلا شدت سے ہندوستان کے لئے نئے سمندری تجارتی روٹ کی تلاش میں تھی۔ ایزابیلا یورپ میں سب سے مضبوط حکمران تھی۔ یورپ کے حکمرانوں نے پانچ سو سال بڑے بڑے محلات، قلعے، بڑی عمارات اور تجارتی مراکز تعمیر کیے۔ یورپ کے بادشاہ اور پوپ ( عیسائی مذہبی پیشوا) نے جنگوں کے لئے اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ طاقت کی پیاس نے یورپی ملکوں کو اپنی حدود سے باہرنکلنے پر آمادہ کیا۔

1491 میں یورپ ایک مصروف اور گنجان آباد بر اعظم تھا جس کی آبادی دس کروڑ (ون ہنڈرڈ ملین) تھی۔ آبادی کے لئے خوراک کی ضرورت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ قدرتی وسائل کے ذرائع محدود ہوتے جار ہے تھے، جگہ کم پڑتی جا رہی تھی، زیادہ لوگ بادشاہ، امرائی، یا چرچ کی زمینوں پر کاشت کاری کرتے تھے۔ ان کی عمومی خوراک ڈبل روٹی اور پورج تھے۔ تین موسموں میں تین مختلف قسموں کی فصلیں اگاتے۔ انہوں نے ہوا اور پانی کی طاقت کا استعمال سیکھ لیا تھا۔

اس زرعی انقلاب سے یورپی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا۔ اس ترقی میں پالتو جانوروں کا بھی اہم اور بنیادی کردار ہے جن میں گھوڑے، گائے، بیل، جس سے دودھ، چمڑا اور گوشت حاصل ہوتا، سور گوشت اور چمڑے کا بڑا ذریعہ تھا، اور بھیڑیں، اور گدھے۔ گائے کے دودھ سے مکھن اور پنیر بھی بنایا جاتا۔ اس وقت یورپ میں زراعت کے اچھے اوزار استعمال ہو رہے تھے۔ مچھلیاں بھی یورپ میں خوراک کا ایک بڑا ذریعہ تھیں۔ یورپ کے غالب ترین مذہب عیسائیت نے 1491 میں مچھلی کھانے کی باقاعدہ اجازت دی تاہم سال میں ایک سو خصوص دنوں میں مچھلی کھانے پر پابندی تھی۔ مچھلی کا وسیع پیمانے پر شکار ہو رہا تھا، سمندروں مین بھی مچھلی کا شکار شروع ہو گیا اور سال بہ سال پکڑی جانے والی مچھلی کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 13 ویں صدی میں ہزاروں ٹن خشک مچھلی ناروے سے برطانیہ بھیجی جاتی تھی۔ 1491 میں یورپی جھیلیں، دریا گندے اور مچھلیوں سے خالی ہو رہے تھے۔

1491 میں یورپ میں درختوں کی کٹائی تیزی سے جاری تھی جس سے جنگلات کا صفایہ ہوتا جارہا تھا، تیزی سے بڑہتی آبادی کے لئے مزید جگہوں اور کاشت کاری کی ضرورت تھی، ان کے پاس کٹائی اور درختوں کی ڈھلائی کے لئے اچھے اوزار اور وسائل میسر تھے لیکن جگہ کی قلت بڑہتی جا رہی تھی، لکڑی کی ضرورت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، اسی وقت لڑائیوں، جنگوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا، جنگوں کے ہتھیاروں کی تیاری کے لئے بھٹیاں دن رات جلتی رہتی تھیں، اسی دور میں بڑی اور مضبوط عمارات کی تعمیر کے لئے لکڑی کے ساتھ پتھروں کا استعمال بھی ہو رہا تھا۔

اس دور میں جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین اور انگلینڈمیں تمام اقتصادی و معاشرتی سرگرمیوں کا محور جنگلات ہی تھے، لکڑی کے حصول کی اس کشمکش میں پیسوں والوں نے اپنے قوانین بنائے اور پیسہ شہروں میں تھا، ان سب میں امیر ترین شہر وینس تھا، جو تمام کا تما م لکڑی سے بنایا گیا، دلدلی اور پانی کی جگہوں پرپتھروں کی عمارات کی بنیادیں لکڑی سے قائم کی گئیں، اس کے علاوہ بحری تجارت کو بہت اہمیت حاصل تھی، بحری جہازوں کی وسیع پیمانے پر تیاری کے لئے بھی لکڑی کا بہت استعمال ہوا، اس صورتحال میں جنگلات میں لکڑی اور دریاؤں میں مچھلی کم سے کم ہوتی گئی، اسی دور میں پرٹنگ پریس کی ایجاد سے کتابیں عام ہوئیں اور آئیڈیازلوگوں میں پھیلنے لگے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5