جج ارشد ملک کے دستخط اصلی ہیں یا جعلی؟


کج بحثی کی انتہا ہے کہ ہمارے زیر بحث اکثر و بیشتر وہ موضوعات ہوتے ہیں جن پر سالوں بھی بحث کریں تو نتیجہ پانی میں مدھانی گھمانے جیسا ہی نکلے گا۔ جیسا کہ جج ارشد ملک کے دستخطوں کے اصلی یا جعلی ہونے کی بحث۔

دو روز سے یہ طے نہیں ہو رہا کہ نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرینس میں نیب عدالت کے فیصلے اور جج ارشد ملک کی حالیہ تردید پریس ریلیز پر ہوئے دستخط ایک جیسے ہیں یا مختلف۔ اگر ایک جیسے ہوں تو کیا فرق پڑ جائے گا اور اگر کوئی ایک یا دونوں جعلی ہوں تو کون سا بھونچال آئے گا؟ فیصلہ جاری بھی ہو چکا اوراس پر عملدرآمد بھی جاری ہے۔ پریس ریلیز جاری بھی ہوئی اور اس کی تشہیر و اشاعت بھی ہو چکی۔ دستخط خود کیے یا کسی اور نے، کیا فرق پڑتا ہے؟ فیصلے اور پریس ریلیز دونوں کی ذمہ داری تو جج ارشد ملک نے لی ہے۔

موضوع بحث تو یہ ہونا چاہیے کہ جج کیجانب سے ویڈیو سکینڈل کے تردیدی بیان نما پریس ریلیز کی آئینی و قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا جج کا کوڈ آف کنڈکٹ اجازت دیتا ہے کہ یوں ایک پریس ریلیز جاری کی جائے؟ اور وہ بھی اتوار کے دن جب تمام تر سرکاری دفاتر اور عدالتیں بند ہوں۔ کیا جج اور سیاستدان کے چلن میں میں فرق ہونا چاہیے یا دونوں یکساں انداز میں عمل اور ردعل کا حق محفوظ رکھتے ہیں؟ پریس ریلیز کے اندر انکار میں چھپے اقرار اور تردید کے انداز میں تصدیق پر بحث ہونی چاہیے تھے ی۔ سوال تو یہ اٹھنا چاہیے کہ جب جج خود اقرار کر رہا ہے کہ فیصلے سے پہلے شریف فیملی نے رشوت کی پیش کش کی اور دھمکیاں دیں۔ اس وقت جج صاحب کی قوت ایمانی نے جوش کیوں نہ مارا؟ مقتدر حلقوں کو آگاہ کیوں نہ کیا گیا؟

لیکن ہم نے تو یہ فیصلہ کرنا ہے اس کے دستخط اصلی ہیں یا جعلی۔ تو چلیں جناب یہ فیصلہ بھی کر لیتے ہیں۔

دستیاب شواہد کے تحت میرا ماننا ہے کہ دونوں دستاویزات پر دستخط سو فیصد اصلی ہیں اور جج ارشد ملک نے خود کیے ہیں۔ ہاں یہ الگ معاملہ ہے کہ یہ دستخط کسی دباؤ کے تحت ثبت ہوئے یا اپنی رضا و رغبت اور بلا جبر غیرے کیے گئے۔

عام طور پر عدالت سے جب کسی فیصلے کی کاپی یا کوئی ایسی دستاویز جاری کی جائے جس پر کسی جج کے دستخط ہوں تو متعلقہ کلرک کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دستخطوں کو مٹا کر دے تاکہ کسی قسم کی جعل سازی کا احتمال نہ رہے۔ یہ قاعدہ اور پروٹوکول بعض دیگر اداروں میں بھی رائج ہے تاہم اس پر ہرجگہ اور ہر وقت اس کی روح کی مطابق عمل نہیں ہوتا۔ ارشد ملک کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

نواز شریف کے خلاف نیب عدالت کے فیصلے کی نقل جاری کرتے ہوئے اگرچہ کلرک نے دستخط کو مٹانے کی کوششش کی ہے۔ تاہم دستخط چونکہ سیاہی سے کیا گیا اور مٹانے کی کوشش نیلی روشنائی سے ہوئی تو دونوں کے اختلاط سے ایک نیا دستخط وجود میں آیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل سکین شدہ فوٹو میں پہلی نظر میں یہ فرق نظر نہیں آتا تاہم اگر غور سے دیکھا جائے تو کالے اور نیلے رنگ کی لکیروں کا فرق نمایاں ہے

اب اگر پریس ریلیز پر موجود دستخط اور فیصلے پر موجود کالے قلم سے ہوئے دستخط کو موازنہ کریں اور نیلی روشنائی سے لگی لکیروں کو نظر انداز کریں تو یکسانیت اور فرق کا فیصلہ با آسانی ہو سکتا ہے۔

البتہ اسے کے باوجود بھی اگر آپ نے کج بحثی میں الجھے رہنا ہے تو پھر میں تو کیا کوئی بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ٹھیک ایسے ہی جیسے دریا پار کھڑے ہو کر بے ہودہ اشارے کرنے والے کسی شخص کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔

حالانکہ بحث کرنے کو اسی معاملے کے کئی اور پہلو موجود ہیں جن پر بھرپور علمی و عقلی دلائل کے ساتھ عالمانہ، دانشورانہ، صحافیانہ اور جاہلانہ ہر طرح کی بحث کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).