ٹی وی چینل کل اور آج


ڈیڑھ دوعشرے کی بات ہے جب سے کیبل اور اس سے نشر ہونے والے نجی ٹی وی چینلوں کی یلغار ہوئی ہے ورنہ پہلے تو اکلوتے لاڈلے پی ٹی وی کی حکمرانی تھی۔ اس کا معروف نو بجے کا خبر نامہ دراصل وزیر نامہ ہوتا تھا جس میں راوی ملک کے طول و عرض میں چین ہی چین لکھتا تھا۔ یوں لگتا کہ ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہ رہی ہیں۔ اشیائے خوردنوش بالکل مفت یا نہایت ہی ارزاں قیمتوں پر وافر مقدار میں ملنے کا تاثر دیا جاتا۔ وزیر نامے میں حزب اختلاف کی گنجائش نہیں تھی۔

قائد حزب اختلاف کی جھلک ٹی وی پر دیکھنے کو نظر ترستی۔ پردہ اسکرین پر ہمہ وقت صدر اور وزیراعظم براجمان نظر آتے۔ آٹھ اور نو کے درمیان نشر ہونے والے ڈرامے بہت مقبول تھے۔ کئی ڈراموں نے عالمگیر شہرت بھی حاصل کی۔ صبح کی مختصر نشریات بھی شوق سے دیکھی جاتیں۔ جنرل پرویز مشرف اگرچہ آمر سہی لیکن انھوں نے نجی ٹی وی چینلز کی حوصلہ افزائی کی۔ اب آپ ٹی وی چلائیں تو گونا گوں چینل نظر آئیں گے۔

دودرجن سے زیادہ چینل خبروں، افواہوں، حکمرانوں اور حب حکمرانی سے سر شار سیاست دانوں کے درمیان کحج بحشی کے لیے مخصوص ہیں۔ کسی چینل کا دل موجودہ حکومت کے لیے دھڑکتا ہے۔ کسی کا جی آئندہ آنے والی حکومت کے لیے للچاتاہے۔ کوئی جدت پسند ہے تو کوئی قدامت پسند۔ ہر چینل پر کچھ مخصوص میزبانوں اور ان کے حامی تجزیہ نگاروں کا غلبہ ہے جو اپنی جانبدار رائے کو حتمی گردانتے ہیں۔

چند چینل تفریحی کہلاتے ہیں جو زیادہ تر ڈراموں اور موسیقی کے لیے مخصوص ہیں۔ ان کے ڈراموں میں ہمیں بالائی طبقے کی چھاپ نظرآتی ہے۔ اس طبقے کی جو چھری کانٹے سے مکھن توس اور برگر پیزا کھاتا ہے۔ درآمد شدہ گاڑیوں میں گھومتا اور پر آسائش بنگلوں میں رہائش پزیر ہے۔ ان لوگوں کا واحد مسئلہ غیر ازدواجی تعلقات ہیں اور یہی مسئلہ اکژڈراموں کی زینت بنتا ہے۔ شومئی قسمت کہ غربا۔ اور متوسط طبقے کو ڈراموں میں بھی جگہ نہیں ملتی۔ ان چینلوں کی صبح والی نشریات دیکھنا کسی ذہنی اذیت سے کم نہیں، میزبان ایسی ایسی شخصیات کو مدعو کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ موسیقی کے چینلز پر بدیسی گلوکاروں اورر قاصاوں کا غلبہ ہے۔ بے سرے گلوکار اور بے ہنگم رقاص۔

چند چینل جلد موت کا سامان بانٹتے نظر آتے ہیں۔ میرا اشارہ تراکیبِ طعام بتانے والے چینلز کی طرف ہے کہ بیسار خوری بھی مہلک بیماریوں کا موجب بن چکی۔ ان چینلز کے طباخ یا تو لحیم شحیم مرد ہوتے ہیں یا عمر رسیدہ خواتین۔ ایک دفعہ ایک چینل پر ایسے طویل الجثہ طباخ نظر آئے جن کا شکم دیگ، چہرہ تھال اوربا زو کفگیر کی طرح کے تھے۔ ٹانگیں اس لیے نظر نہ آسکیں کیونکہ وہ چبوترے کے پیچھے تھے۔

علاقائی زبانوں کے چینل ابھی ترقی پزیر ہیں اور اوسظ درجے کے حامل۔ کھیلوں کے چینل زیادہ تر قومی بخار یعنی کرکٹ اور مقامی کشتیوں کے مقابلے نشر کرتے ہیں۔ کرکٹ کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن مقامی کشتیوں کا ملاحظہ کرنا سوہان روح کے مترادف ہے۔ جانوروں کے چینل اگرچہ کم ہیں لیکن اکژ اوقات انسانوں کے چینلوں سے زیادہ بھلے محسوس ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).