اسلام اور آزادی


’آزادی‘ کا شمار آج کل کی بے شمار مصطلحات میں سے ہے جن کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے لیکن اس کے حقیقی معنی و مفہوم، حدود اور ابعاد سے عمومی طورپر واقفیت نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے اس مصطلح (term) کا استعمال بھی صحیح نہیں ہوتا۔ آزادی خدائی نعمت ہے جو خالق کی جانب سے ہر انسان کو عطا کی گئی ہے، دنیا میں آنے کے بعد انسان اپنے اختیارات، ترجیحات، سوچ، پسند و ناپسند میں مکمل طور پر آزاد ہوتا ہے، اس آزادی کو سلب کرنے کا کسی حق نہیں۔

اسلام زندگی میں منتظم) (regulatorکا کردار ادا کرتا ہے، آزادی کے متعلق بھی اسلام نے اصول وحدود متعین کیے ہیں جس کا مقصد ایک طرف انسانی معاشرے میں توزان برقرار رکھنا اور بے راہ روی سے روکنا ہے اور دوسری طرف (شخصی آزادی کو محدود کرکے ) انسان کا امتحان لیا جاتا ہے کہ وہ رضا الہی کے لیے ذاتی خواہشات کو ترک کرتا ہے یا نہیں، اسی معیار کے مطابق انسان کی حتمی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ ہوگا۔

اسلام شخصی آزادی کے کئی جوانب کو اہمیت دیتا ہے، اسلام خود کو بزور قوت زبردستی انسان پر لاگو نہیں کرتا، اسلام اپنے پیروکاروں کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں، اختیار مذہب میں انسان آزاد ہے، تاہم جب ایک دفعہ انسان ’مسلمان‘ بن جاتا ہے تو اس آزادی کو محدود کردیا جاتا ہے۔ ریاست میں اسلام فرد کو ملکیت، تجارت، تنظیم کی آزادی دیتا ہے۔ حاکم و محکوم کے تعلق میں اسلام نے فرد کو کافی حدتک آزادی دی ہے، اسلام کی نظر میں حاکم کوعوام الناس سے برتر نہیں سمجھا جاتا، حاکم عام مسلمانوں کے ہی برابر ہوتا ہے، اسلام قیصر و کسری کے شاہانہ عادات کا مخالف ہے جس میں حاکم کو خدا سمجھا جاتا ہے، اسلام حاکم پر تنقید کرنے کی، اس کو راہ راست پر لانے اور غلط اقدامات سے روکنے کے لیے تمام پر امن راستوں کی اجازت دیتا ہے، بلکہ اسلام نے حاکم کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے پر مارے جانے والے کو سب سے بہترین شہید قرار دیا ہے۔

اسلام کی بنیاد اور اساس توحید ہے، توحید کا بنیادی فلسفہ ہی اللہ کے علاوہ تمام مخلوقات، معبودات، عادات اور رکاوٹوں سے آزادی ہے۔ ربعی بن عامر ؓ نے رستم کے دربار میں کفار کے سامنے اسلام کے نمائندے کی حیثیت سے اسلام کی جو تعریف بیان کی اس سے آزادی کی اہمیت و مرکزیت کا اندازہ ہوتا ہے، ربعیؓ نے کہا کہ اسلام انسانوں کو انسانوں کی ماتحتی سے نکال کر اللہ کی ماتحتی میں دینے کے لیے آیا ہے۔

ان حقائق کے باوجود اسلام مکمل اور مادر پدر آزادی کا داعی و حامی نہیں ہے، اسلامی تشریعات کئی مقامات پر انسانی آزادی کے راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ اسلام ”میری مرضی“ کے فلسفے کو نہیں مانتا، کیونکہ اس فلسفی کی انتہا حیوانیت ہے، مکمل آزادی حیوان کو حاصل ہوتی ہے کہ جو چاہے اور جس طریقے سے چاہے کرے۔ اسلام یقینا (مسلمان) انسانوں کو بعض امور کا حکم دیتا ہے اور ان پر فرض کرتا ہے جو انسان کی طبیرت کے خلاف ہوتے ہیں، اور ایسے امور سے روکتا ہے اور کرنے پر سخت سزائیں متعین کرتا ہے جن کاتعلق انسانی خواہشات سے ہوتا ہے۔

انہی پابندیوں کی وجہ سے انبیا ء علیہم السلام کی دعوت قبول کرنے میں ان کی اقوام کو مشکل ہوتی تھی (جیسا کے آج کل ہمیں مولوی کی بات ماننے میں مشکل ہوتی ہے ) ۔ شعیب ؑ نے جب اپنی قوم کو تجارتی معاملات میں دھوکہ دینے سے منع کیا تو ان کی قوم نے کہا کہ شعیب کیا تمہاری نمازیں تمہیں اس بات کا حکم دیتی ہیں کہ ہم اپنے اموال میں اپنی مرضی سے تصرف نہ کریں؟ قابل غور بات ہے کہ اس زمانے میں احکام الہی کو رد کرنے میں ”اپنی مرضی“ کی حجت کو استعمال کیا گیا اور آج بھی یہی حجت دی جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حکم الہی اور انسان کی مرضی اصل پیمانہ امتحان ہے جس سے انسانی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے اور انہی ترجیحات کی بنیاد پر انسان کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس امر کا دوسرا اور اہم پہلو یہ ہے کہ احکام الہی وقتی اور ظاہری فائدے نہیں بلکہ حتمی نتیجہ کے مطابق ہوتے ہیں، مثال کے طور پر اگر اسلامی تشریعات کے ذریعے انسانی آزادی کو محدود نہ کیا جائے تو وقتی طور پر تو انسان لطف اندوز ہوں گے، لیکن یہ مکمل آزادی انسانی معاشرے کے لیے حتمی طور پر تباہ کن ہوگی، مغربی آزادی کے نتیجے میں وہاں پھیلنے والی برائیاں اس کی زندہ مثال ہے۔

ُٓاپنی آزادی سے محبت اور اس کا تحفظ انسانی فطرت کے عین موافق ہے، لیکن اس کے ساتھ بطور مسلمان ان اسلامی حدود کو ذہن نشین کرنا بھی ضروری ہے، ہمارے معاشرے میں ایک بڑا طبقہ علماء اوروعاظ سے اس لیے متنفر ہوتا ہے کیونکہ وہ ان احکامات الہیہ کو نقل کرتے ہیں جن سے انسان کی خواہشانہ آزادی پر قد غن لگتی ہے، اس معاملے میں علماء سے متنفر ہونا درست نہیں کیونکہ وہ بیچارے خود بھی انہی پابندیوں کا شکار ہوتے ہیں جن کو وہ نقل کرتے ہیں۔

آزادی ایک اہم قدر (value) ہے، بطور مسلمان ہمارے لیے آزادی کی اسلامی حدود کی پابندی کرنا ضروری ہے، ہاں جو مسلمان نہیں وہ واقعی اس دنیا میں اپنی مرضی کا مالک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).