کتاب سے دوری، ایک المیہ


قدیم یونان کی ایک شہری ریاست، کا نام اس کے اساطیری بانی نے اپنی بیوی کے نام پر ”سپارٹا“ رکھا تھا، سپارٹا کو تاریخِ عالم میں اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ اس کے شہری بڑے جری، بہادر اور سپاہیانہ زندگی کے شیدائی تھے، یہی وجہ ہے کہ سپارٹا کے باشندوں کا ذکر تاریخِ عالم میں ایک جنگجو قوم کے طور پر ملتا ہے،

یہ ایک قدرتی چیز ہے کہ عمومی طور پر جس سوسائٹی کا جو مزاج ہوتا ہے اس کے باشندوں پر بھی اسی مزاج کا رنگ چڑھتا ہے، جس طرف ریاست کے اربابِ اختیار کا رجحان ہوتا ہے اسی طرف عوام بھی مائل ہوتے چلے جاتے ہیں، اس کی زندہ مثال پاکستان بلکہ پورے ایشیا میں کرکٹ ہے، پاکستان کے صدور، وزراء اور افواج سب ہی اس کھیل کے دلدادہ اور شوقین ہیں، اور تقریباً یہی حال دیگر ایشیائی ممالک کا بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے نوجوان آپ کو سڑکوں، راستوں اور پارکوں میں کرکٹ کھیلتے نظر آئیں گے، یہاں کے باشندے کرکٹ کے لئے، کھانا پینا، ضروری کام اور پڑھائی تک کو چھوڑ دیتے ہیں، اور یہی ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے، کہ ہم نے کھیل کود کو گویا قومی مزاج بنا لیا ہے۔

حالانکہ ہمارا خالق اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے نازل کرنے والی وحی میں پڑھنے کا حکم دیتا ہے، قرآن کریم کی سب سے پہلے نازل ہونے والی اس آیت (إقرأ) سے جہاں مغربی دنیا کا اسلام کے بارے میں جنگجویانہ اور بھیانک موقف کی نفی ہوتی ہے وہاں مطالعہ کی اہمیت اور قدر و قیمت بھی خوب آشکارا ہو جاتی ہے، اس آیت کے پیشِ نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مطالعہ یعنی پڑھنا ہمارا قومی مزاج ہوتا، ہمارے ملک میں اسی کا چرچا ہوتا اور ہمارے نوجوانوں کا یہی رجحان ہوتا لیکن افسوس کہ ہم نے پڑھنے پڑھانے کے بجائے کھیل کود اور فضولیات کو اپنا مشغلہ بنادیا ہے۔

مطالعہ کو علمی اور پڑھی لکھی دنیا میں وہ مقامِ بلند حاصل ہے جو شاید ہی کسی اور چیز کو حاصل ہو، اُردو میں ہم کتاب پڑھنے کو مطالعہ سے تعبیر کرتے ہیں جو کہ عربی زبان کا لفظ ہے لیکن خود اہلِ عرب آج کل جدید عربی میں مطالعہ کے لئے (القراءۃ) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، یعنی ٹھیٹھ وہی لفظ جس سے اللہ ربّ العزت نے وحی کی ابتداء فرمائی، مطالعہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کا مطلب ہے کسی چیز سے واقف ہونے کے لئے اس کو مسلسل اور باریک بینی سے دیکھنا، اس لحاظ سے جس چیز کو بھی بغرض واقفیت غور سے دیکھا جائے وہ مطالعہ کہلاتا ہے، لیکن عرف میں اس کا غالب استعمال صرف کتب بینی پر ہوتا ہے۔

مطالعہ کی تین قسمیں ہیں ( 1 ) خاموش مطالعہ یا سائلینٹ ریڈنگ، یعنی حروف پر تلفظ کیے بغیر پڑھتے جانا، یہ طریقہ سب سے زیادہ رائج اور مقبول ہے ( 2 ) حروف پر تلفظ کرتے ہوئے دھیمی یا بلند آواز سے کتاب پڑھنا، یہ طریقہ ان قارئین کے لئے سب سے زیادہ مفید ہوتا ہے جو اہلِ زبان نہیں ہوتے، کیوں کہ اس طریقے سے بولنے اور صحیح تلفظ کرنے کی خوب مشق ہوجاتی ہے ( 3 ) استماع، یعنی دوسرے سے سننا، یہ طریقہ عام طور پر بینائی سے محروم لوگ اختیار کرتے ہیں۔

مطالعہ درحقیقت صاحبِ مطالعہ کو مختلف قسم کے عقائد ونظریات، افکار و خیالات، ثقافت وروایات، تجربات و مشاہدات، ملکوں، شہروں، بستیوں، آبادیوں، ویرانوں درختوں، پہاڑوں، دریاؤں بلکہ پورے عالم کی سیر کراتا ہے، عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے ”زمانے کا بہترین دوست کتاب ہے“ جس کو شورش مرحوم نے اس طرح کہا ہے : ”کتاب سا مخلص دوست کوئی نہیں“۔ اسی طرح ایک مفکر کہتا ہے : ”کتابوں کا مطالعہ انسان کی شخصیت کو ارتقاء کی بلند منزلوں تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ، حصول علم ومعلومات کا وسیلہ اور عملی و تجرباتی سرمایہ کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے اور ذہن وفکر کو روشنی فراہم کرنے کا معروف ذریعہ ہے“

مطالعہ کا شخصیت سازی میں بھی بہت بڑا کردار ہے اور مطالعہ اپنی تحریر کو خوبصورت بنانے کے لئے ایک بہترین زیور بھی ہے، چند سطور کی تحریر کے لئے اگر سو صفحات کا مطالعہ کیا جائے تو تب جاکر کہیں تحریر پر کشش اور ماثر بن جاتی ہے، مطالعہ بند ذہنوں کو کھولنے کی چابی ہے، طرح طرح کے علوم وفنون سے واقفیت کی کنجی ہے، مطالعہ کند ذہن کو ذہین اور ذہین کو ذہین ترین بناتا ہے، مطالعہ سے علم میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوتی ہے، انسان دسیوں فضولیات اور لغویات سے بچ جاتا ہے اور اس کا وقت قیمتی بن جاتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ عمومی طور پر مطالعہ انتہائی مفید ہوتا ہے لیکن جتنا یہ مفید ہوتا ہے اتنا یہ مؤثر بھی ہوتا ہے۔

انسان کسی کتاب کو پڑھتے ہوئے لاشعوری طور پر اس کے مصنف کے خیالات و نظریات سے متاثر ہو تا چلا جاتا ہے، اس لئے مطالعہ میں کتاب کے انتخاب کو بھی بہت بڑی اہمیت حاصل ہے، اگر پڑھی جانے والی کتاب ایسی ہو کہ جو انسان کے ایمان اور اخلاق کو بگاڑدے تو اس کے پڑھنے سے نہ پڑھنا بہتر ہے، آج کل بعض ناپختہ علم نوجوانوں کی گمراہی اور لبرل ازم کی طرف میلان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مستند علمی شخصیات سے راہنمائی لئے بغیر ہر ایرے غیرے کی کتابیں اور لٹریچر پڑھتے ہیں، جب کتاب پڑھنے سے فارغ ہوجاتے ہیں تو ذہن میں کئی شکوک وشبہات نے جنم لیا ہوتا ہے۔

الغرض کتاب کا درجہ دوست کا ہے اور دوست بنانے کے بارے میں شریعت نے ہماری رہنمائی بھی کی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے ( جس کے پاس مشک ہے ) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے دے گا یا تم اس سے خرید لوگے یا ( کم از کم ) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی جاؤ گے، اور بھٹی دھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑے ( بھٹی کی آگ سے ) جلا دے گا اور یا پھر تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا۔

اس لیے مطالعہ ایسے مستند اور درست نظریات رکھنے والے مصنفین کی کتابوں کا ہونا چاہیے جن کے پڑھنے سے اگر ایک طرف علم میں وسعت اور گہرائی پیدا ہو تو دوسری طرف، وہ کتابیں فکری سلامتی کے لئے بھی کسی طرح نقصان دہ نہ ہوں۔

مطالعہ میں ترتیب کو بھی بہت بڑی اہمیت حاصل ہے، منظم طریقے سے مطالعہ کا جو فائدہ ہوتا ہے وہ منتشر اور بے ترتیب طریقے پر کیے گئے مطالعے کا نہیں ہوتا، بنیادی طور پر ایک مسلمان قاری کے لئے قرآن و حدیث، اور ان سے متعلقہ مضامین، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے،

اسی طرح اپنے ملک کے حالات، اپنی ثقافت و تہذیب اور رائج زبانوں کی ادبیات کا مطالعہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، گاہے گاہے مثبت شعر و شاعری اور پُر حکمت لطائف کی کتابوں سے بھی اپنی اکتاہٹ دور کی جاسکتی ہے، افسوس ناک بات یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہمارے موبائل فون میں ہی ہمارے پاس کئی کتابوں کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے لیکن گھنٹوں اسی موبائل پر نظریں جمائے رکھنے کے باوجود ہماری نظر اسی موبائل میں موجود کتاب پر نہیں پڑتی،

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج کے نوجوانوں سے سوشل میڈیا نے ان کا قیمتی سرمایہ ( وقت) چھین لیا ہے، ان کے ہاتھوں سے قلم گر چکا ہے، سکرین کی شعاؤں سے ان کی آنکھیں خیرہ اور دل کی بصیرت رخصت ہو چکی ہے، مجرم ریاست بھی ہے، کہ اس نے مطالعے کا ماحول نہیں دیا، امتحانات میں نقل کرنے کی روش نہیں بدلی، اور پڑھنے پڑھانے کی طرف جانے والے راستوں کو ہموار کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ کردیا ہے، مجرم استاد بھی ہے، مجرم والدین بھی اور مجرم میں اور آپ بھی ہے کہ ہم میں سے کسی نے بھی اپنی اپنی ذمہ داری کما حقہ نہیں نبھائی ہے۔ ہم سب کو مل کر نئی نسل کو مطالعہ کا خوگر بنانا ہوگا ان کے ہاتھوں سے گرے ہوئے قلم کو از سر نو ان کی انگلیوں میں تھمانا ہوگا اور اپنے اپنے حلقہ اختیار میں قلم اور کتاب سے ناتہ جوڑنے پر بات کرنی ہوگی قبل اس کے کہ پوری نسل کو جہالت کی وبا اپنی لپیٹ میں لے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).