سری لنکا کے ساحل پر پنجابی ماہیے


سہ پہر کوآنکھ کھلی تو کمرے کا بغور جائزہ لیا، بہت ہی اچھے طریقہ سے سجا سجایا کشادہ کمرہ تھا اور سب سے بڑی بات کہ کھڑکی سے سمندر کا نظارہ۔ پردہ ہٹا کر دیکھا تو سمندر کی لہریں ایک عجیب بہار پیش کر رہی تھیں۔ تیار ہو کر میں لابی میں آیا تو کراچی والا گروپ ابھی ابھی پہنچا تھا اور خوب ہلا گلا مچا رکھا تھا۔ کراچی کے دو تین پرانے ساتھیوں سے ملنے کے بعد میں ہوٹل کا جائزہ لینے لگ گیا۔ ہوٹل کے ساتھ ہی ایک بہت بڑا شاپنگ سینٹر تھا۔

چلتے چلتے میں پتہ ہی نہیں چلا کہ میں بہت دور نکل آیا ہوں۔ ہمیں منع بھی کیا گیا تھا اکیلے باہر نکلنے کو۔ ہدایت تھی کہ ہمیشہ دو دو تین تین یا پھر گروپ کی شکل میں جائیں۔ سری لنکا میں بھی ٹیکسی اور رکشہ بہت زیادہ ہیں۔ کولمبو شہر ہمارے کراچی سے ملتا جلتا ہے۔ صرف آبادی کراچی سے بہت کم ہے۔ سڑک کے کنارے کھڑے ایک رکشے والے سے انگلش میں پوچھا کہ نزدیک کوئی بازار ہے تواس نے فورا بہت اچھی انگلش میں جواب دیا کہ میں آپ کولے چلتا ہوں اور ساتھ ہی پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو۔

میں نے پاکستان کا کہا تو اس نے جواب دیا کہ پاکستان ہمارا ہمسایہ اور ایک اچھا دوست ملک ہے جس نے یہاں امن و امان کی بحالی کے لئے ہماری بہت مدد کی ہے۔ چار سو کرایہ طے ہوا۔ ایک شاپنگ سینٹر میں اس نے رکشہ روکا اور مجھے مشورہ دیا کہ آپ کو میں بہت اچھی شاپ پر لے چلتا ہوں۔ شاپ میں داخل ہو کر رکشہ والے نے کاونٹر والے سے بات کی۔ دوسرا سیلزمین میری طرف آیا اور مجھے خوش آمدید کہا۔ وہ پرانے اور قیمتی پتھروں کی دکان تھی۔

میں نے فورا دکان کا جائزہ لیا اور دکان سے باہر آ گیا۔ رکشے والا بھی فورا میرے پیچھے آگیا اور مجھے دوبارہ بٹھا کر ایک اور شاپنگ سینٹر میں لے گیا۔ وہاں بھی وہ مجھے لے کر ایک شاپ میں گھس گیا۔ وہ ایک پرفیومز والی شاپ تھی۔ وہاں بھی اس نے کاؤنٹرپر کوئی بات کی تو فورا دو سیلز گرلز میری طرف متوجہ ہوئیں اور بہت سی پرفیومز نکال کر کاؤنٹرپر رکھ دیں۔

میں چونکہ کچھ بھی خرید نے کے موڈ میں نہیں تھا اس لئے چند ایک دیکھ کر دکان سے باہر نکل آیا۔ رکشے والے نے مجھے پھر ایک دفعہ رکشے میں بٹھایا اور مجھے ایک اور جگہ لے گیا۔ وہاں مساج سینٹر کا بورڈ لگا دیکھ کر اندر جانے پر آمادگی ظاہر نہ کی اور اسے واپس ہوٹل چلنے کو کہا تو وہ مجھے ہوٹل واپس لے آیا۔ کرایہ ادا کر کے میں ہوٹل کے اندر آ گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ کولمبو میں جو ٹیکسی یا رکشہ ڈرائیور کسی بھی شاپنگ سینٹر یا شاپ پر کسی بیرون ملکی ٹورسٹ کو لے کر جاتا ہے تو اسے پچاس روپے یا اس سے زیادہ کا پٹرول کا ووچر ملتا ہے۔

اس لئے بعض دفعہ وہ ٹورسٹ سے کرایہ بھی نہیں لیتے۔ شاپنگ سینٹر یا شاپ والے بیرون ملکی ٹورسٹ سے خرید کردہ اشیا کی قیمت میں کا کمیشن بھی شامل کر لیتے ہیں۔ ایسا ہی تجربہ ہمیں اس دفعہ حج کے موقع پر مدینہ منورہ میں ہوا۔ میں نے بیس پچیس ممالک کی سیاحت کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہر ملک کے ٹیکسی ڈرائیورز کا سیاحوں کے سا تھ رویہ ایک جیسا ہوتا ہے۔

میں ہوٹل کی لابی میں داخل ہوا تو ٹیم کے کافی ممبر وہاں بیٹھے نظر آئے۔ سب نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں سے آ رہے ہو۔ میں نے سب کو اپنے آج کے تجربے سے آگاہ کیا تو سب ہی بہت ناراض ہوئے۔ کہ اکیلے کیوں گئے تھے۔ لابی میں چائے پینے کے بعد ہم تین چار لوگ حسن کے کمرے میں اکٹھے ہوئے اور آج شام کے پروگرام پرگپ شپ کرنے لگے۔ شام کو حسب ہدایت ٹور مینیجر ہم سب لوگ پونے سات بجے ہوٹل کی لابی میں جمع ہوئے۔ سب ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔

کراچی اور لاہور کے گروپوں میں شامل سٹاف اپنے اپنے ممبران میں بزی ہو گئے اور ہمیں کوئی زیادہ لفٹ نہیں کرائی۔ ہمارا نارتھ والا گروپ سب سے بڑا تھا۔ اس لیے ہمارے گروپ کے لوگوں نے اپنے اپنے ساتھی چن لئے تھے۔ میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے اگر آپ کے ساتھی ہم مزاج اور ذہنی طور پر ہم آہنگ ہوں تو آپ کا وقت بہت اچھا گزرتا ہے۔ ورنہ ایسے ٹور میں آپ بور ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپنے جونئیرز کو مکمل آزادی دے رکھی تھی کہ وہ جو مرضی ہے وہ کام کریں جس کے ساتھ مرضی آئے گھومیں۔ میں اپنے ہم منصب ساتھیوں حسن، طلعت، آمنہ اور ایک دو اور ساتھیوں کے ساتھ گھومتا تھا۔

جب بھی ہم بیرون ملک ٹرپ پر جاتے ہیں تو ہم اپنے بینک کے علاوہ اپنے ملک پاکستان کی نمائندگی بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بینک کی ہماری ساتھی خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہوتی ہے۔ جو باقاعدہ جیت کر ان ٹورز کا حصہ بنتی ہیں۔ بینک کی طرف سے ٹورز کے سب شرکاء کے لئے ایک ضابطہ اخلاق جاری ہوتا ہے جس کی پابندی سب پر لازم ہوتی ہے۔ دوران ٹور کسی ساتھی خاتون کے ساتھ غیر مناسب رویے پر یا بیرون ملک کسی بھی غیراخلاقی سرگرمی میں ملوث ہونے کی صورت میں متعلقہ سٹاف کو بینک کی طرف سے سخت تادیبی کارروائی کا سامنا ہوتا ہے۔ جس میں آپ کی نوکری بھی جا سکتی ہے۔ لیکن ایسی صورت حال کبھی پیدا نہیں ہوتی کیونکہ ہم سب بینک میں ایک فیملی کی طرح رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ان ٹورز میں نئی دوستیاں بنتی ہیں۔ لوگوں سے مزاج آشنائی ہوتی ہے۔

سری لنکا

سری لنکا شمالی ایشیاء کا ایک جزیرہ نما ملک ہے جو بحر ہند میں واقع ہے ملک کا دستوری دارالخلافہ سری جے وردن پورا ملک کے سب سے بڑے کمرشل شہر کولمبو کے مضافات میں واقع ہے۔ سری لنکا ایک قدیم ترین ملک ہے جس کی دستاویزی تاریخ تقریباً تین ہزار سال پرانی ہے۔

یہ ایک بہت ہی قدیم ترین تہذیبی ورثہ کا عامل ملک ہے۔ یہاں بہت پہلے بدھا کی تحریریں دریافت ہوئیں۔ اس کے جغرافیائی محل و وقوع اور گہرے پانیوں کی پانیوں کی بندرگاہوں کی وجہ سے اس کی زمانہ قدیم سے اب تک سمندری گزرگاہوں کو ایک خاص فوجی اہمیت حاصل ہے۔ برطانوی تسلط کے دور میں سری لنکا کا نام سیلون تھا۔ یہاں بیسویں صدی کی آزادی کی تحریکوں کی وجہ سے 1948 میں ملک کو آزادی ملی 1972 میں ملک جمہوریہ ہوا تو سیلون سے نام تبدیل کر کے سری لنکا رکھا گیا ساٹھ اور ستر کی دیہائی میں ریڈیو سیلون سے بہترین اردو موسیقی نشر ہوتی تھی جس کو سب شوق سے سنتے تھے۔ سری لنکا نے چھبیس سال دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی ہے اور ایک فیصلہ کن جنگ میں علادگی پسند تامل ٹائیگرز کو شکست دے 2009 میں دہشتگردی پر قابو پا لیا۔ سری لنکا South Asian Association for Regional Cooperation (SAARC) کا بانی رکن ہے اس کے علاوہ کامن ویلتھ، اقوام متحدہ اور G 77 کا بھی ممبر ہے۔

سری لنکا کی آبادی مختلف تہذیبوں، ذبانوں اور نسلوں کا مجموعہ ہے۔ آبادی کا زیادہ حصہ سنہالی لوگوں پر مشتمل ہے جبکہ تامل اس ملک کی ایک بڑی اقلیتی آبادی ہے جس کا بھی ملک میں خاصا اثر و رسوخ ہے۔ ملک کی آبادی تقریبا سوا دو کروڑ کے قریب ہے۔ جس میں پچھتر فیصد سنہالی ہے۔ آبادی کا ستر فیصد بدھ مت۔ تیرہ فیصد ہندو۔ دس فیصد مسلمان اور سات فیصد عیسائی مذہب سے تعلق ہے۔ ملک کی 93 فیصد آبادی خواندہ ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد سری لنکا میں ہے جس کی 98 فیصد نوجوان نسل پڑھی لکھی ہے۔

خوراک میں چاول اور شوربہ پسندیدہ غذا ہے۔ ہر سال اپریل میں بدھ مت اور ہندو نئے سال کا تہوار اور جشن مناتے ہیں۔ جولائی اور اگست میں کینڈی میں بدھ مت کا تہوار منایا جاتا ہے۔ جس میں مختلف ناچ اور ہاتھیوں کو سنوارا جاتا ہے۔ دو ماہ جاری رہنے والے اس جشن میں فائر ڈانس، لٹو ڈانس اور مختلف روایتی ناچ اس تہوار کا حصہ ہوتے ہیں۔ سری لنکا میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے۔

کولمبو شہر سمندر کے کنارے پر واقع ہے اور میلوں لمبی پٹی سمندر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ ہمارا ہوٹل بھی بالکل بیچ کے اوپر ہی واقع تھا۔ ہوٹل کے چند قدم پر امیریکن ایمبیسی تھی اور تمام ٹریفک جس میں گاڑیاں۔ بسیں۔ رکشے ایمبیسی سے تقریبا سو گز دور کے فاصلے سے سامنے والی سڑک پر سے گزرتی تھی۔ جبکہ ہمارے ہاں سفارت خانوں کے دور دور تک کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔

رات کو ڈنر کا بندوبست بیچ کے اوپر ہی واقع لون تاؤ نامی ایک خوبصورت چا ئنز ریسٹورینٹ میں کیا گیا تھا۔ یہ ریسٹورینٹ چونکہ بالکل بیچ کے ساتھ ہی واقع ہے اس لئے آپ اس کے لان میں بیٹھ کر سمندر کا دلفریب نظارہ کر سکتے ہیں۔ سات بجے سب ہوٹل سے کوچوں میں سوار ہوئے اور ساحل سمندر پر ہی کچھ فاصلے پر واقع اس ریسٹورینٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ جہاں بینک نے سب کے لئے ایک پرتکلف ڈنر کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ ڈنر کے بعد سری لنکا کے کلچرل شو کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔

اس دن ہوا بھی چل رہی تھی اور سمندر کی سفید لہریں ایک حسین اور دل آویز منظر پیش کر رہی تھیں۔ چاند کی روشنی میں تو یہ ایک بہت ہی مسحورکن شام تھی جو کہ مدتوں یاد رہے گی۔ ریسٹورینٹ میں یورپین سیاحوں کے چند چھوٹے چھوٹے گروپوں کے علاوہ ہماراگروپ بھی تھا۔ کھانا بہت ہی مزیدار اور سپائسی تھا۔ ڈشوں کے نام تو ہمیں پتہ نہیں تھا لیکن سب نے بہت مزے لے لے کر کھایا۔ کھانے کے بعد سری لنکا کا کلچرل شو اور میوزک پروگرام تھا۔

سب لڑکوں نے خوب ہلا گلا کیا اور خاص کر انڈین گانوں پر بہت ڈانس کیا۔ رات گیارہ بجے ہوٹل واپس پہنچے توکچھ جوان اور زندہ دل لڑکے توکلب وغیرہ ڈھونڈنے چل پڑے۔ ہم چینج کر کے ہوٹل کی لابی میں آ گئے۔ حسن مشہھدی، طلعت میاں، عابد سلطان، خرم تصد ق اور میں گپ لگانے لگے۔ کیونکہ دوپہر کو سب نے نیند پوری کر لی تھی اس لئے کوئی بھی سونے کے موڈ میں نہیں تھا۔ پھر سب نے فیصلہ کیا کہ چلو بیچ پر چلتے ہیں۔ ہم جب ہوٹل سے نکلنے لگے تو ہم نے اپنی کولیگ آمنہ عمر سے پوچھا تو وہ اور ان کے ساتھ دو تین لڑکیاں اور تیار ہو گئیں۔

ہم ہوٹل سے نکلے تو کچھ اور ساتھی بھی ہمارے ساتھ نکل پڑے۔ سمندر پر پہنچ کر سب ہی کنارے پر ایک گروپ کی شکل میں بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگے اور ساتھ ہی چاندنی میں سمندر کی لہروں کا نظارہ کرنے لگے۔ ہمارے علاوہ اور لوگ بھی چاندنی کا لطف اٹھا رہے تھے۔ کسی کے اکسانے پر گجرات کے ایک جوان برانچ منیجر نے ایک پنجابی ماہیا شروع کیا تو سب نے تالیوں کی ردھم سے اس کا ساتھ دیا۔ اتنے میں ایک اور جوان افسر کو جوش آیا اور اس نے ماہیا کا جوا ب ماہیا سے دے کر ایک سماں باندھ دیا۔

پھر کیا تھا کچھ لڑکوں نے ڈانس شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر کچھ اور سیاح ہمارے پاس آگئے۔ ایک یورپین خاتون نے مجھ سے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے۔ میں نے اسے پنجابی ماہیا کی روایات کے بارے میں تفصیل سے بتایا تو وہ ہمارے پاس بیٹھ گئی۔ اتنے میں اس کی ساتھی لڑکیوں نے تالیوں کی ردہم کے ساتھ ڈانس کرنا شروع کر دیا۔ رات تین بجے تک سب نے خوب ہلا گلا کیا وہاں سے اٹھنے کا دل کسی کا بھی نہیں چا رہا تھا لیکن مجبورا اگلے دن کا شیڈول سخت ہونے کی وجہ سے یہ خوبصورت محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔ اس سفر کے کچھ اور دلچسپ واقعات اگلی قسط میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).