سندھ سمیت دنیا بھر میں ملنے والے انسانی نقوشِ قدم کے فوسلز


’احفُور‘ ، ’کنجور‘ ، ’سنگوارا‘ ، ’رکاز‘ یا ’فوسل‘ کی سب سے عام فہم بلکہ طفل فہم تعریف یہ ہے کہ، زمین سے کھود کر نکالے ہوئے، کسی بھی جاندار (جانور یا پودے ) کے وہ محفوظ باقیات یا آثار، جو انتہائی قدیم ادوار سے متعلق ہوں۔ یا دُوسرے الفاظ میں کوئی بھی جاندار یا اُس کے ایسے نشان، جو موسمی اثرات سے لاکھوں برس تک بچے رہیں، تو وہ پتھر بن جاتے ہیں، جن کو ’احفُور‘ (فوسل) کہا جاتا ہے۔ ’فوسل‘ کے میزان بھلے ہی دریافت شدہ ہوں یا غیر دریافت شدہ، اُن کی معلومات کو جمع کرنے کو ’فوسل رکارڈ‘ کہتے ہیں۔ ایک ’فوسل‘ کم از کم 10 ہزار سال پرانا ہوتا ہے، جبکہ کرہء ارض پر کئی مقامات پر ایسے فوسلز بھی ملے ہیں، جن کی عمر کئی ارب سال تک پرانی بھی ہے۔ یہ مختلف موسمی حالات پر منحصر ہے کہ کوئی بھی جاندار کتنے عرصے بعد فاسل بنتا ہے، اگر وہ موسم تغیّرات سے بچ جائے تو۔

مارچ 2009 ء کے اواخر میں قدیم انسان کے قدموں کے نشان سندھ میں دریافت کیے گئے، جن کو ’سندھ ایکسپلوریشن سوسائٹی‘ کے اراکین کی حیثیت سے آثارِ قدیمہ کے معرُوف مقامی ماہرین، سیّد حاکم علی شاہ بخاری، اشتیاق انصاری، بدرابڑو اور عزیز رانجھانی نے دریافت کیا۔ یہ آثار حیدرآباد کے ’گنجو ٹکر‘ میں موجُود ہیں۔ ان مُہم جُوؤں کی جانب سے اس مقام کی عین نشاندہی ان آثاروں کے چوری ہونے کے ڈر سے ابھی تک نہیں کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ مقامی لوگوں نے انسانی قدموں کے 3 نشان ایک برساتی ندی (نئیں ) کے پیٹ سے بلاکس کی صُورت میں نکال کر کسی جگہ پر نصب کر دیے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ ابھی تک گنجو ٹکر میں موجُود ہیں، جنہُوں نے بذاتِ خُود بڑی جفاکشی سے ان قدموں کے بلاک برساتی ندی سے نکال کر کسی جگہ محفُوظ کیے ہیں۔ وہ آج بھی اس جگہ کی ٹھیک نشاندہی کر سکتے ہیں، جہاں سے یہ نشان نکال کر لائے گئے ہیں۔ یہ قدم عام انسانی پاؤں کی بنسبت زیادہ چوڑے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ قدموں کے نشان کسی ایسے انسان کے ہو سکتے ہیں، جس کا قد ساڑھے 5 یا پونے 6 فوٹ کے لگ بھگ ہوگا اور پیروں کی ساخت سے یہ لگتا ہے کہ وہ شخص تمام عمر پہاڑوں میں ننگے پاؤں چلا ہوگا، اور یُوں چل چل کر اُس کے پاؤں چوڑے ہوگئے ہوں گے۔ یعنی یہ پاؤں نرم، نازک اور باریک نہیں بلکہ مضبُوط ہیں۔

جس جگہ سے انسانی قدموں کے یہ نشان ملے ہیں، وہ مقام ارضیاتی لحاظ سے ’حالیہ بناوت‘ کے دور کا ہے، جو دور اندازاً آج سے 20 لاکھ برس قبل شروع ہوا، اورآج تک جاری ہے۔ اس باشعُور جدید انسان (ہومیو سَیپِیَن) ، جس کے قدموں کے احفُور (فوسلز) پُوری دنیا میں ملتے ہیں۔ یہ نشان ’پلائسٹسین‘ سے بعد کے انسان کے ہیں۔ سندھ سے متعلق یہ انسان اِن پہاڑیوں میں ٹھیک ٹھیک کس زمانے میں موجُود تھا؟ اس بات کا جواب پتھروں کی بناوت معلُوم کرنے والی لیبارٹری کے ذریعے ہی معلُوم ہو سکتا ہے، مگر اتنا وثوق سے کہا جارہا ہے کہ یہ یقیناً کوئی شکاری تھا، جو شکار کی تلاش میں ’گنجوٹکر‘ کے پہاڑی علاقے میں کسی کیچڑ کی سطح پر اپنے پاؤں دَھر کر گُزرا ہے، اور اپنے قدموں کے نشان چھوڑ گیا ہے، جن میں سے 2 نشان اُس کے دائیں پاؤں، جبکہ ایک نشان اس کے بائیں پاؤں کا ہے۔

جس کے فوراً بعد گمان کیا جا رہا ہے کہ شاید ایسا ہوا ہوگا، کہ جلد ہی کچھ ارضیاتی تبدیلیاں رُونما ہوئیں، جس وجہ سے زمین کا یہ خطہ خاص کیمیائی دور سے گزرا اور یہ کیچڑ کی سطح پتھر بن گئی۔ مختلف دور کے انسان کے پاؤں کے فوسلز کئی اور ممالک، مثلاً: افریقہ، میکسیکو، امریکی ریاستوں ٹیکساس اورہوائی، ترکی، اٹلی اور فرانس میں بھی دستیاب ہوئے ہیں۔ ماہرینِ ارضیات، ماہرینِ آثارِ قدیمہ و ماہرینِ علم الانسان (اینتھروپولوجی) اس بات پر مُتفق ہیں کہ یہ تمام نشانات ارضیاتی، خطوں، ماحول اور انسانی نسلوں کے لحاظ سے ایک دُوسرے سے مختلف ضرُور ہیں، مگر یہ تمام آثار، بِلا امتیاز، ترقی یافتہ انسانی نسل ’باشعور انسان‘ (ہومیو سَیپِیَن) ہی کے ہیں۔

ان میں سے ایک قدم ’آسٹرالو پتھیکس‘ کا ہے، جو 31 لاکھ سال قبل سے 38 لاکھ برس قدیم ہے۔ اس کی یہ عمر، ’پوٹاشیم آرگن ڈیٹنگ‘ کے طریقے سے حاصل کی گئی ہے۔ فرانس کی ایک غار میں سے ملنے والا انسانی قدم کا نشان صرف دس ہزار سال قدیم ہے۔ جنوبی افریقہ میں ریت کے ایک ٹیلے پر انسانی قدم کا ایک نشان ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پتھر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جو ایک لاکھ 17 ہزار سال قدیم ہے۔ تُرکی میں ’دیمبر کوپرو‘ نامی ایک قدیم آثار کے قریب جوالائی خاک کی تہوں سے ملنے والے نشان ڈھائی لاکھ برس قبل کے ’نندرتھال‘ انسان کے ہیں۔

اس ضمن میں دنیا میں قدیم ترین نشان شاید 40 لاکھ برس قدیم ہیں۔ دوسرے نمبر پر قدیم ترین انسانی نشانِ پا 36 لاکھ برس قدیم ہیں، جوتنزانیہ سے ملے ہیں، جو بھی آسٹرالو افریقی انسانوں کے ہیں۔ تنزانیہ افریقہ سے ملنے والا ایک قدم 35 تا 38 لاکھ برس قبل کا ہے، جو بھی جوالائی خاک سے ملا ہے۔ ”ہوائی والکینو نیشنل پارک“ امریکہ میں سے ملنے والا انسانی قدم 13 تا 29 ملین برس قدیم ہے۔ اُونچے انسان کا دنیا میں موجُود قدیم ترین نقشِ پا ”الیریٹ“ ، افریقہ کے ملک کینیا میں موجُود ہے، جو ریتیلے پتھر کی تہوں پر 15 تا 35 لاکھ برس قدیم ہے۔ یہ اوائلی اُونچا انسان (ارلی ہومیوریکٹس) تھا۔

برفانی دور سے متعلق انسان کے قدموں کے سینکڑوں نشان آسٹریلیا کی ایک خشک جھیل میں سے دریافت ہوئے ہیں، جو 20 ہزار برس قدیم ہیں۔ یہ نقوشِ پا، اس خطے میں اب تک ملنے والے قدیم ترین نشانوں میں سے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ نشان اُس وقت بنے، جب قدیم لوگ ایک خشک جھیل کے قریب دراڑ زدہ زمین سے گُزر گئے۔ بعد ازاں یہ نشانات پتھرا گئے۔ کینیا میں ایک ہی مقام (آثارِ قدیمہ) سے 15 لاکھ برس قبل قدیم نشانات ملے ہیں، جن میں جانوروں کے پاؤں کے نشان بھی شامل ہیں، جو اُس وقت شاید کیچڑ پر بنے ہوں گے۔ اِس دور کے لوگوں کے پاؤں کے نشانات بھی جدید دور کے انسان کے نقوشِ پا جیسے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).