چونا منڈی کا انو اور بلال گنج کا سانی


(دو دوستوں، ڈاکٹر احسان کاظمی اور ڈاکٹر انور سجاد کی یادوں سے جڑی کہانی)

“ سانی یار ! جلدی آلو کاٹ لو، پیاز فرائی ہو رہا ہے”

“ انو، ڈوئی تو ہلا، ورنہ یہ جل کے کالا ہو جائے گا”

” یار ! یہ ادرک نہیں کٹ رہی، انگلی پہ چھری سے کٹ لگ گیا ہے “

” اچھا چھوڑ اس کو، یہ بتا، نمک مرچ کتنی ڈالنی ہے “

“لگتا ہے اماں جی کا پڑھایا ہوا سبق سب بھول گیا تو”

کھانا پکانے کا امتحان اور وہ دو نو عمر نو آموز لڑکے !

“ ہم گھر سے اماں سے تھوڑا بہت سیکھ کے آئے تھے کہ کس وقت ہنڈیا میں کیا ڈالنا ہے۔ اماں نے لہسن، پیاز، ٹماٹر، نمک مرچ اور گھی کی ترتیب دو تین دفعہ دہرائی تھی جو ہم نے ازبر کرنے کی کوشش کی تھی”

ان کی آنکھیں یادوں کی روشنی سے چمک رہی تھیں۔ لہجے میں کھنک تھی اور وہ اپنے بچپن میں انو کے ساتھ کھانا پکانے کے امتحان میں پہنچ چکے تھے۔

بوائے سکاؤٹس کا کیمپ تھا اور سکول تھا، سنٹرل ماڈل سکول، لوئر مال لاہور۔

” پھر ہوا یوں کہ پیاز جل گئی اور جو سالن بنا اس کا رنگ کالا تھا۔ میں انتہائی فکر مند کہ چیکنگ ٹیم کو کیا جواز پیش کریں گے۔ انو نے کہا تھا، فکر نہ کر سانی! ہم کہیں گے کہ ہم نے کالی مرچیں ڈالی ہیں، اس لئے سالن کا رنگ ایسا ہے”

سانی اور انو، 1944 میں دوستی کے رشتے میں بندھے، جب دونوں نے سنٹرل ماڈل سکول سے اپنےتعلیمی سفر کا آغاز کیا۔

” ہم 1949 تک سکول میں اکھٹے تھے اور ہمارے دوسرے دوستوں میں لئیق احمد ( مشہور کمپیئر)، محمد زبیر ( ڈاکٹر زبیر کارڈیالوجسٹ)، سہیل ہاشمی ( شعیب ہاشمی کے بڑے بھائی)، لیاقت گل (سلمی آغا کے والد) اور نثار صوفی (صوفی تبسم کے بیٹے) شامل تھے “

ان کے پاس یادوں کا خزانہ تھا اور دل مانگتا تھا پھر وہی فرصت کے رات دن!

“انو نے ہم سب دوستوں کو کھانے پہ بلایا تھا۔ ہم مستی دروازے تک تانگے پہ گئے تھے اور پھر چونا منڈی تک پیدل۔ انو کی حویلی بہت خوبصورت تھی اور نیلا رنگ کثرت سے استعمال ہوا تھا۔ شاید نیلی ٹائلز تھیں۔ ہم انو کے ابا سے ملے تھے جو مریضوں میں گھرے بیٹھے تھے”

یادوں کی بارش تھی جو دل کی زمین پہ برس رہی تھی۔ ماضی کے بند کواڑوں پہ تیز ہوا کی دستک تھی۔

“میٹرک کے امتحان نزدیک تھے۔ ہماری الوداعی تصویر کھینچنے کی تیاری تھی۔ ہم سب بہت پرجوش تھے۔ قطاریں بن رہی تھیں۔ میں دوسری قطار میں درمیان میں کھڑا تھا اور میں نے اپنے ساتھ انو کی جگہ رکھی تھی۔ وہ کہیں مصروف تھا اور جب وہ آیا تو میرے تک پہنچنے کا کوئی رستہ نہیں تھا سو اسے آخری قطار میں کھڑا ہونا پڑا تھا۔ تصویر کے بعد ہم دونوں افسردہ تھے کہ ہم ساتھ ساتھ نہیں کھڑے تھے۔ اس زمانے میں تصویر کھینچا جانا معمولی بات نہ تھی”

” ہم سکول سے فارغ ہو رہے تھے، نئی منزلیں ہماری منتظر تھیں مگر ہم دونوں کا ایک دکھ مشترکہ تھا۔ اور وہ تھا ہم دونوں کے ابا کا خواب، جو وہ ہمارے مسقبل کے لئے دیکھتے تھے۔ وہ دونوں ہمیں دکھی انسانیت کی خدمت کرتے دیکھنا چاہتے تھے اور ہم دونوں کا دل کچھ اور کہتا تھا”

وہ کہتے کہتے کہیں دور کھو چکے تھے

” کچھ برس بعد جب وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں تھا اور میں ویٹنری ڈاکٹر بن چکا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے نعرہ لگایا، او یار ڈی ڈی ( ڈنگر ڈاکٹر )! تیرے ابا جیت گئے۔ اب معلوم نہیں میرے ابا جیتیں گے کہ نہیں”

ان کے ہوںٹوں پہ مسکراہٹ تھی۔ وہ اسی دور میں پہنچ چکے تھے۔

“اس نے تب لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ہم دونوں پاک ٹی ہاؤس میں ملے تھے۔ محفل میں انتظار حسین اور ناصر کاظمی جیسے اہل نظر موجود تھے۔ اس نے مجھے ایک طرف لے جا کر اپنی تحریر دکھائی تھی، عنوان تھا چوزہ !

میں نے پڑھ کے کہا تھا ‘ایہہ کی لکھیا اے توں، کج خاص نیئں’

( یہ کیا لکھا تم نے، کچھ خاص نہیں)

وہ ترنت بولا تھا ‘ توں تے ایہہ وی نئیں لکھیا’ (تم تو یہ بھی نہیں لکھ سکے)

“بعد کے برسوں میں میں نے دیکھا کہ اس نے اپنےابا کی جیت کے ساتھ ساتھ اپنے من کی بھی مان لی تھی۔ پہلے وہ مریضوں کا علاج دوائیوں سے کرتا اور پھر اپنی روح کو شانت کرنے نکل کھڑا ہوتا۔ وہ اب مشہور اداکار اور رائٹر تھا مگر میرے لئے وہ انو ہی تھا، میرا دوست انو!

ہم دونوں زندگی کی ہماہمی کا شکار ہو چکے تھے۔ اس کے پاس وقت نہیں تھا اور میرے پاؤں میں سفر کا چکر تھا۔ لیکن ہمارا فون پہ ہمیشہ رابطہ رہتا۔

” ایک دن فون آیا ‘یار سانی ! میرے گھر افطاری پہ آؤ بھابی بچوں کے ساتھ’۔ اور پھر ہم گلبرگ گئے تھے اس کے گھر اور اس دعوت کی اصل میزبان تھی زیب۔

آرٹسٹک گھر کی خوبصورت مکین !

ڈاکٹر احسان کاظمی

زیب نے کھانا خود بنایا تھا۔ ہم نے خوب باتیں کی تھیں۔ انو بہت خوش تھا “۔

زندگی کا بہاؤ بہت تیز تھا اور ہم اس کے ساتھ رواں دواں تھے۔ میں ان دنوں لاہور پوسٹڈ تھا۔ جب کبھی ملاقات ہوتی، وہ کہتا سانی، کبھی میرے ساتھ چونا منڈی چلو؛ اب اباجی کے مریض میں دیکھتا ہوں۔ میں فورا ہی کہتا، یار کیوں ان کو مارنے کا ارادہ ہے، دل تو تیرا ڈراموں اور کرداروں کے رومان میں الجھا رہتا ہے۔ نزلہ کھانسی اور زکام جیسی غیر رومانی بیماریوں کا حال تو کیا جانے؟ اور وہ ہنس دیتا!

ہم ملتے رہے زندگی سے کچھ لمحے چرا کے۔ ڈاکٹر احسان اور ڈاکٹر انور سجاد کے روپ میں نہیں، سنٹرل ماڈل سکول کے بوائے سکاؤٹس انو اور سانی بن کے۔

قدم بہ قدم، زینہ بہ زینہ، زندگی آگے کو سرک رہی تھی۔

اس کی رخصتی تکلیف دہ ہے !

 یوں محسوس ہوا کہ زندگی کے درخت سے ایک اور پتہ جھڑ گیا۔ اب شاخ حیات ٹنڈ منڈ ہونے کو ہے۔ خزاں کی چاپ ہواؤں میں ہے۔ دستک سنائی دے رہی ہے۔

تمام گزرے لمحات پلکوں پہ سج چکے ہیں اور میری بے خواب راتوں کی رونق ہیں۔

ایک ایرانی شاعر احمد رضا احمدی کی نظم دیکھئے۔ ڈاکٹر معین نظامی نے ترجمہ کیا ہے۔ اختتام سفر کی حکایت ہے اور پرانے ہم صفیروں کے ایک ایک کر کے بچھڑنے کی کیفیت بیان کی ہے۔

میری آنکھوں کو عجیب سی بینائی مل گئی ہے

کہ تم مجھے نیلے دکھائی دے رہے ہو

ہماری آنکھیں صبح کے سکوت میں

سلگتی ہیں

ان آنکھوں میں کیسے کیسے شعلے ہو سکتے تھے

نہیں ہیں

افسوس بھی نہیں ہے

کوئی بات نہیں کہ نہیں ہیں

ہمیں کیا کرنا چاہئے

عمر اختتام پہ ہے

ہم پل بھر ہوا میں رکے

گلی کے آخری کنارے کو دیکھا

کوئی نہیں آیا

چلیے، نہ آئے

افسوس بھی نہیں ہے

ہمیں کیا کرنا چاہئے

عمر اختتام پہ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).