خان صاحب اور پی آئی اے والی آنٹی


25 جو لائی 2018 کے انتخابات کے زور و شور سے کون واقف نہیں ہو گا۔ ان انتخابات میں پو رے پاکستان کی نظر صرف اور صرف ایک ہی انسان کی کامیابی پر ٹکی ہوئی تھی اور وہ تھے عمران خان۔ جیسے ہی عمران خان صاحب انتخابات جیتے عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ میں نے اپنی ستائیس سالہ زند گی میں تین بڑے انتخابات دیکھے ہیں اور ان میں 2008 کے انتخابات جس میں پی پی پی نے میدان مارا تھا۔ دوسرے 2013 والے جس میں نواز شریف کی طویل جلا و طنی کے بعد ان کی جماعت مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تھی۔ مگر ان دو نوں انتخابات میں عوام میں وہ جوش اور امید نہیں تھی جو 2018 کے انتخابات میں مجھے نظر آئی۔ خان صاحب کی الیکشن جیتنے کے بعد والی تقریر سے پاکستان کا بچہ بچہ متاثر نظر آیا اور جب خان صاحب نے و زیر اعظم کا حلف اٹھایا تھا تو وہ وقت خان صاحب کے چاہنے والوں کے لئے عید سے کم نہ تھا۔

خیر اب میں آپ کو ملواتی ہوں پی آئی اے والی آنٹی سے۔ و یسے میں لاہور میں ایک نجی چینل میں کام کر تی تھی مگر 2018 کے انتخابات کے سلسلے میں کراچی میں تھی۔ جیسے ہی الیکشن اختتام پذیر ہو ئے میں کر اچی سے قومی ائیر لائن سے لاہور کے لئے روانہ ہوئی۔ کام کے بعد تھکن سے براحال تھا بس یہی تھا کہ جہاز میں سوار ہوتے ہی نیند پوری کی جائے گی لیکن جیسے ہی میں جہاز میں داخل ہوئی وہاں ایک دلچسپ منظر تھا۔ ایک درمیانی عمر کی خاتون چہرے پر بھرپور مسکر اہٹ لئے جہاز کے عملے سے پہلے کھڑی تھیں اور وہ سب آنے والے مسافروں کا استقبال کر رہی تھیں۔

ان کی خوشی ان سے سنبھالی نہیں جا رہی تھی۔ ان کے قدم جہاز کی زمین پر نہیں ٹک ر ہے تھے اور وہ اپنے دائیں ہاتھ کو ہوا میں بلند کر کے اونچی آواز میں کہہ رہی تھیں کہ ”جہاز والو نیا پاکستان مبارک“ اب دیکھنا زندگی کتنی آسان ہو جائے گی کیونکہ خان آگیا ہے۔ اب بے روزگاری، غر بت، اور تمام مسائل ختم ہو جائیں گے۔ سب چور ڈاکو پکڑے جائیں گے۔ اب بس خوشحالی آئے گی۔ اب آگے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں کیو نکہ خان آگیا ہے اور وہ بات کا پکا انسان ہے اس کی جان چلی جائے گی مگر وہ بات سے نہیں پھرے گا۔ چونکہ ان آنٹی کی آواز بہت بلند تھی تو کچھ لوگوں کو وہ بہت ناگوار بھی گزر رہی تھی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کا تعلق خان کی مخالف پارٹی سے ہو اور اسی لئے ان سے آنٹی کی آواز کو بر داشت کرنا مشکل ہو رہا تھا، توکچھ لو گ ہینڈ فری کا استعمال کر کے ان کی آواز سے چھٹکارا حاصل کر رہے تھے۔

اتنی تھکن ہو نے کے باوجود میں ان کی پر امید اور پرجوش آواز سے محظوظ ہو رہی تھی مگر اسی لمحے میر ے دل میں ڈر سا بھی پیدا ہو گیا کہ اگر خان صاحب امیدیں پوری کرنے میں ناکام ر ہے تو ان آنٹی کا کیا ہو گا؟ جتنی خوشی ان کو عمران خان کی حکو مت بننے کی ہو رہی ہے اگر خان صاحب وعدے پورے کر نے میں ناکام رہے تو آنٹی پتہ نہیں اس صد مے کو بر داشت کر بھی پائیں گی یا نہیں کیو نکہ امید جب ٹو ٹتی ہے تو انسان سے سنبھلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

آنٹی کی امید ٹو ٹنے کا سو چا تو دل سے آواز نکلی کہ یا رب ان کی امید کبھی نہ توڑنا۔ اسی دعا کے ساتھ سفر مکمل کیا۔ مگر سال گزر جانے کے بعد آج ملک کے حا لات کو دیکھتی ہوں جہاں مہنگائی کے طوفان نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ جہاں ڈالر کو ہر دوسرے دن پر لگ جاتے ہیں۔ جہاں پٹرول روز ہی مہنگا کر دیا جاتا ہے۔ جہاں گیس اور بجلی کے بل اتنے بڑھا د یے جاتے ہیں کہ غر یب آد می گھر کا چولہا اور پنکھا چلاتے ہوے اسی ڈر میں رہتا کہ نجانے کتنا بل آئے گا۔

جہاں سونا اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ خریدنا تو دور کی بات، خواب میں نہیں سوچا جا سکتا۔ خان صاحب کے دو بڑ ے سیاسی حریف جو آنٹی کی نظر میں چور ڈاکو تھے وہ بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ ابھی تک خان صاحب لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ اس بے یقینی کی صورت حال میں مجھے صرف اور صرف وہ انٹی یاد آتی ہیں اور یہی سو چتی ہوں کہ آنٹی کس حال میں ہوں گی۔ نہ جانے اس صورت حال میں بھی ان کی آواز میں وہ جوش ہو گا لہجے میں وہی امید ہو گی یا نہیں؟ نا جانے ابھی تک انہوں نے امید کا دامن تھام ر کھا ہو گا یا نہیں۔

یہ بات تو سچ ہے کہ مقام حاصل کرنا جتنا مشکل ہو تا ہے اس مقام پر عزت کے ساتھ جمے رہنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ خان صاحب کو وزیر اعظم کے منصب کے لئے 22 سال تک طویل سفر کر نا پڑا اس سفر میں وہ اکیلے تھے پھر گزرتے برسوں میں خان صاحب کے ساتھی بھی ان کے قدم سے قدم ملاتے گئے اور آخر کار 25 جو لائی 2018 خان صاحب کے لئے مبارک ثابت ہوا اور خان صاحب اپنی منزل پر عزت کے ساتھ پہنچ گئے مگر ساتھ ہی اب یہ سو چنے والی بات ہے کہ وزیر اعظم کے منصب پر قائم ر ہنے کے لئے 5 سال میسر آئیں گے یا نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).