جبر کی سائنس اور مزمل گھڑی ساز کی ماں


قائد اعظم کا پاکستان دو لخت ہو گیا تو بھٹو صاحب کا انقلاب نمودار ہوا۔ کچھ ایسا ہی انقلاب تھا، جیسی ان دنوں تبدیلی آئی ہے۔ طفلان گلی کوچہ کا ہنگامہ بھی مانوس ہے اور پس پردہ کھیل بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ایک فرق البتہ تب موجود تھا۔ بھٹو صاحب تاریخ کے سنجیدہ طالب علم تھے۔ عصر حاضر کی حرکیات پر گہری آنکھ تھی۔ طویل انتظامی تجربہ تھا۔ سیاست کے کھیل میں فوری ردعمل اور دور رس بصیرت کا فرق جانتے تھے۔ ایک آنچ کی کسر البتہ رہ گئی۔

بھٹو صاحب جبر کی سائنس نہیں سمجھتے تھے۔ یہ حکم درویش نے نہیں لگایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کسی اناڑی قدم پر فیض صاحب نے تبصرہ فرمایا تھا کہ ’جبر کی بھی ایک سائنس ہوتی ہے۔ کالاباغ یہ سائنس سمجھتا تھا، بھٹو صاحب نہیں سمجھتے۔ ‘ بھٹو صاحب یہ سائنس سمجھتے بھی کیسے؟ میانوالی کے امیر محمد کالاباغ نے تو جبروت کی ثقافت میں آنکھ کھولی تھی۔ بارانی زمین پر ہوا کے جھونکوں سے مرتب ہوتی عارضی اونچ نیچ کو کائناتی حقیقت سمجھتا تھا۔

زور آور کے سامنے عزت نفس رہن رکھنے کو عقل مندی کی معراج سمجھتا تھا۔ کمزور کو کچل کے اپنی اوچھی انا کی تسکین میں اسے عار نہیں تھا۔ علم کا قرینہ نہیں رکھتا تھا۔ انسان کی قامت کو زرعی ملکیت کی بالشتوں میں ناپتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک نرم دل ماں کی آغوش میں انسان کے ارتفاع کا وہ درس پڑھا تھا جو امیر محمد کے فلک کو بھی نصیب نہیں ہو سکتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو خامیوں سے ماورا نہیں تھے۔ نتیجہ یہ کہ دریاو¿ں کی لغت میں سیاست کو سمجھنے والا منجدھار کی قوت کا درست اندازہ نہیں کر سکا۔ اس کے باوجود پاکستان کی سیاست پر بھٹو کی مزاحمت کا انمٹ نشان موجود ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمیں جبر کے ورثے سے نجات نصیب نہیں ہو سکی۔ ملال یہ ہے کہ ہم منزل کے شعور کو فروغ نہیں دے سکے۔ ہم آج بھی علامتوں سے پنجہ آزما ہیں، روگ کی فہم نہیں رکھتے۔

اگر آپ پسند کریں تو حکومت کو اشیائے ضرورت کی ارزانی یا گرانی کے پیمانے پر جانچتے رہیے۔ معیشت تو شہریوں کی قوت خرید بڑھانے پر غور کرتی ہے۔ اگر کوئی افلاطون چھین جھپٹ کی ہاو¿ہو سے معیشت کے رخنے رفو کرنا چاہتا ہے تو ایسا کر دیکھے۔ معیشت تو پیداوار، تجارت اور سرمایہ کاری کی سہ جہتی روشنی میں آگے بڑھتی ہے۔ اگر کوئی سمندروں سے نکلنے والے تیل اور پہاڑوں سے ملنے والے سونے میں قومی دولت کا خواب دیکھتا ہے تو اٹھائے پھاوڑا اور نکل جائے داستان کی نہر کھودنے۔

اگر کوئی اینٹ پتھر کی عمارتوں کو تعلیم قرار دینا چاہتا ہے تو شوق پورا کر لے۔ علم کا اہرام تو سوال، تحقیق اور اظہار کے سانچوں سے مرتب ہوتا ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ سزاو¿ں کا بازار گرم کر کے انصاف کی زندگی بخش حرارت کا سامان ہو سکتا ہے تو چوراہوں میں پھانسی گھاٹ سجا لے۔ انصاف تو مساوات کا اصول مانتا ہے، صلہ رحمی کا تقاضا کرتا ہے، شفافیت کا مطالبہ کرتا ہے۔ انصاف خوف نہیں دلاتا، تحفظ کا احساس عطا کرتا ہے۔ اگر کوئی قومی سلامتی کو عالمی بساط پر مہرے آگے پیچھے کرنے کی مہارت سمجھتا ہے تو ہر تیسرے روز کی خجالت کا سامان ضرور کرے۔ سلامتی کی فصیل اپنے وسائل کا ٹھیک اندازہ کر کے اس داخلی استحکام کے بل پر تعمیر ہوتی ہے جس کے پار کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوتی۔

ہم دنیا کی پہلی قوم نہیں ہیں جسے اپنے جغرافیائی محل وقوع میں عدم توازن کا سامنا ہے۔ گن جائیے کہ دنیا میں کتنے ملک ہیں جو سمندر تک رسائی سے محروم ہیں۔ جو اپنے سے کئی گنا بڑا حجم رکھنے والی قوموں کے ہمسائے ہیں۔ ہم دنیا میں واحد ملک نہیں ہیں جسے وسائل کی قلت کا سامنا ہو۔ دوسروں نے ترقی اور سلامتی کے لئے ہمارا نسخہ کیوں استعمال نہیں کیا کہ 70 برس میں اپنی آبادی سات گنا بڑھا لی۔ مطلق ناخواندہ آبادی میں تین گنا کا اضافہ کر لیا۔

تعلیم کا معیار اس قدر گرا لیا کہ اندرون ملک تعلیم پانے والے روزگار کی منڈی میں بے قیمت ہو گئے۔ زرمبادلہ کے ذخائر پچھلے بیس برس سے یک عددی کھاڑی سے نکل نہیں پائے۔ معلوم ہوا کہ سرکار اس کھوج میں ہے کہ گزشتہ دس برس کے دوران لئے گئے بیرونی قرضے کہاں گئے؟ کیوں بھائی، اس مقہور عشرے کی تخصیص کیوں؟ یہ تو ریاستی سطح پر ہونے والا لین دین ہے۔ کسی کے ذاتی کھاتوں کی چھان پھٹک تو ہے نہیں۔ کسی گریڈ اٹھارہ کے سرکاری اہلکار کو حکم دیجئے، ایک گھنٹے میں 65 برس کے اعداد و شمار نکال لائے گا۔

1954 میں سیٹو اور سینٹو کی دریوزہ گری اختیار کی تھی نا ہم نے۔ تو بس اس سے حساب کر لیجیے کہ قرض کس نے لیا اور کون محض سود بھرتا رہا۔ یہ قصہ بھی قوم کو معلوم ہو جائے کہ ہمارا محسن امریکا کن عشروں میں امداد کی جوئے سخاوت جاری کرتا رہا اور کن بدنصیب برسوں میں ہمارا پانی کاٹ لیا۔ کسی ملک کا بندوبست پرکھنے کا ایک معمولی پیمانہ یہ ہے کہ ریاستی پالیسیوں کے باعث کتنے جانی اور مالی وسائل کا زیاں ہوا؟ دہشت گردی کے تجزیے میں ستر ہزار اموات کا عدد ہم رسان سے لڑھکا دیتے ہیں۔

خدا کی شان ہے کہ دہشت گردی کے جواز تراشنے والے آج دہشت گردی کی مزاحمت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کبھی حساب کیا کہ کراچی میں لسانی تعصب کی پشت پناہی سے کتنے گھر اجڑے؟ ملک میں فرقہ واریت کے کوئلے دہکانے سے کتنے چولہے بجھ گئے؟ جن منظم مجرم گروہوں سے کوتاہ مفادات کی آگ جلائی تھی، انہوں نے ملکی معیشت کو کیسے دیوالیہ کیا۔ بے شک آپ زود رنج ہیں نیز یہ کہ دعویٰ بہت ہے علم و فراست میں آپ کو۔ چند نکات پھر بھی کہے دیتا ہوں۔

سیاسی استحکام کے بغیر معیشت کی گاڑی نہیں چلتی۔ دوسرے یہ کہ ریاست کی قوت سے سیاسی نقشہ بنایا یا بگاڑا جا سکتا ہے، معیشت زور زبردستی کی منطق نہیں مانتی۔ اور تیسرے یہ کہ آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر سیاسی بندوبست میں شفافیت کی کھنک پیدا نہیں ہوتی۔ رہی کرپشن اور احتساب کی دو دھاری تلوار، تو دیکھیے صاحب، ہم نادار ضرور ہیں لیکن ہماری ایک سیاسی تاریخ ہے۔ ایک تمدنی روایت ہے۔ ہم دزدیدہ آنکھ سے اجنبی خلوت کی عیب شماری نہیں کرتے۔

ہماری دھرتی تو ’مزمل گھڑی ساز‘ کی ماں ہے۔ حارث خلیق نے یہ نظم تب لکھی جب عزیز آباد، سہراب گوٹھ اور چار مینار چورنگی کے اطراف میں لہو سستا تھا۔ اورنگی ٹاو¿ن میں گھڑیاں ٹھیک کرنے والے مزمل کے ماں باپ بہاری تھے لیکن اس کی ماں اسے اپنے خاص لہجے میں بتاتی تھی کہ اس کا نانا یوسف زئی پٹھان تھا۔ اور پھر ایک روز۔

گولیاں تڑتڑا کے چلیں

خون رکتا نہیں تھا

مزمل گھڑی ساز کی کوک پوری ہوئی

اس نے ایک آخری چیخ ماری

ارے خان لالا، پٹھنوا کو مارا

ارے ہم تو ایسپ جئی تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).