جسٹس تصدق حسین جیلانی کا یادگار فیصلہ اور مذہبی اقلیتیں


انیس جون 2014 کو اس وقت کے پاکستان کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ملک میں غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک یاد گار فیصلہ رقم کیا تھا۔ بعض اوقات آپ کا کوئی ایک عمل یا فیصلہ آپ کی پوری پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی پر حاوی ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر جسٹس محمد منیر، مولوی مشتاق، انوارالحق، نسیم حسن شاہ، سعید الزمان صدیقی، ارشاد حسن خان، افتخار چودھری اور حمید ڈوگر جیسے کئی ایسے ججوں کے صرف ایک یا دو فیصلوں یا عمل نے تاریخ میں ان کا نام اچھے یا برے طریقے سے رقم کر دیا ہے۔

جسٹس جیلانی نے یہ قابل احترام مقام پاکستان کی عدالتی تاریخ میں 2014ء میں حاصل کیا جب انہوں نے اقلیتوں کے لیے ایک شان دار فیصلہ لکھا۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے چیف جسٹس کے طور پر صرف سات ماہ گزارے اور اس میں صرف ایک از خود نوٹس لیا جو پشاور میں ایک چرچ پر حملے کے بعد لیا گیا تھا۔ اس نوٹس پر فیصلے کو قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر بہت سراہا گیا۔

 اس فیصلے کی پانچویں سالگرہ انیس جون 2019 کو تھی جس کی یاد میں پیٹر جیکب اور ان کے مرکز برائے سماجی انصاف نے اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر پیٹر جیکب کی تحریر کردہ تعمیلی تجزیے کی رپورٹ بھی پیش کی گئی ۔

Tassaduq Hussain Jillani

پیٹر جیک پاکستان میں انسانی حقوق کے بڑے علمبردار ہیں اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے انتھک محنت کررہے ہیں۔ ان کی حالیہ رپورٹ میں 2014 کے عدالتی فیصلے کی تعمیل نہ ہونے کا ناخوشگوار احوال بیان کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے پیش لفظ میں پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے سابق جنرل سیکرٹری آئی اے رحمان صاحب نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اقلیتوں کے حقوق کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک خاکہ تجویز کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ اقلیتوں کے مفادات کی نگہداشت کے لیے ایک قومی مجلس قائم کی جائے۔ رحمان صاحب لکھتے ہیں:

”اگر ان تجاویز کو تسلیم کرلیاجاتا تو اقلیتوں کو ایسا فورم مل جاتاجہاں وہ اپنے مسائل بیان کر سکتے اور ان کی تکالیف کے خاتمے کی امیدیں روشن ہوجاتیں۔“

رحمان صاحب کے مطابق ایک اور اہم تجویز یہ تھی کہ سپریم کورٹ کی ایک تین رکنی بینچ قائم کی جائے جو عدالت کے اس فیصلے پر عمل درآمد پر نظر رکھے اور اقلیتوں کی شکایات وصول کرے۔

گوکہ گزشتہ پانچ سال کے دوران چیف جسٹس ناصر الملک اور ثاقب نثار نے انتظامیہ کے مختلف شعبوں کو کاہلی پر تنبیہہ کی مگر پھر یہ معاملہ عدالت کی مزید توجہ حاصل کرنے سے قاصر رہا۔

پیٹر جیک اپنی رپورٹ میں تفصیلی اور فکر انگیز تجزیہ پیش کرتے ہیں اور فیصلے کی تعمیل میں رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہیں۔

ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا تو متعلقہ حکام کو توہین عدالت کے ذریعے سزا دی گئی۔ مثلاً چیف جسٹس افتخار چودھری نے جب اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط لکھنے کا کہا تاکہ سوئٹزر لینڈ میں صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولے جائیں تو وزیر اعظم گیلانی نے اس پر عمل نہیں کیا۔ جس کی پاداش میں جسٹس چودھری نے غصے میں آکر منتخب وزیر اعظم کو برطرف کردیا۔

مگر اس طرح کا غصہ عدلیہ صرف سیاست دانوں پر نکالتی ہے جب کہ سول اور فوج افسر شاہی اس سے محفوظ رہتی ہے۔ اگر 2014ء کے عدالتی فیصلہ پر پوری طرح عمل درآمد کر دیا جاتا تو اقلیتوں کے حقوق کا پورا منظر نامہ تبدیل ہوجاتا۔

جسٹس جیلانی نے اپنے اطمینان کے لیے پوری کوشش کی تھی کہ ان کے سات احکامات پر عمل کے راستے میں تمام رکاوٹیں دور کر سکیں۔ انہوں نے ایک حکم صادر کیا تھا جس کے تحت سپریم کورٹ بینچ کو پیروی کے لیے لازمی سماعت کرنی تھی۔ اس طرح جسٹس جیلانی نے اقلیتی برادری کے ارکان کو یہ سہولت دینے کی کوشش کی تھی کہ احکام کی تعمیل کرا سکیں اور اخراجات سے بھی بچ سکیں۔

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق عدالت میں ایک الگ فائل رکھی جانی تھی جو تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کی جاتی تاکہ فیصلے پر عمل درآمد کی پیروی کرائی جا سکے اور وہی بینچ اقلیتوں کی شکایات اور درخواستوں کو بھی دیکھ سکے۔ اس طرح عدالت عظمیٰ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی پابند کیا تھا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔

Peter Jacob

اس فیصلے کے خلاف کسی بھی وفاقی یا صوبائی حکومت نے نالش نہیں کی اور نہ ہی مزید کوئی تفصیل طلب کی یا سپریم کورٹ سے کوئی وضاحت کی درخواست کی۔ جس کا مطلب تھا کہ ان احکام کی جزیات سب پر عیاں تھیں۔

مگر اس واضح طریقے کے باوجود حکم کی تعمیل کی سطح بہت نیچی رہی گو کہ پانچ سال گزر چکے ہیں۔ اب پیٹر جیکب کی اس بروقت رپورٹ اور تجزیے سے عدم تعمیل کی وجوہ سامنے آ گئی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر ریاستی کوتاہی کا مسئلہ ہے جس میں اقلیتوں کو ادارے وہ اہمیت نہیں دیتے جو انہیں ملنی چاہیے۔

 اس میں اداروں اور حکام کی کاہلی اور عدم دلچسپی کا بھی دخل ہے جو حکم کی تعمیل کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ پیٹر جیک کے تجزیے کے مطابق کچھ پوشیدہ مفادات ہیں جو عدم تعمیل سے وابستہ ہیں اور وہ برے طرز حکم رانی کو جاری رکھتے ہیں۔ یہی عناصر ان احکام کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔

 ایک اور رکاوٹ کسی قانونی نفاذ کی حکمت عملی یا مجلس کا نہ ہونا ہے۔ مثلاً کوئی قومی اقلیتی مجلس یا نیشنل کاﺅنسل یا کمیشن نہیں ہے۔ اسی طرح ایک اور مسئلہ اقلیتوں کے لیے عائلی یا خاندانی قوانین کا نہ ہونا ہے جس میں مسیحی شادیوں اور طلاق کے مسائل شامل ہیں۔

اسی طرح انتظامی طور پر بھی رکاوٹیں ہیں۔ مثلاً معاشرے میں رواداری اور برداشت کے فروغ کے لیے تعلیمی اصلاحات کی جانی چاہیے تھیں۔ ان کے علاوہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا مسئلہ بھی بدستور قائم ہے اور پھر جبری شادیوں اور تبدیلی مذہب کا عفریت بھی منہ کھولے کھڑا ہے۔ مرکز برائے سماجی انصاف اقلیتوں کے مسائل کواجاگر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اس مرکز نے 2015ء میں سپریم کورٹ میں ایک ابتدائی تجزیہ جمع کرایا تھا جس میں عدالتی احکام کی تعمیل کی تفصیل تھی پھر 2016 میں ایسا کیا گیا۔

اس طرح کی ایڈووکیسی سے رائے عامہ ہموار ہوتی ہے اور سماج میں شعور پیدا ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں تاکہ کچھ ٹھوس نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ مگر اب تک ترقی کی رفتار بہت مایوس کن ہے۔

گوکہ سابق جسٹس ثاقب نثار نے شعیب سڈل کمیشن بنانے میں کردار ادا کیا۔ اب تک اس کمیشن کا صرف ایک اجلاس ہوا ہے اور وہ بھی جنوری 2019 میں۔

ان کے علاوہ بھی احکام کی تعمیل میں کئی ادارتی مسائل ہیں جو رپورٹ میں بیان کیے گئے ہیں۔ عوامی پالیسی اور رویوں کی تبدیلی بہت ضروری ہے جن کے بغیر ان احکام پر عمل ناممکن نظر آتا ہے۔

اب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ان عناصر کی نشاندہی کرنی چاہیے جو پیش رفت میں رکاوٹ ہیں۔ کئی سول سوسائٹی کی تنظیمیں اس سلسلے میں حکومتوں کی مدد کرسکتی ہیں تاکہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور تمام انسانی حقوق کی پاس داری کی جا سکے۔

ہماری حکومتوں اور ریاستی اداروں کو سول سوسائٹی کی طرف معاندانہ رویہ بدلنا ہوگا جس کے بغیر پاکستان ایک مہذب معاشرے میں نہیں بدل سکتا۔ مہذب معاشرے صرف مالیاتی احتساب سے نہیں چلتے اس کے لیے تمام شہریوں کو تمام حقوق کی فراہمی ضروری ہے۔ شہری آزادیاں مہذب معاشروں کا لازمی جز ہیں جنہیں ہمیں یقینی بنانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).