نواز شریف، راج نیتی اور انصاف


تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اس پر تو کوئی دو رائے نہیں لیکن ہمارے کیس میں تاریخ کا دہرانا اس قدر اذیت ناک اور اس سے بھی بڑھ کر اتنا کریہہ صورت بن چکا ہے کہ پورے نظام سے اعتبار اور بھروسہ اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ آڈیو ویڈیو لیک نے احتساب کے پورے نظام پر سوالات کھڑے کر دے ہیں۔ جج ارشد ملک کی عدالت سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا اور ایک سال کے بعد ان کی ایک نواز لیگی کارکن ناصر بٹ سے گفت گو پر مشتمل آڈیو ویڈیو جس میں سزا کے سلسلے میں دباؤ کا ذکر کر رہے ہیں اس کےمصدقہ ہونے کے بارے میں لازماً تحقیق ہونی چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

اس سارے قصے نے ایک بار پھر ماضی کے ان کرداروں اور حالات و واقعات سے پردے سرکا دیے ہیں کہ اس ملک میں راج نیتی کے کھیل میں کیسے کیسے ناٹک اور ڈھونگ رچائے گئے اور کس طرح سیاست اور انصاف کے ایوانوں میں جمہوریت اور عدل کا قتل ہوتا چلا آیا یے۔ آج میاں نواز شریف کے ساتھ مبینہ زیادتی کا شورو غلغلہ ہے کہ انہیں احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ آج ان کی صاحبزادی اور جماعت عمران خان اور پس پردہ قوتوں کو اس بات کا الزام دے رہی ہیں کہ نواز شریف کی سزا کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے۔

یہ بھی تاریخ کا بہت ہی مضحکہ خیز گھماؤ ہے کہ آج کے مظلوم ماضی کے وہ ظالم تھے جو احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کا استحصال کرتے رہے ہیں۔ نواز شریف اینڈ کمپنی کی جانب سے بے نظیر بھٹو اور ان کے خاندان کو عدالتوں میں گھسیٹنا اور ان عدالتوں سے من چاہے فیصلے لینا زیادہ پرانا قصہ نہیں۔ جسٹس قیوم اور ان کی قبیل کے ججوں کا نواز شریف کے جرائم میں پارٹنر بننا ایک ایسا قبیح عمل تھا کہ جس نے پورے نظام انصاف کے پرخچے اڑا دیے تھے۔

نواز شریف کی جانب سے بے نظیر بھٹو اور ان کے خاوند کے خلاف مقدمے بنانے کا اعتراف تو خود میاں نواز شریف معروف صحافی سہیل وڑائچ کو دیے گئے انٹرویوز میں کر چکے ہیں کہ یہ مقدمات انہوں نے کسی کے کہنے پر بنائے تھے۔ یہ کون سی قوت ہے اس پر اب رازداری کے پردے نہیں رہے۔ نواز شریف بالکل اسی طرح ان قوتوں کا آلہ کار بنے رہے جس طرح آج ان کی جماعت اپنے سیاسی مخالف عمران خان پر الزام دھرتی ہے۔ سیاست دان جب آ لہ کار بنتا ہے تو اس کی مطلب ہےکہ وہ کسی ٹاؤٹ سے زیادہ کی حثیت نہیں رکھتا۔

سیاست دانوں کو خود سمجھنا چاہیے کہ وہ آلہ کار بن کر مخالفین کے لیے نہیں اپنے لیے گڑھا کھود رہے ہوتے ہیں۔ خفیہ ہاتھوں میں کھیلنے کا شوق ان کا اپنا ہوتا ہے لیکن اس کے بھیانک نتائج ملک و قوم کو بھگتنے ہوتے ہیں۔ عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلے لینے کا رجحان نواز شریف کے ساتھ ساتھ بے نظیر بھٹو اور ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو میں بھی پایا جاتا تھا۔ بھٹو صاحب کی جانب سے ججوں کو دباؤ میں لانے کے قصے تو اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو صفحات کے صفحات کالے کیے جا سکتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے بھی “جیالے ججوں” کے ذریعے عدلیہ کو گھر کی باندی بنانے کی کوششیں کئی بار کیں۔

ملک میں وہ سب سے بڑی قوت جو اقتدار و اختیار کے منبع پر جم کے بیٹھی ہوئی ہے اس کی ماضی کی تاریخ بھی اس طرح ججوں سے من چاہے فیصلے لینے سے عبارت ہے جس طرح سیاست دانوں کی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے۔ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس مولوی مشتاق حسین اور جسٹس نسیم حسن شاہ اور جسٹس حمید ڈوگر یہ سب اس بات اختیار قوت کے اشارہ ابرو پر جس طرح خدمت بجا لاتے تھے اس کے ذکر سے ہی جی متلانے لگتا ہے۔ عدالتوں کے ہاتھوں سیاست دانوں کو سزائیں اس قدر تکلیف دہ نہیں جس قدر سیاست دانوں کا ان قوتوں کا آلہ کار بن جانا جو ایک خاص سیاست دان اور جماعت کو دیوار سے لگانا چاہتے ہیں۔

سیاست دانوں کو سمجھنا ہوگا کہ آج وہ آلہ کار بن رہے ہیں تو کل انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا جائے گا۔ نواز شریف اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ کل تک نواز شریف مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر عدالتوں سے سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگا رہا تھا آج اتفاقات زمانہ دیکھیے کہ وہ خود اسی ٹریپ کا شکار ہو چکا ہے۔ آج نواز شریف سے ہمدردی بالکل اس شخص کی طرح ہے کہ جسے بیچ سڑک کچھ زور آور اشخاص پیٹ رہے ہیں۔ اس شخص کے ماضی سے آگاہی کے باوجود یہ ہمدردی دل و دماغ میں عود آتی ہے حالانکہ نواز شریف کے ماضی کے جرائم پر نگاہ دوڑائی جائے تو شاید ناپسندیدگی اس نہج کو پہنچ جائے کہ جسے آسانی سے بیزاری سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔

مستقبل میں اگر شومئی قسمت سے اگر نواز شریف دوبارہ حکمران بن جاتے ہیں تو گمان یہی ہے کہ وہ دوبارہ ان تمام اصولوں سے دستبردار ہو کر راج نیتی کے کھیل میں بالکل اسی طرح سمجھوتے اور عدالتوں کو مخالفین کی گوشمالی کے لیے استعمال کریں گے جیسا وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ لیکن کیونکہ آج وہ سزا یافتہ ہیں اور ان کی سزا کے پس پردہ مبینہ دباؤ اور جبر کے ہتھکنڈے استعمال ہونے کی آڈیو ویڈیو ثبوت منظر عام پر آچکی ہے تو لازم ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔ چاہے ان کے دور حکمرانی میں انصاف کا کیسے خون ہوا اور کیسے سیاسی مخالفین احتساب کے نام پر انتقام کی بھٹی میں جھونکے گئے۔ نواز شریف نے ماضی میں بے انصافی اور عدل کا گلا گھونٹا لیکن اس پہلو سے اس کے ساتھ ناانصافی کا کوئی جواز نہیں کیونکہ دو غلطیاں کبھی ایک صحیح کی صورت میں نہیں ڈھل سکتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).