زمین کی نچلی تہہ میں دبی آس


مجھے ہمیشہ سے ہی اندر ہی اندر گھٹن سے کوفت ہوتی تھی۔ میں نے پرورش بھی وہاں پائی جہاں عورت کو لمحہ بہ لمحہ اس کے عورت ہونے کا احساس دلوایا جاتا ہے۔ لڑکیاں اونچا نہیں ہنستی۔ ڈوپٹہ سر سے ہلا کیوں۔ لڑکیاں زیادہ نہیں بولتیں یہ فقرے مجھے ڈراونے خواب کی طرح نیند سے جگا دیا کرتے۔ مگر پانی کی طرح میں نے اقدار کو مجروح کیے بغیر یہ ساری رنجیریں توڑیں۔ نہ کبھی سگریٹ پیا۔ نہ شیشہ اور شراب کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

صحافت کی لت نے بہادر مزید بنا دیا۔ میں بے حس تو نہیں مگر جذبات کی کتاب میں شدت پسند تھی۔ پھر ذوال آیا۔ میں نے ہتھیار ڈالے۔ اونچا اونچا ہنستی اور کئی کئی گھنٹوں روتی۔ چپ کے فارمولے نے جیسے میرے اندر ایک چیخ رکھی ہو۔ اور میرے جسم کی پسلیوں نے مجھے ایسے جکٹرا ہو جیسے کشتی پر سفر بھی کرنا ہے مگر لہروں کا شور سنائی نہ دے۔ برداشت بڑھ نہیں رہی تھی۔ بغاوت سے ڈر لگنے لگا تھا۔ کیونکہ اس آزادی میں اقدار کا دوپٹہ جسم کو ڈھانپے ہوا تھا۔ آندھیاں آتیں تو میں آسمان کو ہی سایہ بنا کر پناہ لیتی۔ بجلیاں چمکیں بہت گری نہیں۔ بارشوں نے بھی حوصلہ نہیں توڑا۔ مگر آہ ایک باقی ہے کسی ویرانے کو سناوں گی۔

آہ کے اس راگ میں سیکنڑوں داستانیں پنہاں تھیں، لب سلے ہوئے مگر آنکھیں پڑھ لئے جانے کی منتظر مگر خشک سفید لباس میں رنگین خوابوں کا جنازہ اور کئی میل آرزوؤں کا پھیلا ہوا قحط، پانی کی بوندیں آگ برساتی تھیں مگر حلق کو تر کرنے کے لئے یہی کافی تھا، توکل اب اتنا ٹھنڈا بھی نہیں تھا کہ گرم پانی سے بے ایمان کہلوا لئے جائیں۔ ان گرد آلود ہواوں سے بھی کیا شکوہ جو ہلکا سا پھیرا لگاتے ہوئی چلتی بنیں۔ اب یہ کالی گھٹائیں مجھے کیا ڈرائیں گی جو خود بارش کے برسنے پر سفید پڑ جاتی ہیں، اس اماں سے اس کا بچپن پوچھیں تو ہزاروں قصے گوش گزار کر دیں گی مگر مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ آخری بار چھٹی کب منائی تھی، یہ چھوٹے جو گھر کے بڑے ہوتے ہیں ان پر آزمائشیں فرض ہوتی ہیں پھر فرض شناسی میں کوتاہی ہو تو بھگتنا لازم ہے۔ اس میں شکوہ تو نہیں بنتا، یہ سسکتی آواز کمزور نہیں پڑ رہی بلکہ الفاظ کے سمندر کا بند بچائے ہوئے ہوں۔

بے برکت سی فضا میں من و سلوی کا خیال کسی جنت سے کم نہ تھا جو میرے اندر امید کا دیا ہونے کا جیتا جاگتا ثبوت تھا لیکن پھر یہ غم کہ پوری زندگی جلتے بھی رہے اور چراغ بھی نہ بن سکے۔ روشن دان سے بھی اب اندھیرا آتا ہے لیکن دل کے روشن ہونے کی شاہد ہے میری یہ مسکراہٹ کو نم آنکھوں میں بھی جینے کی بھونڈی سی نقل اتار رہی ہیں کیونکہ ان اللہ مع الصابرین پر یقین کامل رکھنا میرا شیوہ ہے اور میں اس سے قدم نہیں ہٹھاوں گی نہ ہی نظریں چراوں گی کیونکہ میدان جنگ میں میں خود اتری تھی، اب بھاگنے کے لئے کون آتا ہے بھلا۔ یہ کہتے کہتے اس کی چیخ حلق میں کہیں پھنسی رہ گئی اور پھر زبان ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).