منشیات سے بھرپور سیاسی کہانیاں


مسلم لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ منشیات فروشی کے الزام میں زیر حراست ہیں۔ سرکار کی طرف سے بتایا جا رہا ہے کہ رانا ثناء اللہ کے پورے نیٹ ورک کو جلد ہی عوام کے سامنے لایا جائے گا۔ رانا ثناء اللہ سے پہلے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے حنیف عباسی ایفیڈرین کیس میں جیل بھگت رہے تھے پھر اچانک ان کی ضمانت منظور ہو گئی اور وہ آج کل مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ دہرانے کی بجائے اللہ اللہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ویسے بھی جو مقدمہ ان کے خلاف درج تھا اور پھر عدالت نے جو سزا سنائی اس کے بعد انہیں اللہ یاد آنا ہی تھا۔

بہرحال رانا ثناء اللہ 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں جبکہ ان کی اہلیہ نے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ عدالت نے رانا ثناء اللہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا تھا لیکن اے این ایف نے ان کی حالت جسمانی ریمانڈ والی کر رکھی ہے اور یہ کہ رانا ثناء اللہ کو ملاقات کے لئے دو افراد پکڑ کر سلاخوں تک لے کر آئے تھے۔ رانا ثناء اللہ کو بخوبی علم ہے کہ وہ جس سیاسی ملاکھڑے کے کھلاڑی ہیں اس میں کھلاڑیو ں کو بعض اوقات سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رانا ثناء اللہ کا کیس ماضی کے سیاسی منشیات فروشی کے مقدمات سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔

میاں نواز شریف جس دور میں اسٹیبلشمنٹ کے بہت ہی پیارے اور پپو بچے ہوا کرتے تھے اس وقت ایسے دو مقدمات کو شہرت حاصل ہوئی تھی۔ میاں نواز شریف نے 1997 ء میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو کرپشن کے مقدمات کی فائلوں تلے تقریباً دفن کر دیا تھا اور اس کام کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو کے منہ بولے بھائی اور صدر پاکستان فاروق لغاری نے ”گورکن“ کے فرائض سرانجام دیے تھے۔

میاں نواز شریف کے مشیروں نے انہیں بتایا تھا کہ کرپشن کے مقدمات کے نیچے دب کر بھی محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سانس لے رہے ہیں چنانچہ 1997 ء میں آصف علی زرداری جب گرفتار تھے تو ایک منشیات فروش عارف بلوچ کے اعترافی بیان کے بعد ان کے خلاف تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں منشیات فروشی کے الزام میں مقدمہ درج کر کے سزائے موت کی راہ ہموار کی گئی تھی اور پھر ایک اور منشیات فروش بلیک پرنس نے عدالت میں بیان دے ڈالا کہ وہ بھی آصف علی زرداری کے لئے منشیات فروشی کا دھندہ کرتا ہے۔

چنانچہ میاں نواز شریف نے اس یقین کے ساتھ مقدمے بنوائے کہ وہ اگر اقتدار سے نکل بھی گئے تو زرداری کی ان مقدمات کی پیروی کرتے کرتے جیل میں ہی عمر بیت جائے گی مگر آصف علی زرداری میاں نواز شریف اور اے این ایف کے افسران کی توقع سے بھی زیادہ مضبوط نکلے۔ زرداری کے خلاف 2004 ء میں گواہوں نے اپنے بیانات سے انحراف کر لیا اور کہا کہ انہیں تشدد کرکے یہ بیان دلوائے گئے۔ قصہ یہیں تمام نہیں ہوا بلکہ اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری شجاعت نے بھی اعتراف کیاکہ یہ مقدمات شریف برادران نے بھٹو اور زرداری فیملی کو دباؤ میں رکھنے کے لئے بنائے تھے اور پھر سونے پر سہاگہ اس وقت ہوا جب 2005 ء میں قومی اسمبلی کے فلور پر مسلم لیگ (ن) کے مرکزی راہنما خواجہ آصف نے اس ظلم کا اعتراف بھی کیا اور معافی بھی مانگی۔ اس طرح 2008 ء میں آصف علی زرداری ان مقدمات سے بری ہو گئے اور منشیات سے بھرپور یہ کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔

منشیات سے ”لبریز“ دوسری کہانی بھی میاں نواز شریف نے اپنے اسی دو تہائی مینڈیٹ کے زور پر لکھی اور اس بار اے این ایف نے پیپلزپارٹی کی کھل کر حمایت کرنے والے انگلش اخبار کے مالک رحمت شاہ آفریدی کو اپنے جال میں پھانسا۔ 1999 ء میں احمد شاہ آفریدی پر جو پہلا مقدمہ بنایا گیا اس میں تحریر تھا کہ وہ لاہور کے مال روڈ پر ایک ہوٹل کے باہر 20 کلو حشیش لے کر کھڑے ہوئے تھے۔ اس مقدمہ کے اندراج کے اگلے ہی دن فیصل آباد سے ایک ٹرک تحویل میں لیا گیا جس میں 650 کلو گرام حشیش موجود تھی۔

رحمت شاہ آفریدی نے جبر کے سامنے یہ جرم تسلیم کیے اور انہیں ابتدائی طور پر عدالت نے دونوں مقدموں میں الگ الگ سزائے موت سنائی جسے بعدازاں ہائی کورٹ نے عمر قید میں بدل دیا۔ رحمت شاہ آفریدی نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ سابق صدر غلام اسحاق خان اور سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے پیش کش کی تھی کہ منشیات کے سمگلروں کے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ساتھ تعلقات کے شواہد دو اور اس کے بدلے میں تمہیں گورنر خیبرپختونخوا بنا دیا جائے گا۔

رحمت شاہ آفریدی نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا لیکن اسٹیبلشمنٹ کو گود میں بیٹھ کر مخالفین کو بے دریغ کچلنے والے میاں نواز شریف نے یہ کدورت دل میں رکھی اور 1999 ء میں اس کا حساب برابر کر دیا۔ رحمت شاہ آفریدی ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف ایک زہر بھرا تیر تصور کیے جاتے تھے اور ان پر یہ بھی الزام تھا کہ آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی کے موقع پر منشیات کے سمگلروں سے قیمتی تحائف دلہا اور دلہن کو لے کر دیے تھے۔ رحمت شاہ آفریدی ان دو مقدمات کے نتیجے میں ملنے والی سزا اور جبربرداشت کرنے کے بعد آج کل لاہور میں ازسرنو اپنا انگریزی اخبار شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اس طرح منشیات سے بھری ہوئی یہ سیاسی اور صحافتی داستان آج بھی لاہور میں موجود ہے۔

اب تاریخ کا دھارا بدل چکا ہے جب میاں نواز شریف منشیات کے مقدمے بنوایا کرتے تھے اس وقت بیسویں صدی دم توڑ رہی تھی اور ان کی طاقت وردی میں چھپی ہوا کرتی تھی مگر اب اکیسویں صدی کے تقریباً 20 سال مکمل ہونے والے ہیں اور میاں نواز شریف وردی والوں کے دل سے اتر چکے ہیں اور ان کے دل پر قبضہ اب کسی اور کا ہے۔

اسے رانا ثناء اللہ کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب منشیات کے مقدمے بنانے کا کلی اختیار ان کے تاحیات قائد میاں نواز شریف کے پاس تھا تو وہ پیپلزپارٹی میں ہوا کرتے تھے اور اس وقت ان کا اتنا سیاسی قد نہیں تھا کہ ان پر منشیات فروشی کا الزام لگا کر مقدمہ بنایا جائے۔ اب یہ اختیار کسی اور کے پاس ہے اور رانا ثناء اللہ کا سیاسی مرشد اب وہ ہے جس نے یہ ہتھیار ایجاد کیا تھا مگر اب وہ یہ ”ہتھیار“ ضبط کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔

رانا ثناء اللہ نے اگر عدالت کے روبرو منشیات فروشی کے تمام الزامات کو تسلیم کر بھی لیا تو پھر بھی اے این ایف کے لئے چیلنج ہو گا کہ عوام بھی اسے تسلیم کریں وگرنہ پوری قوم جانتی ہے کہ ہمارے تفتیشی ادارے بھیڑ سے بھی تسلیم کروا لیتے ہیں کہ وہ بھیڑیا ہے۔ ہمارے سیاسی کلچر میں منشیات سے بھرپور سیاسی کہانیاں ان کے لئے بھی باعث عبرت ہیں جنہوں نے لکھی تھیں اور جو ان کا شکار ہوئے انہیں تو ویسے ہی نشان عبرت بنایا جاتا ہے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat