لفافہ صحافی کی 12 نشانیاں


موجودہ صدی جدت، تیزی اور تبدیلی کی صدی ہے. اس صدی کے پہلے عشرے میں مشرف کے مارشل لا اور دوسرے عشرے میں پی ٹی آئی کے ظہور نے سیاست ہی نہیں بلکہ نفسیات اور اخلاقیات تک بدل کے رکھ دی ہیں۔  اسی دور میں لفافہ صحافی کا تصور بھی تبدیل ہوا. ایک وقت تھا کہ دو طرح کے صحافی لفافہ سمجھے جاتے تھے، پہلے وہ جو بلیک میلر تھے اور کسی سچی، جھوٹی خبر کو چھاپنے یا چھُپانے کے لئے پیسے لیتے تھے یا وہ عوامی حاکمیت کے مخالف غیر جمہوری حکمرانوں کے کاسہ لیس تھے۔  آپ زیر تعمیرجمہوری معاشرے میں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کے اوپر اصل حکمران کون ہیں تو جائزہ لیجیے کہ کن طبقات اور لوگوں کے خلاف آپ کو بولنے کی اجازت نہیں یا بولنے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔  یہ ایک کامن سینس کی بات ہے مگر یہی سینس اس وقت کامن نہیں ہے۔  سماجی رابطوں پر ”اریسٹ اینٹی پاک جرنلسٹس“ اور ”لفافوں کو بھی اندر کرو“ کے ٹرینڈ سامنے آئے ہیں، یہ پاکستان کے مخالف بلکہ دشمن لفافے کون ہیں؟ ان کی نشانیاں کیا ہیں؟ ان کے بارے جاننا، خبردار رہنا اور ان سے دُور رہنا ازحد ضروری ہے۔

1۔ لفافہ صحافی کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کرتا ہے جو سب سے خطرناک نشانی ہے۔ یہ ظاہرکرتی ہے کہ وہ ان لوگوں کی وکالت کر رہا ہے جو آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔  لفافہ صحافی انتہائی چالاکی کے ساتھ کہتا ہے کہ تمام اداروں کو اپنی، اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ کرپٹ لوگوں کو معاشرے کے بہترین افراد کیفر کردار تک نہ پہنچا سکیں۔  اسے جناب عمران خان کا لایا ہوا انقلاب بھی نظر نہیں آتا۔ خود سوچئے، جسے یہ انقلاب نظر نہ آ رہا ہو، وہ کتنا بڑا بددیانت اور پٹواری نما ذہنیت کا مالک ہو گا۔

2۔ لفافہ صحافی کی دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ بلا امتیاز احتساب کی بات کرتا ہے۔ ثابت ہوا کہ وہ کرپٹ لوگوں سے لفافہ لے کر ان کے ایسے مخالفین کو بھی احتساب کے شکنجے میں لانا چاہتا ہے جو اس وقت انتہائی تن دہی اور دیانتداری کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔  اس لفافہ صحافی کو پکڑنا اس لئے ضروری ہے کہ وہ دراصل بلاامتیاز اور یکساں احتساب کی آڑ میں احتساب کے جاری عمل کی مخالفت کرتا ہے۔  یہ کوئی نئی قسم نہیں ہے بلکہ اس قسم کے کرپٹ اور لفافہ صحافی ایوب خان کے دور میں محترمہ فاطمہ جناح کو غدار تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ ضیاء الحق کے دور میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو جبکہ پرویز مشرف کے دور میں بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز سے لفافے لیتے تھے۔ ان میں سے بہت سارے نسل در نسل کرپٹ اور لفافے ہیں۔

3۔ لفافہ صحافی کی تیسری نشانی یہ ہے کہ وہ ملک میں تعمیر و ترقی اور میگا پراجیکٹس کا حامی ہو تا ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں کمی کی مخالفت کرتا اور دلائل دیتا پھرتا ہے کہ دنیا بھر میں ترقی کے پیمانے عوام کو ملنے والی یہی سہولتیں ہیں مگرلفافہ صحافیوں کی اس دلیل سے سوشل میڈیائی نوجوان ہرگز متاثر نہیں ہوتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تمام میگا پراجیکٹس منصوبے صرف کرپشن اور کمیشن کے لئے بنتے ہیں جس میں کرپٹ بیوروکریسی، ملک دشمن سیاستدان اورانہیں نظریاتی سہارا فراہم کرنے والے صحافی حصے دار ہوتے ہیں۔  جیسے ایک مثال ہے کہ لاہور، اسلام آباد موٹروے چالیس ارب روپوں میں مکمل ہوگئی مگر خان صاحب نے بتایاکہ اس میں چار سو ارب کی کرپشن ہوئی، اصل مالیت سے دس گنا کرپشن کیسے ہو سکتی ہے اور کوئی ثبوت؟ لفافے ہی ایسے سوال پوچھتے ہیں۔

4۔ لفافہ صحافی کی چوتھی نشانی یہ ہے کہ وہ معیشت کے اعداد وشمار پر یقین رکھتا ہے، وہ سکڑتی ہوئی اکانومی، جی ڈی پی میں کمی، جان لیوا مہنگائی، شرح سود میں اضافے اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔  اس کا کیلکولیٹر صرف پیپلزپارٹی اور نواز لیگ نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے دور میں بھی چلتا ہے اور بتاتا ہے کہ حکمرانوں نے دس ماہ کی قلیل مدت میں فی کس قرضے کتنے زیادہ کر دیے ہیں۔  لفافہ اس صحافی کو اُس عزم، حوصلے اور جرات سے محروم کر دیتا ہے جس میں وہ کہہ سکے کہ اگر خان پٹرول دو سو روپے لیٹر بھی کر دے تووہ تب بھی اس کے ساتھ ہے۔

5۔ لفافہ صحافی کی پانچویں نشانی یہ ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ”امن، برابری کی بنیاد پر“ کا حامی ہوتا ہے اور اگر کوئی اس کی تشریح کرنے کو کہے تو اکثر و بیشترخاموش ہو جاتا ہے۔

6۔ لفافہ صحافی کی چھٹی نشانی یہ ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے احترام میں پارلیمنٹ کے احترام کو بھی شامل کر لیتا ہے حالانکہ ایک پڑھے لکھے بندے کو ماجھوں گاموں کی عزت سے کیا لینا دینا؟

7۔ لفافہ صحافی کی ساتویں نشانی یہ ہے کہ وہ تاریخ، سیاسیاست، سماجیات اور اخلاقیات کا استاد بلکہ ماما بننے کی کوشش کرتا ہے۔  وہ ہر موقع پر ایوب خان، ضیاء الحق، پرویزمشرف کے دورکی مثالیں اٹھا لاتا ہے، جہاں بین الصوبائی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے وہاں اسے سقوط ڈھاکا یاد آنے لگتا ہے۔  وہ نئے پاکستان میں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے قنوطیت اور مایوسی پھیلاتا ہے۔

8۔ لفافہ صحافی کی آٹھویں نشانی یہ ہے کہ وہ حکمرانوں کے بیانات کی بجائے اقدامات کا تجزیہ کرتا ہے حالانکہ اگر وہ رپورٹر، کالم نگار یا اینکر ہے تو وہ حکمرانوں کے بیانات سے لوگوں میں ا یک امید، جوش اورجذبہ بھر سکتا ہے۔  وہ بتا سکتا ہے کہ دو روٹیوں کی بجائے ایک روٹی کھانا کس طرح صحت کے لئے مفید ہے کہ کرپٹ اور ٹیکس چور پاکستانی ہڈحرامی کی وجہ سے موٹے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

9۔ لفافہ صحافی کی نویں نشانی یہ ہے کہ وہ نئے پاکستان کے صدر، وزیراعظم، گورنر، وزرائے اعلیٰ، وزیروں اور مشیروں کی کسی محفل میں نہیں بلایا جاتا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک کرپٹ اور لفافہ صحافی ہے جبکہ ’نئے پاکستان‘ کے حامی صحافی ہرگز کرپٹ نہیں ہیں، یہ بات الگ ہے کہ ان کی اکثریت کروڑ پتی اور ارب پتی ہو چکی ہے اور وہ سب اپنی محنت، جدوجہد اور دیانت سے امیر ہوئے ہیں۔

10۔  لفافہ صحافی کی دسویں اور اہم ترین نشانی یہ ہے کہ وہ لفافے لینے کے باوجود کبھی تنخواہ بروقت نہ ملنے، کبھی بجلی اورگیس کے بلوں میں اضافے اور کبھی پٹرول کے مہنگا ہونے پر چیختا، چلاتا اور روتا، پیٹتا نظر آئے گا حالانکہ وہ جانتا ہو گا کہ اس کا وزیراعظم سمارٹ ہے مگرکبھی اس کی تعریف نہیں کرے گا۔

11۔  لفافہ صحافی کی گیارہویں نشانی ان کے سوشل میڈیا پروفائلز ہیں، وہاں مجال ہے کہ کوئی ہائیلی ایجوکیٹڈ، خوبصورت، سمارٹ اور طرح دار پروفائل ہولڈرز اس کی فرینڈز لسٹ میں نظر آئے جو اس کی اصل اوقات ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ اسے ڈیسنٹ پرسنالیٹیز منہ لگانے کو تیار نہیں، ہاں، ماما پاپا کی ڈولز وہاں انہیں گندی گندی گالیاں ضرور دیتی نظر آتی ہیں۔

12۔  لفافہ صحافی کی بارہویں نشانی یہ ہے کہ اسے عمران خان کے دھرنے کی کرسیاں خالی نظر آتی تھیں اور انتخابی مہم میں دوسری جماعتوں کے جلسے کامیاب۔ یہ حیران اور پریشان رہتا ہے کہ ناکام جلسوں کے باوجود عمران خان الیکشن میں کیسے کامیاب ہو گئے؟  لفافہ صحافی اس حوالے سے اوٹ پٹانگ باتیں کرتا اورمحب وطن طبقوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا نظر آتا ہے۔

یاد رکھئے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ آج کل لفافہ صحافی وہ نہیں جو حکومت کا حامی ہے بلکہ حکومت کا مخالف ہی اصل لفافہ صحافی ہے اور وہ حکومت کا مخالف بھی اس لئے ہے کہ خان نے اقتدار میں ا ٓنے کے بعد ان کے لفافے ہی نہیں بلکہ کئی کے چینل اور ٹوئیٹر اکاونٹس تک بند کروا دیے ہیں، باقیوں کی تنخواہیں بھی پچاس، پچاس فیصد تک کم کروا دی ہیں، جو کسر باقی رہ گئی ہے وہ ”اریسٹ اینٹی پاک جرنلسٹس“ اور ”لفافوں کو بھی اندر کرو“ جیسے ٹرینڈز کے بعد نکال لی جائے گی، انشاء اللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).