تیل اور گیس کی خوش خبریاں چھوڑیں، ٹھوس منصوبہ کیا ہے؟


پہلے وزیر ِ اعظم عمران خان صاحب نے یہ اعلان کیا کہ کراچی کے قریب سمندر میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہونے والے ہیں جس کے بعد پاکستان کو تیل درآمد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور مئی 2019 میں ہی متعلقہ وزارت نے یہ خبر سنا دی کہ اس کوشش کے نتیجہ میں جو کہ کیکڑا 1 کے کوئیں پر کی جا رہی تھی کوئی ذخائر دریافت نہیں ہوئے۔ پھر اس کے بعد جیو نیوز میں حامد میر صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر ِ اعظم صاحب نے فرمایا کہ کبھی بیرون ِ ملک پاکستانیوں سے جا کر پوچھیں کہ ان کو کتنی قدر ہے اپنے ملک کی۔

جو ملک سے باہر جاتا ہے اسے پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے کتنا بڑا تحفہ دیا ہے۔ اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ ہمیں حکومت کے اندر آکر پتہ چلا ہے کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے کیا کیا چیزیں دی ہیں۔ اور اس سلسلہ میں خاص طور پر کوئلہ اور تانبے کا نام لیا۔ مجھ جیسے کم علم کو جو پہلی بات سمجھ نہیں آ رہی وہ یہ ہے کہ اگر میں خود پاکستان میں رہ رہا ہوں تو مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ میں بیرون ِ ملک میں رہنے والے اپنے دوستوں، رشتہ داروں یا بچوں سے پوچھوں کہ پاکستان کو کن کن ’تحفوں‘ سے نوازا گیا ہے۔

ہمیں کیا خود یہ ’تحفے‘ نظر نہیں آ رہے؟ اگر اس سے مراد قدرتی وسائل کا موازنہ ہے تو یہ معلومات آسانی سے چند منٹ میں انٹر نیٹ سے معلوم کی جا سکتی ہیں۔ اس قسم کی تسلیوں سے بچوں کو تو بہلایا جا سکتا ہے پاکستان جیسے ملک کو بحران سے نہیں نکالا جا سکتا۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ قوم کے سامنے ٹھوس حقائق رکھے جائیں اور انہی کی روشنی میں منصوبہ بندی کیا جائے۔ ان دو حوالوں سے کچھ حقائق پیش ِ خدمت ہیں۔

اگر پاکستان میں خام تیل کی ماہوار پیداوار کو معیار بنایا جائے تو 2015 میں پاکستان میں خام تیل کی پیداوار 91 پزار بیرل یومیہ تھی۔ گذشتہ سال یہ پیداوار 90 ہزار بیرل یومیہ رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گذشتہ تین چار سال کے دوران پاکستان میں تیل کی پیداوار میں ڈرامائی اضافہ تو ایک طرف رہا کوئی تدریجی اضافہ بھی نہیں ہو رہا۔ ہم قدرتی طور پر ڈرامائی اور بڑی دریافتوں کو پسند کرتے ہیں۔ تو پاکستان میں اب تک تیل کی آخری بڑی دریافت تقریباً دس سال قبل 2009 میں نشپا آئل فیلڈمیں ہوئی تھی۔

اور پاکستان اپنی ضرورت کا صرف تقریباً بیس فیصد تیل خود پیدا کرتا ہے باقی بیرون ِ ملک سے منگوانا پڑتا ہے۔ جہاں تک گیس کا تعلق ہے تو 2012 کے بعد پاکستان میں قدرتی گیس کی پیداوار میں تقریباً ہر سال کمی آ رہی ہے۔ جہاں تک قدرتی گیس کے وسیع ذخائر ملنے کی خوش خبری کا تعلق ہے تو یہ خوش خبری آخری مرتبہ 1990 میں ملی تھی جب قادر پور کے مقام پر بڑے ذخائر دریافت ہوئے تھے۔ وزیر ِ اعظم صاحب کی اس بات کی سمجھ میں نہیں آتی کہ انہیں اقتدار میں آکر کیوں پتہ چلا ہے کہ پاکستان کو کوئلے سے نوازا گیا ہے؟

دس سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا کہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر تھر کے مقام پر کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ لیکن یہ کوئلہ Lignite اور Subbituminous قسم کا ہے جو کہ ادنی ٰ قسم کا ہے اور اس میں نمی کا تناسب 50 فیصد کے قریب پہنچا ہوا ہے۔ سلفر کی مقدار زیادہ ہے۔ اس وجہ سے اس کو خاطر خواہ طریق پر استعمال کرنا مشکل ہے اور اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ساہیوال اور پورٹ قاسم کے کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ برآمد شدہ کوئلہ استعمال کر رہے ہیں۔

البتہ بعد میں بننے والے پاور پلانٹ مقامی کوئلہ بھی استعمال کر رہے ہیں اور یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اس کے باوجود مجموعی نتیجہ یہ ہے کہ باوجود اتنے دعووں کے کہ پاکستان میں کوئلہ کے عظیم الشان ذخائر موجود ہیں برآمد کیے جانے والے کوئلہ کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور ایک اندازہ کے مطابق 2020 میں گذشتہ سال کی نسبت درآمد کیے جانے والے کوئلہ کی مقدار میں پچاس فیصد اضافہ ہوگا۔

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ تیل اور گیس کے ذخائر نہیں مل رہے تو آخر حکومت کیا کر سکتی ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ہو تو سکتا ہے مگر شدید محنت اور مسلسل منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔ اس سلسلہ میں کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ماضی میں بہت مرتبہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تیل اور گیس کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ان کے حصول کے لئے دریافت کیے گئے طریقے فرسودہ ہو گئے تھے اور نئی تحقیق اور طریقوں کی ضرورت تھی۔

ابھی کوہاٹ بیسن، بنو ں بیسن، بلوچستان بیسن کرتھار بیلٹ اور سلیمان بیلٹ جیسے علاقوں کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے مکمل سروے نہیں ہو سکتا اور نہ ہی یہاں کافی انفراسٹرکچر موجود ہے۔ اگر یہ نقص دور ہو جائیں تو ان علاقوں میں کوشش کی جا سکتی ہے۔ یا چونے کی چٹانوں میں تیل تلاش کرنے کی تیکنیک حاصل کر کے یا اسے ترقی دے کر ان سے تیل حاصل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ ایسی حکمت ِ عملی اپنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ نئی کمپنیاں پاکستان میں تیل تلاش کریں۔

سمندر میں کوشش کرنے والی کمپنیوں کے علاوہ گذشتہ دس سالوں میں پاکستان میں کوئی نئی کمپنی زمین میں تیل اور گیس تلاش کر نے کے لئے نہیں آئی۔ کئی پرانی کمپنیاں پاکستان سے رخصت ہوگئیں۔ اسی طرح شیل کی چٹانوں سے تیل اور گیس حاصل کرنے کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں شیل سمبار اور رانی کوٹ کے مقام پر پایا جاتا ہے۔ لیکن صرف باتوں سے تو شیل سے بھی تیل یا گیس نہیں نکل سکتا۔ امریکہ نے سالہا سال سینکڑوں کوئیں کھود کر پھر خاطر خواہ طریق پر شیل گیس حاصل کرنی شروع کی ہے۔

اس کے لئے بار بار کوئیں ڈرل کرنے پڑتے ہیں اور لاگت روایتی طریق کی نسبت دوگنی یا اس سے بھی زیادہ پڑتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ خواہ موجودہ حکومت ہو یا پرانی حکومتیں اکثر اوقات صرف سہانے خواب دکھا نے یا سنسنی پیدا کرنے پر اکتفا کرتی ہیں۔ اگر ان ذخائر سے فائدہ اُٹھانا شروع کرنا تو یہ سب کس طرح ہوگا؟ کیا تیکنیک استعمال کی جائے گی؟ اس ذکر سے احتراز کیا جاتا ہے۔ وزیر ِ اعظم صاحب سے بلکہ اپوزیشن سے بھی گذارش ہے کہ صرف یہ خوش خبری نہ سنائیں کہ ہم قدرتی وسائل سے مالامال ہیں بلکہ اسمبلی میں اور قوم کے سامنے وہ صبر آزما مراحل اور منصوبے رکھیں جن کے بعد ہم ان وسائل سے کچھ فائدہ اُٹھانے کے قابل بن سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).