گوتم سے گستاخی اور لال قلعہ


اوائل عمری میں لکھنا شروع کیا تو اس زمانے میں سب سے زیادہ شائع ہونے والے اخبار کا آفس نسبت روڈ پر لیبر ہال کے قریب ہوا کرتا تھا، میں کبھی کبھی اپنے والد کے دوست اشرف طاہر صاحب کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ، جو وہاں نیوز ایڈیٹر تھے، اشرف طاہر صاحب سینئر ٹی وی اداکارہ روبینہ اشرف کے والد تھے،غلام محی الدین نظر مشرق میں بچوں کے صفحہ کے انچارج تھے، ان سے بھی سلام دعا ہوتی ، ان کی دبلی پتلی شخصیت بچوں کے کارٹون جیسی تھی، حسن رضا خان وہاں فلم پیج کے کرتا دھرتا تھے، فلموں میں ڈاکٹر یا وکیل جیسے کرداروں میں بھی دکھائی دیتے ، بہت کم گو اور نفیس آدمی تھے۔

حبیب جالب کی طرح ہمیشہ اپنا بستہ بغل میں رکھتے ، سارا دن چائے اور پان کھاتے رہتے اور شام ہوتے ہی پریس کلب یا کسی فلم اسٹوڈیو میں پہنچ جاتے، ریاض بٹالوی مشرق کے فیچر رائٹر تھے، بہت نام تھا ان کا۔انہوں نے فیچر نگاری کو ایک نیا انداز دیا، وہ روزانہ گم ہو جاتے،اخبار میں اشتہار نما خبر چھپتی کہ جو قاری ریاض بٹالوی کا سراغ لگائے گا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا،عمرے کا ٹکٹ بھی ملے گا۔

کوئی بھی ریاض بٹالوی کو پکڑ نہ پاتا اور اگلے دن ان کی تصاویر چھپتیں۔ کبھی وہ ریلوے اسٹیشن پر قلی بنے ہوتے ، کسی دن ریڑھی پر قلفیاں بیچ رہے ہوتے، کبھی وہ ہاکر بنے اخبار بیچتے نظر آتے، اس لکن میٹی نے اخبار کو اور زیادہ مقبول بنا دیا تھا، اس روزنامہ سے چند قدم آگے ہفت روزہ ،، مصور،، کا دفتر تھا، یہ فلمی رسالہ بڑی تعداد میں چھپتا تھا۔ نذیر ناجی صاحب اور حسن نثار بھی اس میں لکھا کرتے تھے، ہفت روزہ نصرت کے مالک تھے شہزادہ عالمگیر، ایک خوبصورت خاندانی آدمی،عمر تیس پنتیس سال سے زیادہ نہ تھی۔

شہزادہ عالمگیر کا چھوٹا بھائی تھا، شاہ زیب ۔دلیپ کمار اسٹائل کٹنگ، وحید مراد جیسا لباس، درپن جیسی وجاہت،جب یہ ٹھان لی گئی کہ شاہ زیب کو فلمی ہیرو بنانا ہے تو رسالے کے سر ورق پر ہر ہفتے اسی کی تصویر چھپنے لگی، اس زمانے کی ہر ہیروئن کے ساتھ اس کی ماڈلنگ کرائی گئی، کئی مہینوں کی کاوشوں کے باوجود شاہ زیب کو کسی پروڈیوسر ، ڈائریکٹر نے سائن نہ کیا تو ایک دوسرا راستہ نکالا گیا،، ریاض بٹالوی اسٹائل راستہ،، شاہ زیب کے بارے میں ہفت روزہ مصور میں اشتہار چھپنے شروع ہوگئے کہ وہ سارا دن کسی نہ کسی بہروپ میں لاہور شہر کی سڑکوں پر رہے گا۔

جو اسے پہچان لے، ڈھونڈھ نکالے اسے قیمتی انعامات ملیں گے، میں یہ اشتہار ہر ہفتے دیکھتا اور سوچتا کہ کتنا گھٹیا طریقہ ہے پروموشن یا پبلسٹی کااور شاہ زیب کو زبردستی فلمی ہیرو بنانے کا، ایک دن کیا ہوا ؟ میں لکشمی چوک میں کھڑا بک اسٹال پر مصور میں شاہ زیب کی گمشدگی کا نیا اشتہار پڑھ رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک ایکٹر نظر آیا، فلمی نام تھا اس کا گوتم ، وہ فلموں میں چھوٹے چھوٹے رول ادا کیا کرتا تھا ، مگر اس کا اٹھنا بیٹھنا سیف الدین سیف اور حسن طارق جیسے بڑے لوگوں کے ساتھ تھا۔

وہ اکثر کنگ سرکل کے اندر یا حیدر پان شاپ پر دکھائی دیتا ، گوتم کو دیکھ کر ایک زبردست آئیڈیا میرے دماغ میں گونجا، میں فوراً ایک دوسرے اخبار کے دفتر پہنچا اور ایک کالم لکھ ڈالا، اس اخبار کیلئے میں ہفتے میں ایک دو مضامین لکھا کرتا تھا۔۔۔۔ میرے اس دن کے کالم کی سرخی تھی۔ شاہ زیب اداکار گوتم کی بیٹھک سے برآمد.

میں نے مصور کے مالکان، شاہ زیب کے وارثان اور فلمی جریدے کے قارئین کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے لکھا کہ چونکہ شاہ زیب کو ادھیڑ عمر ایکٹر کی بیٹھک سے بازیاب کرا لیا گیا ہے، امید کی جاتی ہے کہ پولیس نہ صرف شاہ زیب کا طبی معائنہ کرائے گی بلکہ ایک خوبصورت، نو عمر نوجوان کو اغواء کرنے اور حبس بے جا میں رکھنے کے الزام میں بوڑھے اداکار گوتم کے خلاف مناسب کارروائی بھی کرے گی۔

اگلے دن کالم چھپ گیارات کو گھر پہنچا تو ابا جی انتہائی غصے کے عالم میں میرے منتظر تھے، مجھے دیکھتے ہی ان کا پہلا جملہ تھا، الو کے پٹھے یہ تم نے کیا لکھ دیا؟ اور ، اور بہت سی گالیاں۔۔۔ ٭٭٭٭٭ ضیاء کے دورآمریت میں گنگا رام اسپتال سے آگے جیل روڈ کی جانب مڑنے والی سڑک وارث روڈ کے آخر میں مغلوں کے دور کا بنایا ہوا لال قلعہ ہوا کرتا تھا، جو کئی سال پہلے مسمار کیا جا چکا ہے اس قلعہ کے آخر میں ویران جگہ نظر آتی تھی، اسی ویرانے کے نیچے ایک جیل تھی، جس کی پندرہ کوٹھڑیاں ہوا کرتی تھیں، یہ کوٹھڑیاں غریبوں کے غسل خانوں سے بھی چھوٹی تھیں ، انیس سو بیاسی میں مجھے بھی کئی مہینوں تک یہاں باغی صحافی ہونے کے الزام میں قید رہنے کا شرف حاصل ہوا۔

یہاں میرے علاوہ ایک اور صحافی حامد جیلانی، دو وکیل اور باقی سیاسی کارکن تھے۔ ان اسیروں میں منظور موہل بھی شامل تھے، یہاں صرف ان قیدیوں کو رکھا جاتا تھا جو گرفتاری کے بعد حکام کی مرضی اور منشا کے مطابق اقبال جرم سے انکار کردیتے۔ اس قلعہ کی ہیبت کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ یہاں وہ لوگ لائے جاتے جو بدنام زمانہ شاہی قلعہ میں سارے مصائب جھیل کر بھی ناکردہ گناہ قبول نہیں کرتے تھے۔

انہی زیر زمین کال کوٹھڑیوں میں ایک دوپہر جب ہم چودہ اسیروں کو کھانا فراہم کیا گیا تو اس کے دو تین منٹ بعد ہی دل دہلا دینے والی چیخیں ابھرنے لگیں، کسی نامعلوم نئے قیدی کو ننگا کرکے اور فرش پر لٹا کر چھتر مارے جا رہے تھے۔یہ وہ لمحہ تھا جب پہلے سے موجود قیدیوں کے مونہوں میں روٹی کا پہلا نوالا داخل ہوا ہوگا، ہماری پانچ بائی پانچ فٹ کی کوٹھڑیوں کے آہنی دروازں کے ساتھ سلاخیں نہیں تھیں، ہر کوٹھڑی کے دروازے پر چھوٹا سا سوراخ تھا، جسے مارشل لاء حکام اور دیگر ایجنسیوں کے عہدیدار قیدیوں سے بات چیت کے لئے استعمال کرتے تھے۔

روٹی بھی اسی سوراخ کے ذریعے دی جاتی اور پھر اسے بند کر دیا جاتا، اس دن کی چیخیں ہمارے کسی ساتھی کی نہ تھیں، کیونکہ جب ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تو ہم اپنی چیخ اپنی روحوں میں جذب کر لیا کرتے تھے، تاکہ ہمارے ساتھیوں کو ذہنی اذیت نہ ہو۔ اس نئے قیدی پر دن میں کئی بار تشدد کیا جاتا، ایک دن کھانا فراہم کرنے والے باریش بزرگ سے میں نے اس نئے قیدی کے بارے میں پوچھ ہی لیا، بابا جی نے بتایا کہ اس کی عمر سترہ اٹھارہ سال ہے، وہ کسی بڑے افسر کے گھر ملازم ہے اور اس پر چوری کا الزام ہے۔میں نے سوچا کہ اگر ایسا ہی ہے تو اسے گرفتار کرکے تھانے یا جیل میں لے جایا جانا چاہئیے تھا، یہاں اس عقوبت خانے میں مقدمہ چلائے بغیر روزانہ تشدد کا کیا مطلب؟

یہ تو میری سوچ تھی، وجہ کوئی دوسری بھی ہو سکتی تھی، اس کا مقصد ہمیں خوفزدہ کرنا بھی ہو سکتا تھا۔ مجھ سمیت دیگر صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کوخود ایسے الزامات کا سامنا تھا، جو سمجھ سے بالا تھے، میں کئی بار دوران تفتیش سوال کرتا؛ مجھے میرے جرائم سے آگاہ کیا جائے؛ بتایا جائے یہاں کیوں لایا گیا ہوں؟ہر بار ایک ہی جواب ملتا؛ تم خود بتاؤ تمہیں یہاں کیوں لایا گیا ہے۔

اس نئے قیدی کی چیخوں کی آوازیں سنتے کئی ہفتے گزر گئے،پھر ایک دن اس پراسرار جیل کے داروغہ نے رات گئے ہم سب کو باری باری سیلوں سے نکال کر دالان میں جمع کیا، جہاں وہ نامعلوم نوجوان قیدی بھی موجود تھا، اس کا پورا جسم تشدد سے سوجھا ہوا تھا، وہ سر جھکائے ہمارے ساتھ خاموش بیٹھا تھا، داروغے نے جس کا جثہ اور قدوقامت پہلوانوں جیسا تھا، مٹھائی کا ایک چھوٹا سا ڈبہ ہمارے درمیان رکھا اور بولا۔ آج خوشی کا دن ہے، اسی لئے تم سب کو کوٹھڑیوں سے نکالا ہے، اس لڑکے نے سچے دل سے گناہ قبول کر لیا ہے، اب اسے اعلی افسر کی مسروقہ اشیاء کی برآمدگی کے لئے کل پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).