کرما کے بارہ قوانین


ہندوستانی فلسفے اور مذاہب میں ایک تصور ہے ’کرما‘ ۔ اس سے مراد وہ آفاقی قوانین ہیں جن کے تحت کسی بھی فرد کے اچھے برے اعمال کے نتیجے میں اس کے مستقبل کا تعین ہوتا ہے، انہیں ”کرما کے قوانین“ کہا جاتا ہے۔ ابراہیمی مذاہب (یہودیت، عیسائیت، اور اسلام) کے برعکس، جن میں سزا اور جزا کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہے تو بخش دے اور چاہے تو سزا دے

کرما کی پیروی کرنے والے مذاہب ہندو مت، بدھ مت اور جین مت۔ میں کوئی خدا یا خارجی قوت یہ کام نہیں کرتی بلکہ کرما کے قوانین کے تحت اعمال کے نتائج از خود سامنے آ جاتے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ جس طرح کائنات میں طبیعات کے قوانین آفاقی اور اٹل ہیں اور ان میں کسی قسم کی خدائی مداخلت نہیں ہوتی اسی طرح کرما کے ماننے والوں کے نزدیک کرما کے قوانین بھی خود کار نظام کے تحت کائنات میں خاموشی سے کام کرتے ہیں اور وقت مقررہ پر ان کا نتیجہ سامنے آتا ہے۔

میں سائنس کا طالب علم ہوں، مجھے نیوٹن کے قوانین حرکت، مسئلہ فیثا غورث یا آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت ماننے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کیونکہ یہ سب باتیں طبیعات اور ریاضی کی مدد سے ثابت شدہ ہیں مگر کرما کے قوانین کے متعلق میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ
Falsification Principle
یعنی اصول تکذیب کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتے۔ اس اصول پر بعد میں بات کریں گے پہلے دیکھتے ہیں کہ کرما کے قوانین کیا ہیں؟

کرما کا پہلا قانون ہے کہ ہم اس دنیا میں جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ پلٹ کر ہمارے سامنے آ جاتا ہے، اسے علت و معلول کا قانون بھی کہا جاتا ہے، یعنی اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں اس دنیا میں محبت ملے تو ہمیں محبتیں بانٹنی چاہئیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے ساتھ بھلا کریں تو ہمیں بھی لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنی چاہیے، اگر ہم لوگوں کے ساتھ بدی کریں گے تو اس کے نتیجے میں بدی ہی پیدا ہوگی اور وہ ہماری طرف ہی پلٹے گی، یوں یہ قانون نہ صرف انسان کو اعلیٰ اخلاق کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے بلکہ اس سے بدی کا وجود سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

کرما کا دوسرا قانون ہے کہ کوئی بھی چیز خود بخود پیدا نہیں ہوتی، زندگی میں تبدیلی لانے کے ضروری ہے کہ اس کے اسباب پیدا کیے جائیں، یہ ممکن نہیں کہ آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور زندگی میں واقعات آپ کی مرضی کے مطابق وقوع پذیر ہوتے رہیں۔

کرما کا تیسرا قانون ہے عاجزی، آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ کی موجودہ زندگی دراصل آپ کے گزشتہ اعمال کا نتیجہ ہے سو کسی دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے عاجزی سے اس حقیقت کو قبول کریں۔

کرما کا چوتھا قانون ہے کہ دنیا کو بدلنے سے پہلے ضروری ہے کہ خود کو بدلا جائے، جب آپ خود کو تبدیل کرنا شروع کریں گے تو دنیا میں مثبت تبدیلی خود بخود آنا شروع ہو جائے گی اور اس بات کا قلق جاتا رہے گا کہ دوسروں کی زندگیاں تبدیل کرنے کا اختیار آپ کے پاس کیوں نہیں ہے۔

کرما کا پانچواں قانون ہے کہ اپنی زندگی میں ہونے والی باتوں کی مکمل ذمہ داری ہماری اپنی ہے، ہم اپنی مرضی سے کیے گئے فیصلوں کا مجموعہ ہیں۔
کرما کا چھٹا قانون ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل آپس میں جڑے ہیں، ہم آج جو ہیں وہ ہمارے ماضی کے اعمال کا نتیجہ ہے اور آج جو عمل کریں گے وہی مستقبل میں ہماری شخصیت میں ڈھل جائیں گے یعنی جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔

ساتواں قانون ارتکاز کا ہے، ایک وقت میں ایک سے زیادہ چیزوں پر فوکس کرنا ممکن نہیں ہوتا لہذا بہتر ہے کہ زندگی میں اعلیٰ و ارفع اقدار پر فوکس کیا جائے، پست اور گھٹیا باتوں میں وقت نہ ضائع کیا جائے۔
آٹھواں قانون ہے کہ ہم اس کائنات کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں اس کے لیے اسی سمت میں کوشش کرنی چاہیے یعنی اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ دنیا امن اور شانتی سے رہے تو ہمیں امن کو فروغ کرنے کے اقدامات کرنے ہوں گے، یہ ممکن نہیں کہ ہم دنیا میں امن کا پیغام پھیلائیں اور ساتھ اسلحے کے ڈھیر بھی اکٹھے کرتے رہیں۔

نواں قانون، ذہنی سکون اور شانتی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی سے جان چھڑائیں خاص طور سے اگر ماضی میں ہم سے کوئی غلطیاں ہوئی ہیں اور منفی تصورات کو دماغ میں جگہ دینے کی بجائے حال پر فوکس کریں۔
دسواں قانون، تاریخ اس وقت تک اپنے آپ کو دہراتی رہے گی جب تک ہم اس سے سبق نہیں سیکھیں گے اور اس کا چکر تبدیل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائیں گے۔

گیارہواں قانون، اپنے اچھے کرموں کا صلہ پانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ صبر اور مستقل مزاجی سے کام لیں، اپنے اہداف کو مسلسل پانے کی کوشش کرتے رہیں، پھل آپ کی جھولی میں آن گرے گا۔
بارہواں قانون، اس دنیا میں اپنے حصے کا کام کر کے جائیں، آپ کا کیا ہوا چھوٹا سا کام بھی کسی کی زندگی بدل سکتا ہے، خود کو غیر ضروری اور اس زندگی کو بے مقصد نہ سمجھیں، آپ کے وجود کی انفرادیت کی بدولت اور آپ کے کسی ہنر اور قابلیت کی وجہ سے یہ دنیا بدل سکتی ہے۔

ظاہر ہے کہ ان تمام قوانین کو اصول تکذیب کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاسکتا، یہ وہ اصول ہے جس کے تحت ہم کسی نظریے کی سچائی کو جانچ سکتے ہیں، بیسویں صدی کے ذہین فلسفی کارل پوپر نے یہ اصول بنایا تھا کہ کسی سائنسی نظریے کو پرکھنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا اس نظریے کو غلط ثابت کرنے کا کوئی طریقہ ہے یا نہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ دنیا میں کوا سیاہ رنگ کا ہوتا ہے تو اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے ایک سفید رنگ کا کوا دریافت کرنا کافی ہو گا۔ کرما کے قوانین اس اصول تکذیب پر نہیں پرکھے جا سکتے لہذا ہم انہیں سائنسی قوانین نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ان کے ماننے والوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ان قوانین کو ریاضی یا فزکس کے بالمقابل لا کر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔

لیکن یہ کائنات صرف ریاضی اور فزکس کے قوانین کا مجموعہ تو نہیں، اس کائنات میں بہت سی ایسی حیرت انگیز باتیں ہوتی رہتی ہیں جن کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کی جا سکتی، خود ہمارا اس سیارے پر موجود ہونا بذات خود ایک ایسا معمہ ہے جو انسان سے تا حال حل نہیں ہوسکا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کرما کے یہ قوانین انسانوں پر تو پتہ نہیں لاگو ہوتے ہیں یا نہیں، ہماری قوم پر بحیثیت مجموعی شاید لاگو کیے جا سکتے ہیں۔ بطور قوم ہم نے جو کچھ بویا ہے بالکل وہی کاٹا ہے اور یہی ان قوانین کا خلاصہ ہے، لیکن قطع نظر اس بات سے، یہ قوانین انسان کے لیے اطمینان اور آسودگی کا باعث ضرور ہیں۔

ان میں سے کچھ قوانین تو عام فہم ہیں جن میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی، جیسے کہ زندگی میں اس وقت تک تبدیلی نہیں آ سکتی جب تک ہم خود اس کے لیے عملاً کوشش نہ کریں اور یہ کہ ہم دنیا کو جس طرح دیکھنا چاہتے ہمیں اپنا عمل بھی اسی طرح کرنا چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ مگر کچھ قوانین ایسے ہیں جو بظاہر تو اٹل لگتے ہیں مگر حقیقت میں نہیں ہیں، مثلاً موجودہ زندگی ہمارے گزشتہ اعمال کا نتیجہ ہے، یہ بات بے سروپا ہے کیونکہ ہم یہ جان ہی نہیں سکتے کہ گزشتہ اعمال کون سے تھے جن کی بدولت ہمیں موجودہ زندگی کی ’سزا‘ مل رہی ہے، اسی طرح بعض اوقات پیہم کوشش بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اکثر لوگ غلط سمت میں جد و جہد کرتے رہتے ہیں۔

کرما کے قوانین کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ اس دنیا میں ہمارے ہر عمل کا ایک رد عمل ہے، ہم جیسا عمل کریں گے ویسا ہی جواب میں پائیں گے، انہیں آپ نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت کا فلسفیانہ نسخہ بھی کہہ سکتے ہیں، ان قوانین سے یوں لگتا ہے جیسے اس دنیا میں ہی ہر بندے کے ساتھ انصاف ہو جائے گا، حالانکہ حقیقت یہ نہیں، حقیقت یہ ہے کہ دنیا نا انصافی پر کھڑی ہے اور یہ بات ہم جتنی جلدی تسلیم کر لیں اتنا ہی اچھا ہے۔

اگر کسی کو اس بات میں شک ہو تو وہ انسانوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کی تاریخ نکال کر دیکھ لے، پھر بھی تسلیٰ نہ ہو تو ان رسومات کے قصے پڑھ لے جن میں بتایا گیا ہے کہ کیسے کھولتے ہوئے الاؤ میں بچوں کو پھینک کر ان کی قربانی دی جاتی تھی اور اگر یہ سب باتیں ہمیں قبل از مسیح کی لگیں تو حالیہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں بلکہ تاریخ دیکھنے کی کیا ضرورت ہے اپنے گھر سے باہر نکلیں اور سڑکوں پر بھیک مانگتے ہوئے بچوں کو دیکھ لیں، بے آسرا لوگوں کو سیلاب میں ڈوبتے ہوئے دیکھ لیں اور بڑے بڑے شاپنگ مالز میں کام کرتی ہوئی لاغر لڑکیوں کو دیکھ لیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ دنیا کرما کے قوانین پر نہیں بلکہ نا انصافی کے قوانین کے بل کر کھڑی ہے، لہذا اگلی مرتبہ اگر کوئی کہے کہ یہ سب آپ کے اچھے کرموں کا نتیجہ ہے تو اس کا عاجزی سے شکریہ ضرور ادا کریں، اس پر یقین نہ کر بیٹھیں!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments