سانپ اور بزرگ


بہت پرانا قصہ ہے۔ بارہا کہا گیا بارہا سنا گیا۔ ایک شخص جنگل میں سے گزر رہا تھا کہ اس نے خاردار جھاڑیوں میں اک سانپ پھنسا ہوا دیکھا۔ سانپ زخموں سے چور ملتجیٰ نظروں سے اس آدمی کو دیکھنے لگا۔ آدمی کو سانپ پہ ترس آگیا اور اس نے اک زیتون کی شاخ لے کر زخمی سانپ کو جھاڑیوں سے باہر نکالا۔

باہر نکلے کے بعد بجائے اس کے سانپ اس آدمی کا مشکور ہوتا سانپ نے پھنکارنا شروع کردیا میں تمہیں ڈسوں گا، میں تمہیں ڈسوں گا۔ اب آدمی مشکل میں پھنس گیا اسے سمجھ نہ آئے کیا کرے۔ اس نے بھاگنے کی کوشش کی مگر سانپ کے زہر کے ڈر سے بھاگ نہ سکا۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ نیکی گلے پڑگئی۔ اس آدمی نے سانپ سے کہا میں نے تمہارے ساتھ نیکی کی مگر تم بجائے ممنون ہونے کے الٹا مجھے ڈسنے پہ آمادہ ہو۔ سانپ نے کہا ہاں نیکی کا بدلہ بدی ہے۔

اس آدمی نے کہا چلو کسی معزز کسی منصف کے پاس چلتے ہیں فیصلہ کروا لیتے ہیں۔ میں نے نیکی کی ہے اور میرے خیال میں نیکی کا بدلہ نیکی ہے اس لیے فیصلہ میرے حق میں ہی ہوگا۔ سانپ نے کہا یہ رہا گھوڑا اور یہ گھوڑے کا میدان فیصلہ کروانا کون سا مشکل کام ہے ابھی چلتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا آج نیکی کا بدلہ بدی ہے اس لیے فیصلہ میرے حق میں ہوگا۔ سب سے پہلے وہ آدمی اور سانپ اک گائے کے پاس گئے اور اپنا مدعا بیان کیا۔

اور ساتھ میں یہ بھی بتایا کے سانپ کہتا ہے کے نیکی کا بدلہ بدی ہے۔ گائے نے ساری کہانی سنی اور ٹھنڈی آہ بھر کر بولی اے شخص شاید تمہیں قبول نہ ہو مگر اب نیکی کا بدلہ بدی ہے۔ مجھے دیکھو میں جوان تھی تو مالک کو دودھ دیتی تھی۔ مالک کا بوجھ اٹھاتی تھی۔ اس کے بچے میرا دودھ پی کر جوان ہوئے ہیں۔ مالک بھی میرا خیال رکھتا تھا۔ مجھے چارہ اور پانی دیتا تھا۔ اب میں بیمار اور بوڑھی ہوگئی ہوں۔ اب میں دودھ دینے کے قابل نہیں رہی۔ تو مالک نے میرا خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اب میں بھوکی مروں یا پیاسی اس کی بلا سے۔

یہ سن کر سانپ خوشی سے پھنکارنے لگا میں تمہیں ڈسوں گا، میں تمہیں ڈسوں گا۔ اب پریشان آدمی نے اس سے کہا یہ گائے بیمار ہے عربی کی کہاوت ہے بیمار کی رائے بھی بیمار ہوتی ہے چلو کسی اور سے پوچھتے ہیں۔ سانپ مان گیا۔

آگے ان کو اک گدھا ملا۔ گدھے نے پوری بات سنی اور کہا میرے خیال میں بھی نیکی کا بدلہ بدی ہے۔ جب میرے اندر دم تھا میرا مالک دن رات مجھ پہ سوار رہتا تھا۔ میرے مالک نے میری سواری کرکے قریہ قریہ گھوما ہے۔ مجھ پہ میری سکت سے دوگنا بوجھ لادتا رہا۔ اب جب میں بوڑھا ہوگیا تو میرے مالک نے مار پیٹ کے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ اب میں جنگل میں درندوں سے بچتا پھرتا ہوں۔ اس حالت میں میرا کوئی پرسان حال نہیں۔

سانپ یہ بات سن کر آدمی کو ڈسنے ہی لگا تو آدمی نے منت سماجت کرکے سانپ سے کہا مجھے اک موقع اور دے دو۔ گدھے میں کہاں کی عقل جو ہم اس سے فیصلہ کروانے چلے۔ کسی دانا کے پاس چلتے ہیں۔ سانپ طوعاً وکرہاً مان گیا۔ دو فیصلے سانپ کے حق میں ہوچکے تھے سانپ کو امید تھی تیسرا فیصلہ بھی اسی کے حق میں ہوگا۔

اب کی بار وہ اک بزرگ کے پاس پہنچے اور سارا واقعہ دہرایا۔ ساتھ میں سابقہ فیصلوں کی تفصیل بھی لف کردی۔ بزرگ نے ان کا قصہ سنا اور ان سے کہا مجھے ان جھاڑیوں کے پاس لے چلو جہاں سے سانپ کو نکالا تھا۔ پہلے سانپ کو جھاڑیوں میں پھینکو اور پھر میرے سامنے نکالو جیسا تم نے پہلے نکالا تھا۔ تب میں فیصلہ کروں گا۔ ایسا ہی کیا گیا۔ تینوں جھاڑیوں کے پاس گئے اور سانپ کو دوبارہ خاردار جھاڑیوں میں پھینک دیا گیا۔ اب آدمی سانپ کو دوبارہ نکالے ہی لگا تھا کے بزرگ نے منع کردیا۔ اور کہا اس کی اس کی اوقات نہیں کے اس کے ساتھ نیکی کی جائے۔ اس کا مقام یہی خاردار جھاڑیاں ہیں۔ اس کے لیے یہی بہتر کے یہاں ہی پڑا رہے جو اسے نکالے گا وہی نقصان اٹھائے گا۔

عشروں سے ہمارا واسطہ بھی گئی طرح کے سانپوں سے ہے۔ کچھ آستین کے سانپ۔ کئی مذہب کے نام پر لوٹ مار کرنے والے سانپ۔ کچھ خون چوسنے والے سانپ۔ کچھ رنگ باز سانپ۔ کئی خاندانی سانپ ہیں جو نسل درنسل زہر پھونک رہے ہیں۔ ہم نے ہی ان جھاڑیوں میں رہنے والوں کو مسند ارشاد عطا کی ہے۔

ان سانپوں نے اپنے محسنوں کو ڈس ڈس کر جھاڑیوں میں پھینک دیا ہے اور خود محل پہ محل کھڑے کر لیے ہیں۔ یہ سانپ کئی طریقہ سے ڈستے ہیں کبھی لیڈری کے نام پر۔ کبھی سیاست کے نام پر۔ کبھی جعلی تصوف کے نام پر۔ کبھی رہبری کے نام پر۔ ان سانپوں کا اصل مقام خاردار جھاڑیاں ہیں۔ اور کبھی گائے اور گدھے کو منصف نہ چنیں۔ اپنے فیصلے ان لوگوں کے ہاتھ دیں جو دانا اور بزرگ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).