قومی مسائل اور ہمارا فکری بانجھ پن


\"adnanمذہبی انتہا پسندی، پانی کا بحران، توانائی کی قلت، ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب پیدا ہونے والی تباہ کاریاں اور تیزی سے بڑھتی آبادی یہ ایسے گھمبیر مسائل ہیں کہ پاکستان مستقبل میں کئی دہائیوں تک ان کا سامنا کر سکتا ہے یہ مسائل بیس کروڑ کی آبادی کا حلیہ بگاڑ دینے کے لیے کافی ہیں

نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشتگردی کے خلاف ہونے والی کارروائیاں اور ان کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نتائج حوصلہ افزا ضرور ہیں لیکن کیا یہ مسئلے کے طویل مدتی حل کے لیے کافی ہے؟
میرے خیال میں تو ایسا نہیں ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد بلا شبہ ہم نے شدت پسندی کے درخت کی کاٹ چھانٹ کر کے اسے کمزور ضرور کر دیا ہے لیکن یہ درخت جس آب و ہوا اور ماحول میں پھلتا پھولتا ہے وہ ابھی تک جوں کا توں ہے۔

مسلم لیگ نون کی حکومت جو انرجی بحران پر قابو پانے کا نعرہ لے کر میدان انتخاب میں اتری تھی وہ اس مسئلے کو سمجھنے اور بہترین منصوبہ بندی کے ذریعے قابو پانے میں مکمل طور پر کامیاب تو نہیں ہوئی البتہ اس ضمن میں کافی کام ہو رہا ہے اور حکومت اس مسئلے کو سیاسی زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھتی ہے لہذا امید کی جاتی ہے کہ مستقبل قریب میں ہم اس بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جبکہ پانی کی قلت و ناقص منصوبہ بندی اور تیزی سے بڑھتی آبادی ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں حکومت ’ڈنگ ٹپاو¿‘ کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے

دراصل دانشور کی فکر سے پیدا ہونے والا مکالمہ اور اس سے پھوٹنے والا اجتماعی عوامی شعور ہی وہ واحد فارمولا ہے جو حکومت اور انتظامیہ کو مسائل کی سمجھ اور ان کے سد باب کی تحریک دیتا ہے۔

لیکن جب فکری معیار کا عالم یہ ہو کہ موم بتی جلانے کو تہذیب پر یلغار سمجھا جائے۔ اپنی جان خلاصی کے لیے عرب و فارس میں مصالحتی کردار ادا کرنے پر ملک کو مسلم دنیا کا قلعہ باور کروایا جائے بھارت سے دشمنی اور دوسری قوموں کو فتح کرنے کو مقصد حیات سمجھا جائے، کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی سے شریعت کو خطرہ ہو اور تمام تر فکری بحثیں خوابوں کی اسی جنت کے گرد گھومنے لگیں تو پھر حقیقی مسائل کسی صورت بھی پہلی ترجیح نہیں رہتے جس کے نتیجے میں حکومت شارٹ ٹرم بجلی کے حل، نیلی پیلی گاڑیوں اور پلوں سے اپنی سیاسی ساکھ بحال رکھنے پر ہی اکتفا کر لیتی ہے۔

تو دوسری طرف یہ فکری بانجھ پن عوامی ذہنوں میں زمینی حقائق سے کوسوں دور بن قاسم ٹائپ کا ہیرو گیری نقشہ اتار دیتا ہے جس کا نتیجہ ضیا الحق اور پرویز مشرف کی صورت نکلتا ہے جس سے فکری ارتقا کی رہی سہی امید بھی دم توڑ جاتی ہے عوامی شعور منجمد ہونے لگتا ہے اصل مسائل اجتماعی بحثوں سے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں

یہ اسی فکری بانجھ پن کا نتیجہ ہے کہ ملک کو ایٹمی ٹیکنالوجی دینے والا ذوالفقار علی بھٹو اور میزائل ٹیکنالوجی سے لیس کرنے والی بینظیر بھٹو غدار جبکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا وبال دینے والا ضیا الحق مرد مومن ٹھہرتا ہے۔ مستقبل کا شفاف آئینہ دکھانے والا باچا خان اور منتشر حالات میں امن و امان بحال کرنے والا نواز شریف غدار ٹھہرتا ہے جبکہ ملک کو خون و آگ میں جھونکنے والا مشرف محب وطن کا اعزاز پاتا ہے

خدا کا شکر ہے کہ آج پاکستان میں جمہوریت اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے جس کے نتیجے میں مکالمے کو فروغ مل رہا ہے اور عوامی شعور بڑھ رہا ہے یہی شعور حکومت کو اصل مسائل سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی تحریک دے گا اور انشا اللہ ہم تمام مسائل پر جلد یا بدیر قابو پا لیں گے ۔دعا گو ہوں کہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے لیکن اگر خدانخواستہ یہ سلسلہ یہاں سے ٹوٹا تو ہم مسائل کی ایسی گھاٹی میں جا گریں گے جہاں سے روشنی کی تمام کرنیں منہ موڑ لیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments