یہ میں ہوں اور بس یہی کچھ ہوں


تین چار سال قبل دوستوں کی ایک محفل میں یہ سوال رکھا گیا، کِہ کتاب لانا کیوں ضروری ہے۔ ایسے میں ایک دوست نے مجھ سے کہا، کہ تم اپنے ڈراموں کی کتاب کیوں نہیں چھپواتے؟

’’ڈرامے کون پڑھتا ہے؟‘‘ میرا یہ پوچھنا تھا۔

اسکرین کے لیے لکھے گئے سیریل یا فلمیں بھلا پڑھنے کی شے تھوڑی ہوتی ہیں۔ وہ اسکرین ہی پہ بھلی لگتی ہیں۔

دوسرے نے کہا، کہ اس طرح تمھاری کتاب تو مارکیٹ میں آ جائے گی۔

آپ ہزار اسکرین پلے لکھ لیں، جب تک ان کی اسکریننگ نہیں ہوتی، کوئی اسکرین پلے رائٹر تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہی احوال کتاب چھپنے نہ چھپنے کا ہے۔

افسانہ نگار کہلانا کبھی میرا مسئلہ نہیں رہا۔ یہی کوئی چار پانچ برس پہلے تک میں کھلم کھلا یہ اعتراف کرتا تھا، کِہ میں رائٹر نہیں ہوں۔ بیچ میں کچھ ساتھیوں نے اعتراض کیا کہ جب تم لکھتے ہو، تو خود کو رائٹر کیوں نہیں مانتے؟ اس سوال سے بچنے کے لیے میں کہنے لگا، کہ میں اسکرین پلے رائٹر ہوں۔ پھر کوئی تعارف کرواتے کہتا، کہ یہ رائٹر ہیں، تو میں خاموش رہتا کہ چلو اس جھوٹ سے میرا کچھ فائدہ ہے، تو کسی کا کیا جاتا ہے۔ اس معصومانہ یا مجرمانہ خامشی سے یہ ہوا، کہ بہت سے مجھے شاعر بھی بتلانے لگے، جب کہ مجھے مصرع سیدھا کرنا نہیں آتا۔

مجھے خیال آیا کہ میرے پاس کچھ آدھے ادھورے افسانے لکھے پڑے ہیں۔ کچھ ایسی تحریریں بھی، جنھیں افسانہ نہیں کہا جا سکتا، در اصل وہ شاٹ موویز کے ’’خیال‘‘ ہیں۔ انھی میں ایک ڈاکیو ڈراما کا اسکرپٹ بھی ہے۔ میں نے مشورہ کیا کہ افسانوں کی کتاب نہ لے آوں؟ اُن میں سے ایک فلسفیانہ انداز میں گویا ہوا، ’’افسانہ تو زندگی کی ایک جھلک ہے، ناول پوری زندگی ہے، ناول لکھو۔‘‘ مجھے اس کا ایسا کہنا بہت پسند آیا۔ لیجیے، افسانوی مجموعے کا ارادہ ترک کر دیا۔

میرا ماننا تھا، کہ ناول لکھنے کے لیے جس تحمل مزاجی، برداشت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ مجھ میں نہیں ہے۔ کون دو دو چار چار سال میں ایک ناول لکھے، اور کیوں لکھے؟ پھر قسمت کا کرنا یہ کہ میری روزی روٹی لکھنے سے وابستہ ہے، تو اس سے کم عرصے میں ٹیلے ویژن کے لیے لکھ کے جو دال دلیہ چلتا ہے، اس سے بھی جاوں گا۔ ناول یعنی کتاب سے روزی تو کیا روٹی بھی نہیں ملتی۔

سال بھر پہلے ممبئی کی ایک فیس بک آئی ڈی اسلم شیخ نے اصرار کرنا شروع کیا، کہ اپنی تحریریں یک جا کر کے انھیں بھیجوں، وہ ممبئی سے کتاب شایع کرنا چاہتے ہیں۔ رُعب تو بہت پڑتا ہے، کہ ہندُستان سے کتاب شایع ہو گی، لیکن میں اسے کوئی سنجیدہ آفر نہیں سمجھ رہا تھا۔ پھر ایک دن افسانہ نگار اخلاق احمد نے سر زنشی لہجے میں گِلہ کیا کہ میں فیس بک پر جو یاوہ گوئی کرتا ہوں، اس میں بہت سے افسانوں کے خیال ضائع کر دیتا ہوں۔ بہ جائے چند سطریں لکھنے کے انھیں افسانوں کا رُوپ دوں۔ میرا ان سے یہی کہنا تھا، کہ میں رائٹر تھوڑی ہوں؟ اُدھر اسلم شیخ کا اصرار بڑھتا گیا، انھوں نے بھائی اخلاق احمد ہی کا حوالہ دیا کہ وہ ہمیں جانتے ہیں، کہ ہم پبلشرز ہیں، آپ ان سے پوچھ لیں۔ بھائی اخلاق سے پوچھا تو انھوں نے تصدیق کی۔ ساتھ یہ بھی کہا، کہ روایت تو یہ ہے، کتاب پہلے پاکستان میں چھپے، پھر ہندُستان سے، لیکن اس میں بھی کوئی حرج نہیں، کہ پہلے ہندُستان سے چھپ جائے۔ مجبوراََ یا بہ خوشی مجھے کچھ کہانیوں کا انتخاب کرنا پڑا۔

کتاب صرف آن لائن آرڈر پر دستیاب ہے

اللہ مغفرت فرمائے، بھائی حسن ہاشمی (سب رنگ ڈائجسٹ) یہ سمجھا گئے تھے، کہ مختصر کہانی میں ایک سطر بھی اضافی نہیں ہونی چاہیے۔ ان سے یہ بھی سیکھا کہ افسانہ لکھتے یہ ذہن میں رہے کہ جو بات ایک سطر میں کہی جا سکے، اس کے لیے کئی کئی سطریں کھینچنا جرم کہلاتا ہے۔ یہ سبق مجھے از بر رہا۔ چوں کہ افسانہ لکھنا میرا پروفیشن نہیں ہے، تو مجھے سطروں، صفحوں کو اس لیے بھی نہیں بڑھانا پڑتا، کہ مجھے کچھ رقم اضافی مل جائے گی، جیسا کہ اردو زبان میں لکھنے والوں کا المیہ رہا ہے۔ اور نہ داستانوی بیان سے مجھے رغبت رہی ہے۔

مختصر کہانی کی تکنیک ہم نے گورے سے لی ہے، ایسے ہی جیسے اسکرین پلے کی تکنیک سمجھنے کے لیے ہم ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ کلاسیکل ہندی، عربی، فارسی داستانوں کی تکنیک جدا ہے۔ زبان کے زور پر بات سے بات نکالتا چلے جانا۔، منظر کشی کرنا، ناول نگاری میں، داستان گوئی میں، ٹی وی سیریل میں یہ تکنیک کار آمد ہوتی ہے۔ ہاں اسکرین پلے کی مشق سے یہ اعتماد حاصل کیا، کہ آپ مجھے ایک سچو ایشن دیں، میں پوری داستان بُن دوں گا۔ مختصر کہانی میں سو صفحوں کی بات کو پانچ سات دس صفحوں میں لانا ہوتا ہے۔ ایک اشتہاری سلوگن کی طرح، ’’نو بکواس، سیدھی بات۔‘‘

ایسی بہت سی وجوہ ہیں، کہ اچھا افسانہ ہمارے یہاں کم کم ہی لکھا گیا ہے۔ تو جن کے یہاں اچھا افسانہ لکھا گیا ہے، میرے لیے انھی کی پے روی مناسب تھی، کم لفظوں میں اپنی بات کہنا، جو نہیں کہا گیا، وہ قاری پہ چھوڑ دینا کی مِسنگ لنک پورا کرے۔ یعنی قاری پر اعتماد کرنا۔ الخ۔ اسکرین پلے کی تربیت تو یہاں بہت کام آئی، کہ میں نے کہانی کہتے ایک دو تجربے بھی کیے، لیکن یہ ناقدین پر چھوڑتے ہیں، میں کیوں بتاوں، میں نے کہاں کہاں کیا کیا تجربہ کیا۔ میں نے لکھا اور پیش کر دیا، اب یہ قارئین کا ہوا، وہ چاہے اس کے بخیے اُدھیڑیں، یا رفو گری کریں، قبول کریں، یا رد کریں۔

التماس یہ ہے کہ ’’آئنہ نما‘‘ پڑھتے، نہ منٹو کو ذہن میں رکھیں، نہ کرشن چندر کو، نہ عصمت، بیدی، اشفاق احمد، اسد محمد خان، بانو قدسیہ، غلام عباس، پریم چند، یونس جاوید، دگر کو۔ یہ سب گریٹ رائٹر ہیں، اور میں ان جیسا نہیں ہوں، کبھی ہو بھی نہیں سکتا۔ ’’آئنہ نما‘‘ یہ میں ہوں، اور بس یہی کچھ ہوں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran