ریاستی تشدد اور اس کا جواز


پاکستانی ریاست کو اپنے ’اختیار‘ کے حوالے سے سلامتی کے داخلی محاذ پر دو چیلنجوں کا سامنا ہے۔

سرفہرست معاملہ اس ’جواز‘ کی مکمل ’اجارہ داری‘ کا ہے جس کے تحت ریاست ’جبر‘ ، ’تشدد‘ یا ’طاقت‘ کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے لیکن نکتہ یہ ہے کہ اس طاقت کے استعمال کے ’جائز‘ یا ’قانونی اختیار‘ پر اس کی مکمل ’اجارہ داری‘ نہیں۔ دوسری جانب وہ غیرریاستی عناصر موجود ہیں جو ’تشدد‘ یا ’طاقت‘ کے استعمال میں اتنے ہی موثر ہیں۔ ان میں سے بعض گروہ بشمول طالبان، بلوچ علیحدگی پسند اور کالعدم عسکری تنظیمیں ایسی ہیں جو پاکستان کے شہری علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

قبائلی علاقوں سے عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کی صفائی کے لئے پاکستان فوج کی کارروائیوں کے آغاز سے ہی ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت مسلسل کہتی چلی آرہی ہے کہ ان تمام کوششوں کا مقصد ”تشدد کرنے“ پر صرف ”ریاست“ کی مکمل اجارہ داری (مناپلی) کی ’بحالی‘ ہے یعنی صرف ریاست کو یہ حق ہے کہ وہ طاقت کا استعمال کرے۔ یہ حق کسی اور کو قطعاً حاصل نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاست معاشرے میں موجود ’ناجائز‘ اور ’غیرقانونی‘ گروہوں کو اس ’صلاحیت‘ اور ’طاقت‘ سے محروم کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ معاشرے میں ’تشدد‘ کر سکیں۔

پاکستان جیسے منتشر یا بکھرے ہوئے معاشرے میں محض ’جبر و تشدد‘ یا ’طاقت‘ اور وہ بھی خاص کر طاقت کے ساتھ فوجی تشدد کا ہونا کافی نہیں۔ معاشرے میں امن وامان قائم کرنے کے لئے ریاست جو ’جبر و تشدد‘ کی اپنی قوت استعمال کرتی ہے، اس کا عوام کی نظر میں جائز اور قانونی ہونا بہت ضروری ہے۔ یعنی جب ریاستی قوت استعمال ہو تو عوام کو یقین ہو کہ یہ استعمال درست، قانونی اور جائز طورپر کیا گیا ہے۔

اس کے نتیجے میں دوسرا چیلنج جس کا ریاست سامنا کر رہی ہے وہ داخلی سلامتی اور امن وامان کے قیام کا ہے۔

یہ دوسرا درپیش ریاستی چیلنج معاشرے میں امن وامان کے قیام کے لئے تشدد کے جواز اور اس کی بحالی سے متعلق ہے۔ اس چیلنج کو سمجھنے کے لئے ہمیں پہلے اس احساس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی معاشرہ مذہبی، فرقہ وارانہ، سیاسی اور نسلی نکتہ نگاہ سے انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار معاشرہ تصور ہوتا ہے۔ ریاستی مشینری کی جانب سے تشدد کے استعمال کی تاریخ اگر ہم دیکھیں تو ریاست کے تشدد کے استعمال کے پیچھے مشکل سے ہی کوئی عمومی سماجی یا سیاسی اتفاق رائے پایا گیا ہے۔

پاکستانی ریاست اور بالخصوص فوج نے خصوصی کوششیں کی ہیں کہ سوات اور جنوبی وزیرستان میں مذہبی عسکریت پسندوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے قبل سیاسی اتفاق رائے پیدا ہوجائے۔ اس ضمن میں کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) کے ذریعے جو اتفاق رائے حاصل کیا گیا وہ محض سطحی، مصنوعی یا عارضی نوعیت کا تھا۔ گزشتہ دہائی کے آخری برسوں میں مذہبی عسکریت پسندوں کے خلاف ’تشدد‘ کے نتیجے میں معاشرے نے جو سماجی اور سیاسی انتشار برداشت کیا، وہ واضح نشاندہی کرتا ہے کہ سیاسی طبقے میں اتفاق رائے برقرار رہنے کا زیادہ تر انحصار ریاستی سرپرستی پر ہے، جو ایسے کٹھن اور فیصلہ کن مرحلے پر مشکل سے ہی معاشرے کو استحکام فراہم کر سکتا ہے۔

2014 ء میں پاکستانی ریاست نے شہروں میں موجودہ عسکری گروہوں کے خلاف کارروائی شروع کی تو سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ایک اور کوشش کی گئی، اگرچہ اس مرتبہ بھی یہ عمل نیم دلی سے ہی کیا گیا۔ شاید پاکستان کے سکیورٹی منصوبہ سازوں نے اس مرتبہ یہ ادراک کرلیا کہ جن سماجی اور سیاسی قوتوں سے وہ معاملہ کر رہے ہیں، ان طفیلی لیڈروں کی استعداد سے ماورا ہے۔ ان سیاسی اور سماجی قوتوں کے پاکستانی معاشرے میں اثر کا ایک اظہار اس وقت ہوا جب ان ٹی وی پر چھائی رہنی والی شخصیات کے چاہنے والوں کی تعداد مذہبی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے بعد لاکھوں میں ہوگئی۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ آبادی کا ایسا حصہ ہے جو مذہبی عسکریت پسندوں کے خلاف ریاست کے تشدد کے استعمال کے جواز کو چیلینج کرنے والوں کے دلائل سننے میں زیادہ دلچپسی رکھتا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز نے پاکستان کے شہری علاقوں میں انٹیلی جنس پر مبنی اکیس ہزار جبکہ قبائلی علاقوں میں جنگجووں کے خلاف لاتعداد آپریشن کیے ہیں۔ اکیس ہزار انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز میں سے زیادہ تر پنجاب میں کیے گئے اور حسب توقع ان آپریشنز میں بڑے پیمانے پر تشدد نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں ان آپریشنز پر وہ سماجی و سیاسی ردعمل بھی ہم  نے نہیں دیکھا۔

تشدد کے جائز ہونے کے راستے میں سب سے بڑا چیلنج قبائلی علاقوں سے اٹھا جہاں تحریک تحفظ پشتون (پی ٹی ایم) ریاستی تشدد کے جائز ہونے کے لئے بڑا سیاسی خطرہ بن کر ابھری۔ صرف سیاسی طریقوں کا استعمال بذات خود اس تحریک کے لئے ایک ایسی حقیقت بنا جس نے تشدد کے استعمال کے جائز ہونے کے سوال پر اس گروپ کی عوامی قبولیت اور ساکھ میں اضافہ کیا۔

ریاست کو احساس کرنا ہوگا کہ یہ گروپ مسلح جنگجووں کے طرز عمل کے قطعی برعکس 2004 سے سیاسی طور پر سرگرم عمل ہے۔ وہ غیر مسلح ہیں اور بدلے یا تشدد کی بات نہیں کررہے، وہ پاکستان کے آئین کے تحت حقوق مانگ رہے ہیں۔ طالبان اس سیاسی نظام کو ختم کرنا چاہتے تھے جس کی محافظ فوج ہے۔ آج کی تاریخ تک میری نظر سے ’پی ٹی ایم‘ کے کسی راہنما کا ایسا بیان نہیں گزرا جس میں اس نظام کو ختم کرنے کا اشارہ دیا گیا ہو۔

تاہم یہ گروپ قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کے تشدد کے استعمال کو چیلنج کر رہا ہے۔

پاکستانی سکیورٹی منصوبہ سازوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سنگین عدم استحکام کا شکار سلامتی کی اس صورتحال میں ’تشدد پر اجارہ داری‘ کی ’بحالی‘ ہی صرف وہ کام نہیں جسے انہوں نے انجام دینا ہے بلکہ انہیں ریاست کی جانب سے اس صورتحال میں ’تشدد‘ کے ’جواز‘ یا ’جائز‘ ہونے کی ’بحالی‘ کی ذمہ داری بھی ادا کرنا ہوگی۔ اگر یہ اجارہ داری (مناپلی) بحال ہوجائے اور اس کا ’جواز‘ یا ’جائز ہونا‘ بحال نہ ہو تو اس کے نتیجے میں معاشرہ بے انتہا سیاسی وسماجی عدم استحکام سے دوچار ہوسکتا ہے۔ یہ کہنا شاید مبالغہ نہیں ہوگا کہ طاقت، جبر یا تشدد پر قدرت یا اختیار ہونے یا مکمل اجارہ داری قائم ہونے سے زیادہ اہم اور ناگزیر پہلو اس کے استعمال کا ’درست‘ اور ’جائز‘ ہونا ہے۔

بدقسمتی سے 2014 وہ سال تھا جب فوج نے خود ہی ایک حق کے طور پر شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کی صفائی اور داخلی سطح پر سیاسی مخالفین کے خلاف دو ذمہ داریوں کی صورت اسے استعمال کرنا شروع کردیا۔ اسلام آباد میں زیرگردش سازشی نظریات کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھی ہم باآسانی کہہ سکتے ہیں کہ اگست 2014 سے جولائی 2018 ءمیں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے درمیان جو واقعات رونما ہوئے ہیں، ان کی بنا پر حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن) اور فوج میں براہ راست تصادم ہوا۔ عسکریت پسندوں کے خلاف تشدد کا بنیادی ہتھیار یعنی فوج اور ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے درمیان اس نوع کا تصادم ہونا اُس اتفاق رائے کے لئے زہر قاتل ہے جو معاشرے میں تشدد کے جائز ہونے کے لئے پیدا کیا گیا تھا۔

وقت متقاضی ہے کہ فوجی قیادت کو اس پہلو کو سمجھنا چاہیے کہ معمولی اور ادارہ جاتی سیاسی مفادات کا پاکستانی معاشرے پر براہ راست منفی اثرات پڑسکتا ہے اور یہ معاشرے میں زہر گھول سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).